(Last Updated On: )
علمائے کرام کی خدمات کے پس منظر میں
مئی ۱۸۵۷ء آزادئ ہندکا سنگ میل اِس لیے ہے کہ یہ نہ صرف اپنے پچھلے سو سال کا پس منظر پیش کرتا ہے بلکہ اِسی محور ومرکز سے ہمیں ۱۹۴۷ء تک کے میدان جنگ کی تیاری کانقشہ بھی ابھرتا ہے۔ تقریباً دو سو سال کی رودادِ چمن کو جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے کے لیے اسے تین حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ حصہ اول ۱۷۵۷ء سے ۱۸۰۰ء ، حصہ دوم ۱۸۰۰ء سے ۱۸۵۷ء اور حصہ سوم ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اِن ادوار کے پیش نظر جو منظر نامہ اُبھرتا ہے اُس سے یہی متبادر ہے کہ اورنگ زیب کی وفات (۱۷۰۷ء) کے بعد ہوسِ اقتدار ، آپسی رقابت اور رسہ کشی نے ملک کو مختلف بحران میں مبتلا کردیا تھا۔ نادرشاہ کی یلغار (۱۷۳۸ء) کے بعد ملک کا تنظیمی ڈھانچہ بھی چرمرا گیا۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے نے ریاستی نظام کو ہی نہیں تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور تمدنی اقدار کو بھی بے حد کمزور کردیا جس نے درپردہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کو استحکام بخشا۔ سات سمندر پار سے آنے والوں نے چالاکی اور ہوشیاری سے تجارت کے ساتھ ساتھ اقتدار پر بھی قبضہ جمالیا، ماضی کے دریچوں سے یہی شہادت ملتی ہے کہ غلامی کی دستک کا جسے لاشعوری طور پر پہلے پہل احساس ہوا وہ صوبۂ بنگال کا حکمراں نواب سراج الدولہ تھا جو ۲۳؍جون ۱۷۵۷ء کے دن پلاسی کے میدان میں ایک مجاہد کی طرح برسرِ پیکارہے اور رابرٹ کلائیو کے زیر قیادت ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازش کا شکار ہوا۔ اپنوں کی دغا اور فریب کی بدولت ہونے والی شکست پر رام نارائن موزوںؔ نے اپنی تلملاہٹ کو یوں منظوم کیا ؎
مئی ۱۸۵۷ء آزادئ ہندکا سنگ میل اِس لیے ہے کہ یہ نہ صرف اپنے پچھلے سو سال کا پس منظر پیش کرتا ہے بلکہ اِسی محور ومرکز سے ہمیں ۱۹۴۷ء تک کے میدان جنگ کی تیاری کانقشہ بھی ابھرتا ہے۔ تقریباً دو سو سال کی رودادِ چمن کو جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے کے لیے اسے تین حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ حصہ اول ۱۷۵۷ء سے ۱۸۰۰ء ، حصہ دوم ۱۸۰۰ء سے ۱۸۵۷ء اور حصہ سوم ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اِن ادوار کے پیش نظر جو منظر نامہ اُبھرتا ہے اُس سے یہی متبادر ہے کہ اورنگ زیب کی وفات (۱۷۰۷ء) کے بعد ہوسِ اقتدار ، آپسی رقابت اور رسہ کشی نے ملک کو مختلف بحران میں مبتلا کردیا تھا۔ نادرشاہ کی یلغار (۱۷۳۸ء) کے بعد ملک کا تنظیمی ڈھانچہ بھی چرمرا گیا۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے نے ریاستی نظام کو ہی نہیں تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور تمدنی اقدار کو بھی بے حد کمزور کردیا جس نے درپردہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کو استحکام بخشا۔ سات سمندر پار سے آنے والوں نے چالاکی اور ہوشیاری سے تجارت کے ساتھ ساتھ اقتدار پر بھی قبضہ جمالیا، ماضی کے دریچوں سے یہی شہادت ملتی ہے کہ غلامی کی دستک کا جسے لاشعوری طور پر پہلے پہل احساس ہوا وہ صوبۂ بنگال کا حکمراں نواب سراج الدولہ تھا جو ۲۳؍جون ۱۷۵۷ء کے دن پلاسی کے میدان میں ایک مجاہد کی طرح برسرِ پیکارہے اور رابرٹ کلائیو کے زیر قیادت ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازش کا شکار ہوا۔ اپنوں کی دغا اور فریب کی بدولت ہونے والی شکست پر رام نارائن موزوںؔ نے اپنی تلملاہٹ کو یوں منظوم کیا ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
۱۷۶۴ء میں انگریز تاجر بنگال کے بعد بہار پر بھی قابض ہوگئے۔ اُن کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کے پیش نظر ۱۷۶۷ء میں شعوری طور پر وطن کی عظمت، سالمیت اور آزادی کاخیال جس اولوالعزم شخص کے ذہن میں آیا وہ حیدر علی اور اس کا بیٹا ٹیپو سلطان تھا۔ ۴؍مئی ۱۷۹۹ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے ملک کے ایک اور مضبوط حصار مرٹھواڑے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ ۱۸۰۳ء میں مغل بادشاہ شاہ عالم سے معاہدہ کرتے ہوئے وہ بالواسطہ طور پر ہمارے ملک پر قابض ہوگئے، اِس طرح کہ سب نے محسوس کرلیا کہ ’’خلقت خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔
مغلوں، مرہٹوں، راجپوتوں اور دیگر حکمرانوں کے اقتدار کا درپردہ فیصلہ کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے عوامی استحصال کے ان گنت دروا کیے جس نے بہت سے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس پس منظر میں متعدد تحریکیں وجود میں آکر سرگرمِ عمل ہوچکی تھیں جن کا سلسلہ ہم شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء ۔۱۷۶۲ء) کی ہمہ گیر جمہوری تحریک سے جوڑ سکتے ہیں۔ اِس کی بنیاد انسانیت کے عام اُصولوں (عدل وانصاف، صحت وصفائی اور تربیتِ نفس) پر مبنی تھی اور یہ تحریک عوام کو جمہوری حقوق مہیا کرتی تھی۔ اس عظیم الشان انقلابی تحریک کا مرکز شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کی خانقاہ ’’جامعہ رحیمیہ‘‘ تھا۔ مفتی عطاء الرحمن کے مطابق:
’’مدرسہ رحیمیہ ابتدا ہی سے انقلابی تحریک کا مرکز رہا۔ یہاں کے فضلا اور علماء نے سامراجی قوتوں کا جم کر مقابلہ کیا اور انگریزوں کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوئے‘‘۔۱؎
مولانا امداد صابری مذکورہ تربیت گاہ کی خصوصیات پر یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ مدرسہ صرف درس گاہ نہیں تھا بلکہ برصغیر کی ایک انقلابی تحریک کا مرکزی ادارہ تھا جس نے پورے ہندوستان میں انگریزی سامراجیت کی جڑیں کمزور کرنے اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے تھے اور ایک جال پھیلایا تھا۔ اسے خانقاہ کی بھی حیثیت حاصل تھی جہاں لوگوں کے کردار و کیریکٹر بنائے جاتے تھے۔ وہاں انسان ڈھالے جاتے تھے اور مجاہدین کی تربیت کی جاتی تھی‘‘۔۲؎
نیازؔ فتح پوری اپنے ایک مضمون میں شاہ صاحب کی مجاہدانہ سرگرمیوں کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاہ صاحب کی ہدایات وتعلیمات کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور وہ صرف حکومت ہی کی اصلاح نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کامقصود عام سیاسی بیداری پیدا کرنا بھی تھا۔ انھوں نے صرف بادشاہ، امراء ، دربار ہی کی رہنمائی نہیں کی بلکہ کسانوں، پیشہ وروں ، مزدوروں، سپاہیوں، عالموں، صوفیوں، الغرض تمام طبقوں میں وقت کی ضرورت اور زمانے کے اقتضاء کے پیش نظر عام بیداری پیدا کرنے کی پوری کوشش کی‘‘۔۳؎
شاہ ولی اللہ کی تحریک نے ملک کی بگڑتی ہوئی اور انحطاط پذیر صورت اور غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کے تئیں بہت سے بیدار ذہنوں کو فعال ومتحرک بنادیا۔ خواجہ احمد فاروقی نے سیاسی صورتِ حال کی تصویر کشی ’’خدنگِ غدر‘‘ کے مقدمے میں ان الفاظ میں کی ہے:
’’۱۷۷۶ء میں مجنوں شاہ نے نیپال کی ترائی سے ایک فقیری تحریک شروع کی جس کامقصد بنگال میں انگریزوں کے کارخانوں اور اسلحہ کو تباہ کرنا تھا۔ اسی طرح کی ایک تحریک کرم شاہ نے شروع کی جو پاگل پنتھی کے نام سے مشہور ہے‘‘۔۴؎
مجنوں شاہ اور کرم شاہ کی تحریکوں کے علاوہ حاجی شریعت اللہ اور اُن کے بیٹے دادومیاں کی فرائضی تحریک اور تیتومیر کی تحریک بھی اس اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں کہ انھوں نے تحریکِ مجاہدین کے اثرات قبول کیے اور رفتہ رفتہ اس کے دائرۂ کار میں شامل ہوتے گئے۔ ابتداء ً یہ ساری تحریکیں بظاہر مذہبی رہیں مگر بعدہٗ ان کا دائرۂ عمل وسیع اور نصب العین مشترک ہوتاگیا۔ شمالی ہند میں شاہ ولی اللہ کی تحریکِ مجاہدین کو مرکزیت حاصل ہوتی گئی۔ وہ تحریک جو مسلمانوں کی اخلاقی گراوٹ، اُن کے کردار اور مذہبی عقائد ورسوم کی درستی اور ان کی معاشی فلاح کے لیے وجود میں آئی تھی اور جس کاخیال تھا کہ ملت اسلامیہ کے زوال کا سبب اُن کی اپنی اخلاقی گراوٹ ہے اور اُن کی اصلاح اس کے لیے مقدم ہے، انگریزوں کے خلاف پوری طرح صف آرا ہوگئی اور نعرہ جہاد دے کرآتشِ حُرّیت پورے ملک میں پھیلادی۔ شاہ ولی اللہ مجاہدوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’میں اُن فوجی آدمیوں سے کہتا ہوں کہ تم کو تو اللہ نے جہاد کے لیے ۔۔۔بنایا تھا۔ اس کو چھوڑ کر تم نے گھوڑسواری اور ہتھیار بندی کو پیشہ بنالیا۔ اب جہاد کی نیت اور قصد سے تمہارے دل خالی ہیں‘‘۔۵؎
وہ خالی دلوں میں پھر سے جذبہ سرفروشی کے ساتھ عزم اورحرارت پیدا کرتے ہیں۔ خواجہ احمد فاروقی نے اُن کے تحریکی نصب العین کی یوں تشریح کی ہے:
’’یہ تحریک مذہبی بھی تھی، سیاسی بھی، معاشی بھی اور ادبی بھی۔۔۔ اس تحریک نے بہت جلد سیاسی رنگ اختیار کرلیا اور وہ یہ کہ ملک کو بہت جلد انگریزوں سے پاک کیاجائے۔ اقتصادی نظام میں تبدیلی لائی جائے اور مزدوروں اور کاریگروں کو اُن کے صحیح حقوق دلوائے جائیں اور اُن کے اوپر کم سے کم بوجھ رکھا جائے‘‘۔۶؎
وطنِ عزیز کی خاطر ملک کی دیگر تحریکوں نے اسی نصب العین کو اپنا منہج ومنبع قرار دیا۔ ایک جانب اگر انگریزوں کی قوت اور حکومت میں روز بروز اضافہ ہوتاگیا تو دوسری طرف ملک کے دیگر مکاتبِ فکر کے دانش ور انگریزوں کی سازشوں اور فریب کاریوں کو بھی سمجھتے گئے اور اُن کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے موقع کے منتظر رہے۔
شاہ ولی اللہ کے بعد اُن کے جانشینوں نے تحریکِ مجاہدین کو آگے بڑھایا ۔ شاہ عبدالعزیز اور سید احمد شہید نے مذکورہ تحریک کی تمام ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے ۱۸۰۳ء میں انگریزوں کے خلاف فتوئ جہاد دیا کہ برطانوی ہندوستان دارالحرب ہے اور انگریزوں سے لڑنا ہمارا فرض عین ہے۔ جذبۂ جہاد سے مغلوب ہوکر مجاہدین سرفروشی کی تمنا میں جامِ شہادت نوش کرتے رہے۷؎ دیگر برادرانِ وطن بھی حب الوطنی سے سرشار ہوکر جذبۂ جہاد کے زیرِ اثر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بقول خواجہ احمد فاروقی اِس تحریک کے:
’’متوازی شنکر آچاریہ کے حلقہ بگوشوں کی سنیاسی تحریک بھی میر قاسم کے زمانے سے برطانوی حکومت کے مظالم کے خلاف صف آرا تھی‘‘۔۸؎
رفتہ رفتہ ملک میں ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا قائم ہوتی گئی۔ جذبۂ جہاد سے ملک کا تقریباً ہر طبقہ بلا کسی تفریق مذہب وملت سرشار ہوتاگیا:
’’ہزاروں فقیر، پنڈت، سادھو اور سنیاسی ملک کے گوشے گوشے میں بغاوت کے جذبات اُبھار رہے تھے۔ بااثر علماء نے جہاد پر زور دینا شروع کردیا۔ دہلی کی جامع مسجد میں ایک فتویٰ ہوا جس میں انگریزوں کے خلاف ہر مسلمان کے لیے جہاد فرض قرار دیا گیا۔ علماء نے شہروں اور دیہاتوں کے دورے کیے، تقاریر کیں، رضاکاروں نے گھر گھر جاکر چندہ جمع کیا۔ فقیر اور سنیاسی زیادہ تر چھاؤنیوں کے قریب قیام کرتے جہاں سپاہی اُن کے معتقد ہوجاتے‘‘۔ ۹؎
جولوگ میدانِ جنگ کے بجائے صرف غازئگفتار کے مردتھے، کہ انھوں نے دیگر ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے تحریکِ آزادی کو یوں مہمیز کیا۔ مثلاً شہروں اور قصبوں میں مختلف ڈراموں ، نظموں اور گیتوں کے ذریعے ہندوستانی عوام کو غلامی کااحساس دلایا۔ اس طرح ملک میں انگریزوں کے خلاف اس جذبۂ جہاد کے ذریعہ جوچنگاری سلگائی گئی وہ ۱۸۵۷ء میں بالآخر بھڑک کر شعلوں میں تبدیل ہوگئی۔ جنگ آزادی کابگل ۱۰؍مئی بروز اتوار، میرٹھ کی چھاؤنی سے بجا۔ میرٹھ سے ان شعلوں کی لپٹ نے پہلے دہلی پھر دیگر شہروں ۱۰؎ بعدہٗ پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر جو قلعہ معلی تک محدود تھا، سرفروشوں کی قیادت کے لیے باہر نکل آیا۔ نانا صاحب، رانی لکشمی بائی، تاتیہ ٹوپے، بیگم حضرت محل، شہزادہ فیروز بخت، عظیم اللہ خاں، کنور سنگھ، راجہ ہرنام سنگھ وغیرہ مختلف محاذوں کو سنبھال کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ علماء کرام کی خاصی کثیرتعداد بڑی تندہی وچابک دستی سے سرگرم عمل رہی۔ اپنی شعلہ بیانیوں سے جذبہ جہاد اُبھارتی رہی اور خود بھی شوقِ جہاد میں مرتبہ شہادت حاصل کرتی رہی۔ انگریزوں کے خلاف جم کر مورچہ لینے والوں میں علماء کرام کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں چند نمایاں شخصیات احمداللہ شاہ ، حاجی امداد اللہ،مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا محمد یعقوب نانوتوی، مولاناجعفر تھانیسری، مولانا احمد اللہ عظیم آبادی، مولانا یحییٰ علی، مولانا عبدالرحیم ، مولانااسماعیل دہلوی، مولانا عنایت علی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا نور اللہ، مولانا محمد امین، مولانا شاہ محمدابوسعید، مولانا مخدوم لکھنوی، مولانا عبدالقادر، مولانا رفیع الدین، مولانا فضل الحق خیرآبادی وغیرہ کی ہیں۔ مگر چوںکہ یہ جدوجہدِآزادی پوری طرح مسلح ومنظم نہ تھی دوسرے یہ کہ خانہ جنگی، آپسی چپقلش اور دہلی کی مرکزیت سے بے وفائی کا صلہ یہ ہوا کہ جنگِ آزادی کے شعلے جس تیزی سے بھڑکے اتنی ہی تیزی سے سرد بھی پڑگئے۔ ۱۹؍ستمبر۱۸۵۷ء کو اس ملک پر انگریزوں کاباقاعدہ قبضہ ہوگیا۔ اس کے اسباب وعلل تجزیاتی نتیجہ یہی ہے کہ انگریزوں کے پاس منظم فوج تھی، جدید سامانِ حرب سے لیس تھی، اپنی صفوں میں مقامی جاسوسوں کی بھی ایک تعداد تھی۔ بہت سے برادرانِ وطن ابن الوقتی اور مفاد پرستی کے شکار ہوگئے اور اپنے بھائیوں سے ہی بُغض و عناد رکھنے کے سبب انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ اس طرح برادرانِ وطن میں غداروں کا ایک طائفہ تیار ہوگیا اور افسوس صد افسوس کہ جانبازوں میں کوئی نظم وضبط نہ تھا۔ جدیداسلحہ جات سے عاری تھے۔ یوں جانیے سامانِ حرب کا فقدان تھا۔ منصوبے کے خلاف وقت سے بہت پہلے ہی یہ مورچہ کھول دیاگیا تھا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں محض جذبات سے جو نتائج نکلنے چاہیے تھے وہ نکلے۔ یوں شاہ ولی اللہ کی تحریکِ مجاہدین سے پیدا ہونے والی پہلی جنگ آزادی کو کچل کر بظاہر ختم کردیاگیا مگر اس نے عوام میں سرفروشی کا جو جذبہ متلاطم ہوا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب وجگر اور ذہن وفکر دونوں کو گرماتا رہا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی کے مطابق مذکورہ تحریک کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ:
’’ہندو اور مسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی اور ہندو مسلم سوال کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام طاقتیں جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مدمقابل آگئی تھیں، بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئیں۔ مرہٹے ایک مد ت سے مغلوں سے برسرِ پیکار تھے، لیکن ۱۸۵۷ء میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقاً کوئی عذر نہیں کیا۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خاں رہا۔ رانی جھانسی نے مسلمان تو پچی ملازم رکھے۔ احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں‘‘۔۱۱؎
بہر حال اس سیاسی ، سماجی ، تہذیبی اور تمدنی انقلاب (۱۸۵۷ء) کے بعد ہی بدلے ہوئے حالات میں دانشوروں نے ازسرِ نوملک وملت کے حالات کا جائزہ لیا اور رفتہ رفتہ ملی مفادات کے لیے کام کو آگے بڑھایا۔
ہنگامۂ محشر فرد ہونے کے بعد تحریک میں عملی شرکت کرنے والوں پر قہر واستبداد نازل ہوا۔ کسی کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے تو کسی کو فساد پر اُکسانے کے جرم میں کالے پانی کی سزا سنائی گئی۔ حکومتِ برطانیہ کے خلاف سازش رچنے اور غدر پر اُکسانے اور مجاہدین کی خفیہ امداد کرنے کے جرم عائد کیا گیا۔اُن کی جائیدایں ضبط کی گئیں۔ تختۂ دارپر تو بہتوں کو پہلے ہی لٹکاچکے تھے پھر کچھ تأمل کے بعد، ضرورتاً کالے پانی کی سزائیں سنائی جانے لگیں۔ علی گڑھ تحریک سے وابستہ اکثر اربابِ قلم نے اپنے خیالات کی توضیح کرتے ہوئے یہ صراحت کی کہ علمائے کرام اور باعزت افراد کو مختلف اذیتیں پہنچانا، ہنگامۂ غدر پر قابو پالینے کے بعد مسلمانوں کوتوپوں اور گولیوں کا نشانہ بنانا، انھیں کسی بھی الزام میں ملوث کرکے سزائیں سُنانا، اورکالے پانی کی تاعمر قید میں جکڑنا کمپنی کا ایک معمول بن چکاتھا۔
اسیران مالٹا(محمد میاں) ۔ تحریک آزادی اور مسلمان (دارالمؤلفین دیوبند) ۔ ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ (خلیق احمد نظامی)، تحریک آزادی ہند اور مسلمان (محمداحمد صدیقی)، ہندوستانی مسلمانوں کا جنگ آزادی میں حصہ (سید ابراہیم)، خدنگِ غدر (معین الدین حسن خاں)، اردو میں وہابی ادب (خواجہ احمد فاروقی)،اسباب بغاوت ہند (سرسید)، تاریخ سرکشی بجنور (سرسید)، آزادی کے نمائندہ مسلم مجاہدین (ڈاکٹرمختار احمد مکی)، دہلی کے قدیم مدارس ومدرس (مولانا امداد صابری)، انڈیا ٹوڈے (رجنی پام دت) وغیرہ جیسی اہم کتابیں انگریزوں کے خلاف مسلم دانش وروں کی مسلح جدوجہد کی گواہ ہیں۔ اردو شعروادب میں اس کو مختلف زاویوں سے پیش کیاگیاہے۔ ممتاز افسانہ نگار جوگندر پال نے کالے پانی کی سفاکیت وبربریت کی ’’پارپرے‘‘ کے عنوان سے تصویر کشی کی جس میں پورٹ بلیئر کے توسط سے انگریزوں کی آمرانہ ذہنیت اور آزادی کے متوالوں کی کیفیت کو اُجاگر کیا کہ کس طرح جھوٹے الزامات یا پھر چھوٹے چھوٹے الزامات کے تحت معتوبین حریت کو اس ویران جزیرہ میں قید کیا جاتا۔ پیغام آفاقی کے ناول ’’پلیتہ‘‘ میں بنگال کے منظر نامہ پر انگریزوں کا دارالسلطنت کلکتہ اُبھرتا ہے دمدم ہوائی اڈے سے جزائر انڈمان کے شہر پورٹ بلیئر اور ہُگلی ندی کے سہارے پیغام آفاقی نے اُس دلدوزمنظر کو پیش کیا ہے۔ جہاں دانش ور، شرفا اور علماء سسکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ راوی نے صیغۂ حاضر میں قاری کے ذہن کو ہموار کرنے کے لیے یوں وضاحت کی ہے کہ:
’’قیدی زنجیروں میں بندھے اس مادر وطن کو نم اور اُداس آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو اُن کی کوئی مدد نہیں کرپارہی ہے‘‘۔ (ص:۱۱۰)
فضا اور ماحول سے یہ بھی مترشح ہے کہ آبادی سے بہت دور اس ویران جزیرے کاانتخاب انگریزوں کی حکمتِ عملی میں شامل تھا جیسے :
۱۔ آمریت کے مظاہرے کے لیے خوف اور دہشت پیداکرنا۔
۲۔ تجربات وایجادات کے لیے محفوظ جگہ کا انتخاب کرنا۔
۳۔ بغیر اُجرت کے قیدیوں سے من مانی مزدوری کرانا۔
ناول نگار نے اِس فن پارے میں ماضی کو حال سے ، غلامی کو آزادی سے اس طرح منسلک کیاہے کہ قاری خود محسوس کرلیتا ہے کہ تاجر اور دانش ور معتوب کیوں کر ہوجاتاہے۔
’’یہ لوگ تاجر اور حاکم نہیں تھے، بہت خطرناک اور ظالم شکاری تھے۔ ان لوگوں نے جزائر انڈمان میں مجرم بستی کے نام پر جو آبادی قائم کی تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے جو ایڑی چوٹی کازور لگایا تھا وہ ہندوستان کے مجرموں کو صرف وطن سے دور رکھنے کے لیے نہیں کیاتھا۔ یہ تو صرف ان کے دندانِ ظاہری تھے۔ اُنھیں تو انڈمان کو اپنے فوجی مقصد کے لیے آباد کرنا تھا، اور پولیس اور عدالتوں کو باقاعدہ خفیہ ہدایات تھیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سزائے کالاپانی دے کر بھیجا جائے‘‘۔ (ص:۵۶)
۱۰؍مارچ ۱۸۵۸ء کو دوسو افراد پر مشتمل انقلابیوں کاپہلا قافلہ یہاں آیا جس میں سبھی مذاہب ومسالک کے لوگ شامل تھے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ۱۱؍جنوری ۱۸۶۶ء کو بمبئی سے جوجہاز جزیرہ انڈمان پہنچا اس میں بیش تر قیدی مسلمان تھے۔ ویران اور خطرناک جزیرے کو منصوبے اور حکمت عملی کے تحت آباد کرنے اور بندرگاہوں کی تعمیر کی ایک الگ تاریخ ہے۔ قیدیوں کے لیے کوٹھریاں تعمیر کرانے کاکام ۱۸۹۶ء میں شروع ہوا۔ ۱۹۰۶ء میں ۶۹۳ کوٹھریاں تیار ہوئیں۔ ان کال کوٹھریوں کے قصّے خوفناک جزائر سے زیادہ المناک ہیں۔ کولہو کے ذریعے ناریل یا سرسوں کا تیل نکلوانا تو معمولی بات ہے۔ شاید نت نئے تشدد کے طریقے بھی یہیں ایجاد ہوئے، آزادی کی لڑائی کے اِس کالے پانی میں جو کسی طرح بچ جاتے وہ قید کی طویل اور المناک مدت پوری ہونے کے بعد باقی ماندہ زندگی گزارنے کے لیے یہیں بس جاتے۔ پیغام آفاقی نے اِس روح فرسا داستان کو ایک الگ پس منظر میں بیان کیا ہے ۔ اُن کے ناول ’’پلیتہ‘‘ نے جہاں اُن بارودی سرنگوں کی نشاندہی کی ہے جن پر عالمگیریت اور صارفیت کا انحصار ہے، وہیں وہ اُن مجاہدین کے ہیولے بھی تیار کیے جن کے لیے ’’کالاپانی‘‘ کی سزا تجویز کی گئی۔ ’’پلیتہ‘‘ میں انھوں نے بالواسطہ طور پر اُن سرفروشوں کا ذکر کیا ہے جنھیں آزادی اور خود مختاری کی آواز اُٹھانے کی سزا دی گئی اور یہ سزا ’’کالاپانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ذرا اِس اعتبار سے بھی غور کیجیے کہ وطن سے محبت کرنے والوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں ہوئیں کیوں کہ چھوٹے چھوٹے ہندواورمسلمان حکمرانوں نے آپسی اختلافات کو بُھلاتے ہوئے اپنے اپنے انداز سے سیاسی اور انتظامی محاذ کو سنبھالنے کی کوششیں کیں۔ اس اتحادو اتفاق اور ذہنی وفکری بیداری کو دیکھ کر انگریزوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ نتیجتاً وہ اُن حربوں پر اُتر آئے جس کی توقع خود انگریزوں سے ہمدردانہ رویہ رکھنے والوں کو نہیں تھی۔۱۸۵۷ء ہندوستان کی نئی تاریخ رقم کیے جانے کاوہ باب ہے جو علی گڑھ تحریک کی شکل میں اُبھرتا ہے جن کے پیش نظر تاریخ اندلس تھی۔ بانئ تحریک دشمن کی دیرینہ رنجش اور اپنوں کے جوش جنوں سے واقف تھے۔ اپنے نقائص اور دوسروں کے محاسن سے بھی باخبر تھے۔ وقت اور حالات کے پیش نظر سرسید اور اُن کے رفقاء مفاہمت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
سرسید احمد خاں کی مفاہمت کی تھیوری یعنی اس سے مراد اپنا تشخص فراموش نہیں کرنا ہے، بلکہ دین خداوندی اور شریعت مصطفوی پر مکمل استطاعت کے ساتھ چٹان کی طرح جمے رہنے کے ساتھ، غیروں اور دشمنوں سے نہایت حکمت عملی سے کام نکالنا مفاہمت کا راستہ ہے۔ جو سرسید نے کردکھایا ہے۔ یہی سرسید کی مفاہمیت تھیوری ہے چاہے تعلیم نسواں کا میدان ہو یا علم کلام اور علم تفسیر یا علی گڑھ تحریک کا مکمل منصوبہ ہرجا پوری قدرت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
افسوس صد افسوس ، حالی اور سرسید کے چند ایک رفیقان کو چھوڑ کر سرسید کے نظریہ مفاہمت کو سمجھنے سے عام طور سے احباب علم ودانش قاصر رہے۔ اور یہی قصرِ فہم سرسید تحریک کا سب سے بڑا رقیب بنا۔ جس کی تفہیم کی ہنوز اشد ضرورت ہے۔ سرسید اور ان کے رفقاء جوش سے نہیں ،ہوش سے کام لیتے ہوئے منطقی اور استدلالی طریقِ کار پر زور دیتے ہیں ۔ اِسی لیے یہ تحریک ہندوستانیوں میں آپسی نفاق کو ختم کرنے اور جدید علوم وفنون کو حاصل کرنے کا اعلانیہ بھی یہی تحریک ہے اور یہی تحریک شکست خوردگی کے بعد فتح یابی کا نکتہ آغاز بھی ہے۔ یہ بغیر جاہ ومنصب، مرد وزن، امیر وغریب، مذہب اور ذات پات سے بلند ہوکر ملک وقوم کے لیے جذبہ جاںنثاری کا مظہر بھی ہے۔ یہ تحریک سابقہ صورتِ حال کا محاسبہ اور اپنی کوتاہیوں کی تلافی کا آغاز ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ کل کے تمام حساس افراد ، اسیران کالاپانی جو ملک وملت سے محبت کرتے تھے ان کو اس لیے اذیتیں دی گئیں کہ وہ درس حریت دے رہے تھے۔ آزادئ اظہار اور آزادئ رائے کو اپنی زندگی سے اہم سمجھ رہے تھے۔ اُن کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ہمیں آزادی تو مل گئی لیکن رفتہ رفتہ اُن جاں نثاروں کے کارنامے جو سُنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل تھے ، نہ جانے کیوں صفحۂ قرطاس پر دُھندلے ہوتے چلے گئے۔ اِس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ مگر ہم یہ کہہ کر دامن نہیں جھاڑ سکتے کہ اکثر یتی فرقہ اپنی بڑائی دکھا کر اقلیتی فرقے سے چشم پوشی اختیار کررہا ہے یا حکومت ایک طبقے یا فرقے کو فوقیت دے کر دوسرے کی دل آزاری کررہا ہے۔ خود ہم نے کیاکیا؟ کیااردو کی موٹی موٹی کتابوں کے ان گنت صفحات پر درج علمائے کرام کے کارناموں کو نئی نسل تک پہنچانے کاکوئی جتن کیا؟ کیا ہم ان علمائے حریت کے سچے وارث ہیں، کیا ہم ان فتویٰ شہادت ولی اللٰہی کے سچے محافظ وامین ہیں اور کیا ہم سرسید کی مفاہمت اور صلح رحمی کی پالیسی کو عام کرنے میں کوئی ایک اقدامی عمل کیا۔افسوس تو یہ ہے کہ اُن سے سبق لینے والوں کی بات تو دُور کی، اُن صفحات کو دلجمعی سے پڑھنے والے بھی اِکّا دُکّا ہی نظر آتے ہیں جب کہ آزادی مشترکہ جدوجہد کاثمرہ ہے۔ تو پھر تفریق کیوں؟یہ کیسا لائحۂ عمل ہے؟ نذرانہ عقیدت کایہ کون سا طریقہ ہے کہ ہم آزادی کی نعمت سے مالا مال تو ہوئے مگر اپنے محسنوں اور رفیقوں سے چشم پوشی اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ آج تاریخ کی ورق گردانی کریں تو انڈومان نیکوبار سیاحت کامرکز نظر آئے گا۔ کالا پانی، سیلولر(Cellular) جیل بھی آراستہ وپیراستہ دکھائی دے گا۔ نِیٹ پر تلاش کریں، ڈاکومینٹری فلم یا یوٹیوب پر دیکھیں تو ظلم وستم کی گواہ عمارتیں ضرور نظر آئیں گی جواسپتال یا یادگار عمارتوں میں تبدیل کردی گئی ہیں۔ مگر دوچار ناموں کے سوا ملتِ اسلامیہ ہند کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوگا، ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ آئیے، سرسید کی منصوبہ بند مفاہمت پالیسی کے پیش نظر، علمائے حریت اور پاسبان انقلاب کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے واسطے کچھ کر دکھائیں تاکہ شہیدانِ انقلاب کا کچھ قرض اتارا جاسکے۔
حواشی
۱؎ الواح الصنادید، مفتی عطاء الرحمن ،ص: ۴۵
۲؎ دہلی کے قدیم مدارس ومدرس، مولانا امداد صابری، ص: ۱۴۴
۳؎ شاہ ولی اللہ۔سترھویں صدی کا ایک مذہبی، اخلاقی وسیاسی مجاہد، نیاز فتح پوری، نگار پاکستان، مئی ۱۹۸۸ء، ص: ۱۶
۴؎ خدنگِ غدر، معین الدین حسن خاں، مقدمہ خواجہ احمد فاروقی، ص: ج د
۵؎ شاہ ولی اللہ دہلوی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، الفرقان، شاہ ولی اللہ نمبر ۱۹۴۱ء، ص: ۹۹
۶؎ اردو میں وہابی ادب، خواجہ احمد فاروقی، ص: ۱۷
۷؎ ۱۸۰۶ء میں ان علماء نے انگریزوں کے جبر یہ تسلط سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے نہایت منظم جدوجہد کی لیکن بالاکوٹ میں شاہ عبدالعزیز اور سید احمد شہید کی شہادت کے بعد یہ تحریک کمزور پڑگئی اور پھر اس کامرکز عظیم آباد (پٹنہ) کامحلہ صادق پور قرار پایا۔
۸؎ خدنِ غدر، ص: د
۹؎ تحریکِ آزادی میں اردو کا حصّہ، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ص: ۵۷
۱۰؎ ۱۳؍مئی کو فیروز پور (پنجاب) میں، ۱۴؍مئی کو مظفر پور میں اور ۲۰؍مئی کو علی گڑھ میں
۱۱؎ ۱۸۵۷ء کاتاریخی روزنامچہ، مرتب خلیق احمد نظامی، ص: ۳۱
٭٭٭