میں آج فیس بک دیکھ رہا تھا۔ اس میں ایک پوسٹ میں جناح اور ان کے حواریوں کو برا بھلا کہا گیا تھا۔ اس پوسٹ کو دیکھ کر مجھے بہت برا لگا اور لڑکپن کا پڑھا ہوا ایک مراسلہ بلکہ اسے واقعہ سمجھیں یاد گیا۔ یہ آپ کو بھی سنا رہا ہوں تاکہ ہمیں احساس ہوکہ ہمیں الگ وطن حاصل کیوں کیا۔ ہم اپنا الگ وطن حاصل کرکے نہ صرف معاشی آزادی حاصل کی بلکہ ہم نے اپنے مذہب، ثقافت، توہمات اور خیالات کو ہندو مذہب سے بہت حد تک دور کرلیا۔
یہ واقعہ میں جو سنا رہا ہوں مجھے یاد نہیں ہے کب کا ہے۔ شاید ستر کی ڈھائی کی بات تھی اور میرا لڑکپن تھا۔ اس وقت ایک ہی ٹی وی چینل پی ٹی وی تھا اور ٹی وی بھی بہت کم گھروں میں تھا۔ اس وقت تفریح کے ذرائع میں سنیما تھا اور خبروں کے لیے ہر پڑھے لکھے گھر میں اخبار آتا تھا۔ مجھے بچپن سے کتب بینی اور اخبار پڑھنے کا شوق تھا۔ اس لیے اخبار ہمارے گھر آتا تھا۔ میرے پڑھنے کی رفتار بہت زیادہ تھی اس لیے کچھ دیر میں اخبار ختم ہوجاتا تھا۔ اس لیے میں خبروں کے علاوہ اشہارات، مضامین، مراسلے اور اراریہ بھی پڑھا کرتا تھا۔
ایک دن ایک خاتون کا مراسلہ چھپا جو کہ دبئی میں رہتی تھیں۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے پڑوس میں ایک مسلمان خاتون جو انڈیا کی تھی رہتی تھی۔ ان سے یار غیر کی وجہ سے بڑھے اچھے گھریلو مراسم تھے۔ ایک دن پڑوس کی خاتون آئیں اور بہت خوش تھیں۔ ان خاتون نے اپنی پڑوسن سے خوشی کا سبب پوچھا؟ پڑوسن نے بہت خوش ہوکر کہا میں اپنی بہن کو خواب میں دلہن بنے دیکھا ہے اور غالباً اس نے دوسرا جنم لے لیا ہے۔ پڑوسن کی بہن کا بچپن میں کسی بیماری میں انتقال ہوچکا تھا جس کا پڑوسن ذکر کرچکی تھیں۔ ان خاتون نے اپنی پڑوسن کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم مسلمان ہیں اور ایسا سوچنا غلط ہے اور یہ ہمارے ایمان کے خلاف ہے۔ مگر ان کی پڑوسن نے ایک نہیں سنی اور اپنے گھر چلی گئی۔
خاتون کا کہنا ہے میں اپنی پڑوسن کی بات سن کر سنتاٹے میں آگئی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا ہم نے الگ وطن حاصل کرکے اپنے مذہب، ثقافت، توہمات اور خیالات کو ہندو مذہب دور کرلیا ہے۔ میں اس واقعہ سے پہلے یہ کہتی پھرتی تھی کہ جناح نے کیا لٹا پھٹا پاکستان حاصل کیا ہے اس سے بہتر ہم متحد بہتر تھے۔ مگر اس دن مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں ہندوؤں سے آزادی دلا کر مذہب، ثقافت، توہمات اور خیالات کو ہندو مذہب سے محفوظ کرلیا۔ اس سے پہلے قائد اعظم کو میں صرف محمد علی جناح بھی نہیں بلکہ صرف جناح کہتی تھی۔ اس کے بعد میں احترام سے انہیں کو قائد اعظم کہنے لگی۔
اس کے غالباً دس پندرہ دن کے بعد اسی اخبار میں ایک مراسلہ اور چھپا۔ جس میں ایک صاحب نے ایک اور مراسلہ تحریر کیا تھا۔ جس میں انہوں نے ذکر کیا تھا کہ میں گیا گیا۔ وہاں بازار میں ہر ایک دوکاندار نے لکشمی کی تصویر لگائی ہوئی اور اس تصویر پر ہار ڈالے ہوئے تھے۔ مجھے تو اس وقت حیرت ہوئی میں جن صاحب پاس گیا تھا وہ مسلمان تھے اور انہوں نے بھی دولت کی دیوی لکشمی تصویر لگائی تھا اور اس پر ہار بھی پڑے تھے۔ میں ان صاحب سے پوچھا آپ نے یہ تصویر مسلمان ہوکر کیوں لگائی ہے۔ کہنے لگے برکت کے اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ صاحب کہتے ہیں میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر انہیں نے میری ایک نہیں مانی۔ پھر یہ جان کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ اس بازار میں مسلمان دوکاندار بھی ہیں اور سب نے لکشمی کی تصویر یا مورتی حصول برکت کے لیے رکھی ہوئی ہے۔
متھدہ ہند میں مسلمان ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے اور ان کے خیالات پر ہندوؤں کا اثر ہوگیا تھا اور وہ ان کے دیوی دیوتاؤں کو ماننے لگے تھے۔ مسلمان مختلف ہندوؤں کے تہوار تو منائے جاتے تھے اور ان میں دیوی دیوتاؤں سے منت مانگی جاتی تھی۔ خاص کر جب چیچک کا زور ہوتا تھا تو ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی سیتلا کے مندر میں جایا کرتے تھے اور چیچک سے بچنے کے لیے ستیلا کو سجدہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی کرتے تھے۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے نواب اور دوسرے لوگ بھی ہوا کرتے تھے۔
ڈاکٹر عمر اپنی کتاب برصغیر کی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر میں لکھتے ہیں۔ عام مسلمانوں جو مسلم تہذیب سے اندرونی علاقوں میں رہتے تھے۔ ان میں مسلمان اور ہندو میں صرف نام کا فرق تھا۔ مسلمان بدستور اپنے آبا و اجداد کے خداؤں خاص کر گاؤں کادیوی یا دیوتا پوجا کے ساتھ دوسری رسمیں کھیتی باڑی اور بیماریوں، شادی بیاہ اور تہوار کی رسمیں اسی طرح ادا کرتے تھے جیسے کے ہندو ادا کرتے تھے اور ہندو رسم و رواج، عادات و اطوار، طرز معاشرت اور توہمات نے اسلامی رسم و رواج کو پس پشت ڈال دیا اور اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے رسم و رواج اور سماجی اور معاشی زندگی میں صرف نام کا فرق رہ گیا۔
مثلاً میو جو پہلے ہندو تھے ان کے اکثر نام ہندوانہ ہوا کرتے تھے اور ان کے یہاں شادی میں اگرچہ نکاح ہوتا ہے لیکن ہندوانہ رسوم پھر بھی جاری رہیں۔ ان کے مذہبی عقائد ہندو دھرم اور اسلامی ملے جلے تھے۔ یہ دیوی دیوتاؤں کی پوجا بھی کرتے اور ہولی بھی مناتے تھے۔ آج جو مقبوضہ کشمیر کے لوگ اپنی آزادی کے لیے جو قرباییاں دے رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں آزادی کی بدولت ہندوؤں کی بالدستی سے نجات حاصل کرکے اپنے مذہب، معاشی اور رسم و رواج کو محفوظ ہوجائے گا۔ اللہ جل جلال ان کی جدو جہد کو کامیاب کرے۔ آمی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...