روات سے آگے کلر سیداں روڈ پر آج کے کھنڈر اور کل کے مندروں کی یہ جوڑی دُکھی تھی جب منکیالہ کا سٹوپا دیکھنے کو جاتے مانی کو انہوں نے روک لیا تھا۔ صاحبو دُکھ انسانوں، جانوروں، پیڑ پودوں کا ہو یا پھر بے جان پتھروں اور عمارتوں کا، دُکھ تو دُکھ ہوتاہے، بےزبان، الفاظ سےعاری، گونگا، سلیم کوثرکی دیوارِگریہ کی طرح
دُکھ عبارت تونہیں جوتجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
پارسال پاک وہندکی آزادی پربٹوارےکی یہ کہانی جب پہلےپہل انگریزی میں کہی گئی تو ان جڑواں کھنڈروں کی تصویرپر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب کا کہنا تھا کہ دیکھو ہم نے تو ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو سنبھال کر رکھا ہواہے وہ وہاں ہماری مسجدیں شہید کررہے ہیں۔
اس ’عبادت گاہ‘ کو ذرا غور سے دیکھیے، ان کے اندرمکان مالک اپنے جانورباندھتےہیں اوربیرونی دیواروں پران کی عورتیں گوبرکی پاتھیاں لیپتی پوتتی ہیں۔
برا مت منائیے گا مگر یہی ہے ہمارا ہندوؤں کی عبادت گاہ کا احترام۔ اندرپڑی دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں نے آنکھیں بند کیں تو ان کی آرتی اتارنے اور بھجن گانے والے ایک افتاد کی مانند پڑی آزادی کا تاوان بھرنے کو ہجرت کرگئے۔ کلرسیداں کے مندروں اور سرحد پار کی بابری مسجدوں ایک جیسی کہانی ہے۔
کلر سیداں کے ان مندروں سے تھوڑا اُدھر پورب کےکھلتے دروازےکی اور کہوٹہ سے کچھ پہلے تھوہا خالصہ کا گاؤں ہے۔ پرانی حویلیاں ڈھے گئیں، گردورارے کی جگہ جامع مسجد نے لےلی مگر گدلے پانی سے بھرا اندھا کنواں آج بھی وہیں ہے جہاں حملہ آور حیوانوں سے اپنی عزتیں اور بچے بچاتی سکھ عورتیں قطار اندر قطار کود گئی تھیں۔ یہاں تک کہ کنویں کاپیٹ بھر گیا اور جب ڈوب مرنے کو کوئی جگہ نہ رہی تو اپنی عورتوں اور بچوں کی جانیں ان کے اپنے آدمیوں کی کرپانوں اور برچھیوں کا رزق ٹھہریں۔ تھوہا خالصہ تقسیم کے دنگوں کا وہ ناسور ہے جسکا داغ لاکھ دھوئیں ہمارے سبز عماموں سے نہیں جاتا۔
گلاب سنگھ کی حویلی تو قصہ پارینہ ہوئی مگر گاؤں سے کچھ پرے خودرو جھاڑیوں سے ڈھکے کنویں میں آج بھی بسنت کور کی ارداس بین کرتی ہے۔ بٹوارے کی لکیر کے اُس پار خالصوں کا ایسا ہی ایک تھوہا ’مُسلوں‘ کے خون اور تارتار ہوتی چنیوں کے ہم رنگ بابے کے سکھوں کی پگڑیاں رنگتا آج بھی کھڑا ہوگا بٹوارے کے للاری کی ہٹی پر ایک ہی رنگ تھا، تھوک کے بھاؤ، سُرخ، گاڑھا، بہتے ہوئے خون کا رنگ۔
تقسیم کےدنوں میں زور پکڑتےدنگوں میں جب سرحدعبور کرنے کی خواہش رکھتی ریل گاڑیاں کاٹ دی جاتی تھیں، لاہور کو رینگتی ہونکتی ریل گاڑی میں اکیلےمانی کا مان سنگھ کی بکل اوڑھےایک ناقابلِ یقین سفر۔
امبرسرکےسفرمیں ڈھاٹاباندھےڈاکوکےروپ میں سفرکرتی ماجھےکی سکھنی ہرناموں جواردگرد کےہنگام سےبےنیازچادرکی اوٹ میں ایک مسلمان لڑکےکومولیوں والےپراٹھےکےنوالےکھلا رہی تھی۔
’زندگی بھرکسی نےاتنی محبت سےمیرے منہ میں نوالےنہیں ڈالے تھے۔ میری اپنی ماں نےکبھی مجھےاتنی محبت سےنہیں کھلایا تھا۔
اس کی محبت نے مجھے حلال کردیا ممتاز!‘
فسادات کی مارا ماری میں سکھوں کی کرپانوں سے الجھتا بچ نکلتا مانی جب سرحد پار پہنچتا ہے تو احمد بشیر کا روپ دھار ایمن آباد کے لالہ مایارام کی کہانی کہتا ہے۔
سٹیشن سے تانگہ جب پرانے قبرستان کے پاس پہنچا تو انہوں نے تین لاشیں دیکھیں۔
لالہ مایارام، ان کاچھوٹابھائی اورسولہ برس کی بیٹی سیتا، جن کاخون ابھی بہہ رہاتھامگران میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ ابھی کچھ دیرپہلےسٹیشن پرلالہ مایا رام نےکہاتھا
لاہور میں خطرہ ہےمگر ایمن آبادمیں توبھگوان کی کرپاہے۔کچھ روز اپنی ماں کےپاس رہ لےپھرسیتا لاہور چلی جائےگی۔رام رام!‘
پھرمسجدکےنل پرتلوارپرلگی چربی دھوتابھٹی پہلوان ’میں اکیلا کہاں تھاجی، شیخ اور بوبا قصائی ساتھ تھےمیرے۔ مایارام کوتکبیر میں نےپھیری۔ شیخ نےاس کےبھائی کےسینےمیں برچھی ماری۔ بوبے قصائی کا شکار چھوٹا تھا مگر اس سے لڑکی کی گردن کٹتی ہی نہ تھی۔ نرم بہت تھی جی۔ اسے کافی دیر لگی۔‘
ایمن آبادکاتھانیدارسیدذوالفقارعلی شاہ بادشاہ جس کاحکم تھاکہ ہندوجالندھرمیں گاڑیاں کاٹتےہیں، مسلمانوں کی جان لیتےہیں اورقتل کا بدلہ قتل ہوتاہےاور یہ اسلامی کام ہے۔ اسلامی کام کو بھٹی پہلوان اور بوباقصائی کیسےٹال سکتےتھے!
اور پھر ماجھے کی سکھنی ہرناموں کی کہانی کہنے والا مفتی ممتاز الکھ نگری کی بندگلیوں میں ایمن آباد کی شیخانیوں کاذکر۔ الکھ نگری جو ٹوآئی سی نے ٹل کی لائبریری سے بذریعہ فوجی ڈاک استور بھجوائی تھی اور ہم نے اسے پہلے پہل پندرہ ہزارفٹ کی بلندی پر ہمالیہ کے ویرانے میں ایک اگلو میں پڑھا تھا۔ کتاب کے دوسرے ہی باب چھبیس ہندنیاں نےگھٹنےٹیکوادیےتھے۔
’کل ایمن آباد سےہندو ریفیوجی گاڑی گزر رہی ہے۔ گوجرانوالےکے لوگوں نےایمن آباد کوخبردارکردیا ہےکہ گاڑی لاہورنہ پہنچے۔ ایمن آباد کی عزت کاسوال ہے۔ اگرہم گاڑی کونہ روک سکےتومنہ دکھانےکے قابل نہ رہیں گے۔ گوجرانوالے کے لوگ طعنے دیں گے۔‘
عزت دار ایمن آباد میں گاڑی کٹی اور خون بھی بہا مگر ایمن آباد کی شیخانیاں بپھری شیرنیاں ثابت ہوئیں اور اس رات انہوں نے ایمن آباد کی گلیوں سےلوٹے گئے ’مالِ غنیمت‘ میں سے چھبیس ہندنیاں برآمد کروالیں۔ جس شہر کےمردوں نے جان اور مال لوٹے اسی شہر کی عورتیں قتلِ عام سے بچ جانے والی ہندو خواتین کی آبرو کی نگہبان ٹھہریں۔
پھر الکھ نگری میں ممتاز مفتی کا مشاہدہ، قدرت اللہ شہاب جس نے یاخدالکھی تو اسےاس لڑکی نےبھی پڑھا جو ’دلشاد بن کربھی دلشاد‘ نہ بن سکی تھی۔ اچھرہ کے پناہ گزین کیمپ میں ٹاٹ کےپردوں میں اٹی ان سے بھی بوسیدہ تپ دق کی مریضہ دلشاد۔ جس کے لیے آزادی ہوس کے پجاریوں کے چہروں کابدل جانا تھا۔
وہ عصمت جو سرحد کے اس پار بدمذہبوں نے تار تار کی، مملکتِ خداداد پہنچ کر اس کی عصمت دری مسلمان بھائیوں کے حصے میں آئی۔ شہاب کو جب وہ مِلی تو بے اختیار قلم کی جیبھ پھٹ گئی، ’لڑکی کیا تھی راکھ کا ڈھیر یا چوبِ خشک صحرا ـــ لگاکے آگ جسے کارواں روانہ ہوا۔‘
احمد ندیم قاسمی کا پرمیشور سنگھ ہو یا قرۃ العین حیدرکا آگ کادریا، امرتا پریتم کی ہُوک ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ ہو یا امبر(
@notyourpastry
) کی عنایت بھیشم ساہنی کا تمس، یا پھر خشونت سنگھ کا ’سانوں آ مِل یار پیاریا‘ کے سُروں میں رنگا ٹرین ٹو پاکستان،
بٹوارے کی کتھاگنجل در گنجل الجھتی چلی جاتی ہے تواس گرہ کی پرتیں منٹو کا ’کھول دو‘ کھولتاہے۔ مگرصاحبو تصویر کا ایک اور رُخ بھی تو ہے۔
بھیرہ پُھلاں دا سہرہ کا بھیروچی ہندو گیان سروپ ہے جو عمرکے آخری پہر بھی شیخ فضل حق پراچہ کو نہیں بھولا کہ بھیرہ کے ہندوؤں اور سکھوں کی زندگیاں شیخ صاحب کی قرضدار ہیں جو ہجرت کےسمے مسلمان بلوائیوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے کہ بھیرہ کے گلی کوچوں میں ناحق خون نہیں بہے گا۔
چک نمبر چورانوے ر۔ب اٹی کے چوہدری عبدالعزیز تھے جو جالندھر کے نہال گڑھ سے ہجرت کرکے لائلپور آئے تھے۔ ہمارے نانا کی سنائی بٹوارے کی کہانیوں میں ان یار بیلی سکھوں کا ذکر ہوتا تھا جو انہیں اور باقی مہاجروں کو نہال گڑھ کی سرحد تک اپنی حفاظت میں چھوڑنے آئے تھے۔
بٹوارے نے پنجاب اور بنگال کے دھڑوں کو تقسیم کرتی جو خون آشام لکیر کھینچی تھی اس کی کوکھ سے صرف دنگوں نے جنم لیا تھا۔ ایک گاڑھے، بہتے خون کے سُرخ رنگ نے سارے مذاہب کے رنگوں کو نگل لیا تھا۔ کیسری، بسنتی، سبز، سفید سب سرخی مائل ہوگئے تھے کہ بٹوارے کے للاری کی ہٹی پر ایک ہی رنگ تھا، تھوک کے بھاؤ، سُرخ، گاڑھا، بہتے ہوئے خون کا رنگ۔
عبداللہ حسین نے اداس نسلیں میں بٹوارے پر ایک باب معنون کیا ہے۔ روشن محل کی ایک شام عنقریب منقسم ہونے والے ہندوستان کے اونچے طبقے کے روشن خیال لوگ ایک بشاشت، لاتعلقی اور اطمینان قائم کرنے کی کوشش میں جو کہ اونچے روشن خیال طبقے کا خاصہ ہے ایک ممکنہ فساد کا سرسری سا ذکر کرتےہیں۔ ’آپ جانتے ہیں کہ حالات خراب ہورہے ہیں۔ بٹوارہ ہونے والا ہے۔ شائد فساد بھی ہوجائے‘
(عبداللہ حسین کے لفظوں میں)
مسعود، برمن جی کو یہ کہتے ہوئے بےساختہ بولا ’آپ بھی تو ہندو ہیں۔‘
’میں ۔۔۔ آں؟‘ برمن جی بوکھلاگئے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے عمررسیدہ چہرے پر اداسی پھیل گئی۔ ہاتھ ہوا میں اٹھا کر وہ آہستہ آہستہ بولے: ’میں اگر تمہارے گھرانے میں پیدا ہواہوتا تو یقین کروکہ اسی جوش وخروش، تعصب اور ایمان کے ساتھ تمہارے مذہب کی پیروی کرتا اور اس خاطر مرنے مارنے پر تیارہوجاتا۔ تم بتاؤ، اگر میرے گھرمیں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا میرے ماں باپ کے مذہب کےلیےوہ سب کچھ نہ کرتے جو اب اپنے مذہب کے لیے کررہے ہو۔ ہمارے مذہب کی بنیاد کیا ہے؟ اتفاق؟
کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ
اک سارے تن بدن میں مرے فق رہی ہے آگ
پاؤں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہ عشق میں گویا دبی ہے آگ
افسردگیٔ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
ـــ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...