یوں تو لفظ " آزادی" سن کر ہمیں اطمینان محسوس کرنا چاہیے لیکن وہ اس صورت میں ہو جب ہم آزادی کے مفہوم اور اسکی اہمیت سے واقف ہوں۔ تاریخ و فلسفے سے نابلد، ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے ساۓ تلے پروان چڑھنے والی نسل لفظ آزادی سے کیسے آشنا ہو۔ میرے ملک میں آزاد رہنا یا آزادی کا مطالبہ کرنا گالی اور جرم بن چکا ہے۔
ہمارے ہاں آزادی سے مراد بغاوت یا علیحدگی لی جاتی ہے۔ ہم لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت منظم منصوبہ بندی کے تحت ختم کر دی گئی یے۔ اسلیے ہم آج تک جان ہی نہیں پاۓ کہ آزادی ہے کیا اور اسی وجہ سے ہم اس سے خوفزدہ ہیں۔ یوں تو آزادی ایک وسیع تصور ہے لیکن ہم اگر اسے مختصراً سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انفرادی طور پر انسان کو بغیر کسی پابندی کے اپنی مرضی سے سوچنے، بولنے اور عمل کرنے کی آزادی میسر ہو۔ ہر شخص کو ایسے حالات میسر ہوں کہ وہ کسی صورت میں بھی قید محسوس نہ کرے۔
یا یوں کہہ لیجیے کہ کسی ملک یا ریاست کے باشندے جو کسی دوسرے فرد یا گروہ کے حکم کے تابع نہ ہوں اور انہیں بطور آزاد شہری آئینی خودمختاری حاصل ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ آزادی وہ بنیادی انسانی حق ہے جو بغیر کسی رنگ، نسل، قومیت، مذہب، مسلک، جنس اور معاشرتی رتبے کے امتیاز سے ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ ہم بظاہر تو 1947 میں آزاد ہو گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے برطانوی سامراج کے تسلط سے چھٹکارا حاصل کر کے ایک تسلط سے دوسرے تسلط تک کا سفر ہی طے کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حالات برطانوی سامراج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ برطانوی راج میں انارکی و انقلابی جرائم ایکٹ( رولٹ ایکٹ) کے زریعے آزادی اور حق کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو کچلا جاتا تھا۔ ان پہ بغاوت اور غداری کے مقدمے درج کیے جاتے۔ تو میرے ملک میں بھی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں اور اپنا آئینی حق مانگنے والوں کو غدار کہنے اور ان پر مقدمات کی روایت برقرار ہے۔ریاست اپنے آئینی حقوق مانگنے والوں کو غدار اور باغی کہتی ہے۔ ریاست نے ماضی میں آزادی اور آئینی حقوق کو تسلیم نہ کر کے ملک دو لخت کروا لیا۔ خودمختاری اور آئینی آزادی کے مطالبے کو بغاوت اور علیحدگی قرار دے کر بنگلہ دیش کے مسائل کے سیاسی حل کی بجاۓ طاقت کے استعمال کا رستہ اختیار کیا اور بالآخر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ اپنے ہی لوگوں کی محرومیاں دور کرنے کی بجاۓ طاقت سے انکی جمہوری آواز کو کچلنے کی کوشش کی لیکن وہ آوازیں تو آج تک کچلی نہ جا سکی۔ جمہوری حقوق کیلئے اٹھنے والی آوازیں آج بھی کسی اور صورت میں موجود ہیں لیکن ہم نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھا۔
آج میرے ملک میں ہمارے بلوچ بہن، بھائی اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو ہم انہیں غدار اور بیرونی ایجنٹ ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔ ہم یونیورسٹیوں میں انکا کوٹہ ختم کر دیں اور وہ سڑکوں پر صرف یہ مطالبہ کریں " کہ بندوق نہیں قلم مانگ رہے ہیں, دے دو" تو اس سے بڑا ظلم اور نا انصافی اور کیا ہو گی۔ وہ آئینی حقوق مانگیں تو ہم انہیں باغی کہیں۔ وہ آزادی مانگیں تو ہم انہیں غدار اور علیحدگی پسند کہیں۔ اپنا حق مانگنے پر ریاست اپنے ہی بچے نگلنے لگ جاۓ تو ان کی مخلصی اور وفاداری کا اور کیا امتخان ہو گا۔ ہم آخر کب سمجھیں گے کہ آزادی کا مطلب علیحدگی نہیں اور آزادی کوئی جرم نہیں۔ یہ سوچ ہمارے سماج میں جڑوں تک سرایت کر چکی ہے۔ ہم نے عمومی طور پر کسی کو سرکش یا باغی کہنا ہو تو ہم کہتے ہیں فلاں شخص بڑا آزاد ہے۔ میرے ملک کی عورت اگر آزادی مانگے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی ، جبر اور استحصال کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجاۓ صرف آواز بلند کرے تو ہم اس مطالبے سے بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم آزادی کے تصور سے اس قدر خائف ہیں کہ عورت مارچ میں اگر آزادی کا نعرہ بلند ہو تو ہم اسے بغاوت، سرکشی اور فخاشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر جیسے ہیرے کو غدار اور کافر کہہ کر کیا ہم نے ملک سنوار لیا؟
شیخ مجیب الرحمٰن، میر غوث بخش بزنجو،نواب خیر بخش مری، خان عبدالولی خان، جی ایم سید اور نواب اکبر بگٹی سے لے کر محسن داوڑ تک غداروں کا سلسلہ جاری ہے۔آخر ہم کب تاریخ سے سیکھیں گے۔ ہم کب سمجھیں گے کہ پاکستان کی آزادی اس کے ہر شہری کی آزادی میں مضمر ہے۔ ہم کب سمجھیں گے کہ ہر انسان آزاد پیدا کیا گیا اور آزادی اسکا بنیادی انسانی حق ہے جسے دنیا کا کوئی قانون اس سے چھینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ چودہ اگست کو کھوکھلے نعرے لگانے کی بجائے ریاست کو شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور سماجی آزادی یقینی بنانی ہو گی ورنہ تاریخ خود کو دہراۓ گی اور آپ کچھ نہ کر سکیں گے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...