تحریر: برٹرینڈ رسل
ترجمہ: قاضی جاوید
یہاں میں اس مسئلے پر بحث کرنا چاہتا ہوں کہ معاشرے میں رہنے والے انسانوں کے لیے آزادی کس حد تک ممکن ہے اور کس حد تک پسندیدہ۔ شاید پہلے ہمیں آزادی کی تعریف پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کو بہت سے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا مفید استدلال کی خاطر ہمیں ان میں سے کسی ایک تعریف کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں معاشرہ (برادری) کسی قدر مبہم اصطلاح ہے لیکن اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔
میرے خیال میں الفاظ کو قیاسی مفہوم میں استعمال کرنا پسندیدہ بات نہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ جرمن فلسفی ہیگل اور اس کے مقلد سمجھتے ہیں کہ “سچی” آزادی پولیس کی فرمانبرداری کے حق سے عبارت ہے۔ وہ اسے عام طور پر اخلاقی قانون کا عنوان دیتے ہیں۔ اب اس میں شبہ نہیں کہ پولیس کو اپنے اعلی حکام کا حکم ماننا چاہیے مگر اس تعریف سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ خود حکومت کے فرائض کیا ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے والوں کا عملی طور پر استدلال یہ ہے کہ ریاست لازماً اور اپنی تعریف کے اعتبار سے بے خطا ہوتی ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ تعریف ان ملکوں کے حوالہ سے غیر موزوں ہے جن میں جمہوریت رائج ہے اور جماعتی حکومتیں قائم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے ملک میں لگ بھگ آدھی قوم حکومت کو بدکار اور بداعمال خیال کرتی ہے لہذا ہم “سچی” آزادی کو آزادی کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔
انتہائی تجریدی مفہوم میں “آزادی” کا مطلب ہے خواہشوں کی تکمیل میں بیرونی رکاوٹوں کی عدم موجودگی۔ اس تجریدی مفہوم کے حوالے سے قوت میں اضافہ کر کے یا پھر خواہشوں میں کمی کر کے آزادی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس تعریف کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کے دو چار روز گزار کر سردی سے مر جانے والا کیڑا مکمل آزادی سے ہمکنار ہوتا ہے، کیونکہ سردی اس کی خواہشوں کو یوں بدل دیتی ہے کہ اس کے پاس محال کے حصول کی خواہش کے لیے کوئی لمحہ باقی نہیں رہتا۔ انسان بھی اس قسم کی آزادی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ کمیونسٹ اور ریڈ آرمی کے ؟؟ بن جانے والے ایک نوجوان روسی امیر نے مجھے بتایا تھا کہ روسیوں کی طرح انگریزوں کو جسمانی جکڑبندی کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ان کے ذہن اور روحیں ہمیشہ اس قسم کی جکڑبندیوں میں جکڑی رہتی ہیں۔ شاید اس بات میں تھوڑی بہت سچائی شامل ہے۔ بلاشبہ دوستووسکی کے حقیقی کردار روسیوں سے مختلف ہیں، لیکن وہ ایسے کردار ہیں جن کو ایک روسی ہی تخلیق کر سکتا تھا۔ وہ سب ایسی متشدد خواہشات کے حامل ہیں جن سے ایک عام انگریز، کم از کم جہاں تک اس کی شعوری زندگی کا تعلق ہے، آزاد ہوتا ہے۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ اگر کسی معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تو پھر وہ اس معاشرے جتنا آزاد نہیں ہو سکتے جس کے ارکان زیادہ پرامن خواہشوں کے حامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواہش کی ترمیم و اصلاح سے آزادی کو اتنا ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے جتنا کہ قوت میں اضافے سے پہنچتا ہے۔
یہ امر ایک ایسی ضرورت کو واضح کرتا ہے جس کو سیاسی فکر میں اکثر اوقات نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میری مراد اس شے سے ہے جس کو ہم “نفسیاتی حرکات” کا عنوان دے سکتے ہیں۔ عام طور پر سیاسیات میں انسانی فطرت کو ایک ایسے مقولہ کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے جس سے خارجی حالات کو مطابقت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ تاہم سچی بات یہ ہے کہ خارجی حالات انسانی فطرت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اسے تبدیل کرتے ہیں اور یہ کہ ان دونوں کے درمیان، یعنی انسانی فطرت اور خارجی حالات کے درمیان ہم آہنگی باہمی تعامل کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر ہم کسی شخص کو ایک ماحول سے نکال کر اچانک دوسرے ماحول میں لے آئیں تو ہو سکتا ہے وہ آزادی سے بہرہ ور نہ ہو سکے، چاہے وہ نیا ماحول ان لوگوں کو آزادی مہیا کرتا ہو جو اس کے عادی ہیں۔ لہذا ہم تغیر پذیر ماحول کے زیر اثر پیدا ہونے والی مختلف خواہشوں کے امکان پر نگاہ رکھے بغیر آزادی کے مسئلے سے نبرد آزما نہیں ہو سکے۔ بعض صورتوں میں اس سے آزادی کا حصول مشکل تر ہو جاتا، کیونکہ نیا ماحول پرانی خواہشوں کی تسکین کرنے کے باوجود ایسی نئی خواہشیں پیدا کر سکتا ہے جن کی تسکین اس کے بس کا روگ نہ ہو۔ اس امکان کی وضاحت صنعت کاری کے نفسیاتی اثرات سے کی جا سکتی ہے۔ صنعتی ترقی نئی ضرورتوں اور حاجتوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ کوئی شخص محض اس لیے رنجیدہ ہو سکتا ہے کہ وہ موٹر کار نہیں خرید سکتا۔ جلد ہی ہم سبک اپنا اپنا طیارہ بھی خریدنا چاہیں گے۔ یہی نہیں بلکہ کوئی شخص اپنی لاشعوری ضروریات کے حوالے سے بھی رنجیدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً امریکیوں کو آرام کی ضرورت ہے، لیکن وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ میں جرائم کی لہر کی بڑی حد تک توجیہہ اسی بات کے حوالے سے کی جا سکتی ہے۔
لوگوں کی خواہشیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں لیکن بعض ایسی بنیادی ضرورتیں ہیں جن کو ہم کم و بیش عالمگیر قرار دے سکتے ہیں ان میں روٹی، پانی، صحت، لباس، رہائش، جنس اور ولدیت اہم ترین ہیں۔ (ویسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گرم علاقوں میں رہائش اور لباس مطلقاً ضروریات نہیں پھر بھی منطقۂ حارہ کے علاقوں کو چھوڑ کر ہم ان کو فہرست میں شامل کر سکتے ہیں) اب معاملہ یہ ہے کہ آزادی میں جو کچھ بھی شامل ہو، لیکن اس فہرست میں شامل کی جانے والی کسی شے سے محروم ہو کر کوئی شخص آزاد نہیں ہو سکتا۔ یہ اشیا تو آزادی کا کم از کم تقاضا ہیں۔ آئیے اب ہم “معاشرے” کی تعریف پر توجہ دیں۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ یہاں ہم نے کم از کم آزادی کی جو بات کی ہے وہ جنگلوں میں زندگی بسر کرنے والے رابنسن کروسو کے مقابلے میں رہنے والے کسی فرد کو بہتر طور پر حاصل ہو سکتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جنس اور ولدیت بنیادی طور پر سماجی نوعیت کی حامل ہیں۔ “معاشرے” کی تعریف ہم یوں کر سکتے ہیں کہ اس سے تعاون کرتے ہیں۔ جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے، خاندان سب سے ابتدائی سماجی گروہ ہے۔ معاشی سماجی گروہوں نے بہت بعد میں جنم لیا تھا۔ جنگ میں تعاون کرنے والے گروہ بظاہر اس قدر ابتدائی نہیں ہیں۔ دنیائے جدید میں معیشت اور جنگ سماجی پیوستگی کے اہم محرکات ہیں۔ خاندان یا قبیلہ کی سطح سے آگے بڑھ کر معاشرے نے جو ترقی کی ہے، اس کی طفیل ہماری آزادی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ منظم معاشرے میں ہم زیادہ محفوظ ہوتے ہیں اور دشمنوں کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان کم ہوتا ہے۔ تاہم یہ دعوی مشتبہ ہی ہے۔
اگر ہم نفسیاتی حرکیات کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی شخص کی خواہشات کو بنیادی حیثیت دیں تو پھر اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹیں دو قسم کی ہیں۔ یعنی طبعی اور سماجی۔ آئیے ہم سادہ سی مثال سے اس بات کی وضاحت کریں۔ ممکن ہے کہ دھرتی سے اتنی خوراک نہ پیدا ہوتی ہو کہ وہ کسی شخص کی ضرورت پوری کر سکے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگ اسے خوراک حاصل نہ کرنے دیں۔ گویا ایک طرف معاشرہ فرد کی آزادی کی راہ میں حائل طبعی رکاوٹوں کو کم کرتا ہے تو دوسری طرف وہ سماجی رکاوٹیں پیدا بھی کرتا ہے۔ تاہم یہاں ہم خواہش پر معاشرے کے اثر کو نظر انداز کرنے سے غلطی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں بہت ہی منظم گروہوں کی صورت میں رہتی ہیں، اس لیے وہ ہمیشہ بے ساختہ طور پر وہی عمل کرتی ہیں جو ان کے گروہی فرائض کا تقاضا ہے۔ یہ بات اعلی تر قسم کے غول پسند جانوروں کے معاملے میں بھی درست ہے۔ ممکن ہے کہ دو وحشت کے انسانوں کی صورت حال اس سے مختلف نہ ہو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مہذب انسان اگرچہ زیادہ ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں، لیکن اپنی جبلتوں کے لحاظ سے وہ کم سماج پرست دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی کے مسئلہ کو موضوع بحث بناتے ہیں۔
میں اس حقیقت سے انکار کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتا کہ سب سے زیادہ مہذب معاشروں میں بھی سماجی تعاون کی ایک جبلی اساس ہوا کرتی ہے۔ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایوں جیسے ہوں اور وہ انہیں پسند بھی کریں۔ وہ ان کی راہ پر چلتے ہیں۔ پھر بھی لوگ جب زیادہ مہذب ہو جاتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ عوامل دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں یہ عوامل سکول جانے والے بچوں میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ویسے بھی مجموعی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ کم ذہین افراد میں یہ عوامل کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ سماجی تعاون کی بنیاد اب گروہی جبلت کی بجائے اس تعاون کے فوائد کا عقلی فہم بنتا جا رہا ہے۔ غیر مہذب انسانوں میں انفرادی آزادی کا مسئلہ سر نہیں اٹھاتا تھا، کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی لیکن مہذب انسان جوں جوں زیادہ تہذیب یافتہ ہوتے جا رہے ہیں، اس مسئلے کی شدت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ جوں جوں یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ حکومت آزادی کی راہ میں حائل طبعی رکاوٹوں کو دور کر کے ہمیں آزاد ہونے میں مدد دے سکتی ہے، توں توں افراد کی زندگی کی تنظیم کاری میں حکومت کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ صاف طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ تہذیب کا قافلہ آگے بڑھتا رہا تو پھر معاشرے میں آزادی کا مسئلہ بھی شدید تر ہوتا جائے گا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکومت کے اختیارات میں کمی سے آزادی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی خواہشیں ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں۔ لہذا انارکی کا مطلب طاقتوروں کے لیے آزادی اور کمزوروں کے لیے غلامی ہو گا۔ حکومت کے بغیر عالمی آبادی موجودہ تعداد کا بمشکل دسواں حصہ رہ جائے گی۔ قحط اور بچوں کی اموات آبادی کو ہڑپ کر جائیں گی۔ عام زمانوں میں مہذب معاشروں میں جو سماجی غلامی پائی جاتی ہے، اس سے بدتر جسمانی غلامی کا رواج ہو جائے گا لہذا ہمارے پیش نظر مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کے بغیر کام کیسے چلایا جائے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آزادی میں حکومت کی مداخلت کو کم سے کم روا رکھتے ہوئے حکومت کی موجودگی سے زیادہ سے زیادہ فوائد کیونکر حاصل کیے جا سکتے ہیں، اس کا مطلب جسمانی اور سماجی آزادی میں توازن پیدا کرنا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ خوراک اور بہتر صحت کے حصول کے لیے ہمیں حکومتی دباؤ کو مزید کس حد تک برداشت کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے سادہ سا معاملہ یہ ہے کہ آیا خوراک اور صحت ہمارے لیے ہے یا کسی اور کے لیے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ جب محاصرے میں آتے ہوں، یا جیسا کہ 1917ء سے انگلینڈ کی صورتحال تھی، تو پھر وہ ہر حد تک حکومتی دباؤ قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دباؤ سب کے فائدہ کے لیے ہے۔ لیکن جب صورتحال یہ ہو کہ ایک شخص حکومت کے ستم برداشت کرے اور دوسرا خوراک حاصل کرے تو پھر معاملہ بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔ یوںہم سرمایہ داریت اور اشتراکیت کے مسئلے پر جا پہنچتے ہیں۔ سرمایہ داری کی حمایت کرنے والے آزادی کے مقدس اصولوں کا بہت چرچا کرتے ہیں۔ ان اصولوں کو ہم اس ایک کلیے میں پیش کر سکتے ہیں کہ ‘جو خوش قسمت ہیں، انہیں بدقسمتوں کے استحصال سے نہ روکا جائے’۔
عدم مداخلت کا پرچار کرنے والا لبرلزم اس کلیے پر مبنی ہے تاہم اسے انارکیت نہیں سمجھنا چاہیے۔ وہ بدقسمتوں کو قتل و غارت اور بغاوت و سرکشی سے روکنے کے لیے قانون کا سہارا لیتا ہے۔ جب تک ممکن تھا، اس نے ٹریڈ یونین ازم کی مخالفت بھی کی تھی۔ البتہ اس قدر حکومتی مداخل کے بعد وہ اپنے باقی مقاصد معاشی قوتوں کے ذریعے حاصل کرنے کے درپے تھا۔ لبرلزم سرمایہ دار کو یہ حق دیتا تھا کہ وہ مزدور سے کہے “تم بھوک سے مر جاؤ گے”۔ لیکن وہ مزدور کو یہ حق نہ دیتا تھا وہ سرمایہ دار سے یہ کہے کہ “مجھ سے پہلے تم گولی سے اڑا دیے جاؤ گے”۔ قانونی موشگافیاں اپنی جگہ، لیکن ان دونوں دھمکیوں میں فرق کرنا محض حماقت ہے۔ دونوں یکساں طور پر آزادی کے لیے خطرہ بنتی ہیں۔ تاہم لبرلزم نے جس عدم مساوات کو فروغ دیا وہ صرف معاشی شعبے تک محدود نہیں۔ بلکہ اس نظام نے عورتوں پر شوہروں کی اور بچوں پر باپوں کی آمریت کا جواز پیش کرنے کے لیے بھی آزادی کے مقدس اصولوں کو استعمال کیا۔ تاہم ہمیں اقرار کرنا چاہیے کہ لبرلزم عورتوں پر شوہروں کی آمریت کو کم کرنے کا رجحان رکھتا تھا۔ بچوں کو کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور کرنے کا جہاں تک تعلق ہے، بچوں پر باپ کی آمریت لبرلزم کے حامیوں کے باوجود کم ہوتی چلی گئی۔
خیر، اس موضوع پر پہلے ہی بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ میں اس سے چمٹے رہنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ لہذا میں ایک زیادہ عمومی مسئلے کی طرف رخ کرتا ہوں۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کو دوسرے فرد کی بجائے خود معاشرے کی خاطر کسی فرد کی زندگی میں کس حد تک مداخلت کرنی چاہیے۔ نیز یہ کہ کن مقاصد کی خاطر معاشرے کو مداخلت کرنی چاہیے۔
میرے خیال میں آزادی کے کم از کم لوازمات یعنی خوراک، پانی، صحت، رہائش، لباس، جنس اور ولدیت کو دوسرے امور پر ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ چیزیں زندگی کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔ لہذا ہم انہیں ضروریات قرار دے سکتے ہیں۔ ان کے بعد آنے والی اشیا کا شمار ہم حالات کے حوالے سے، سامان آسائش یا اشیائے عیش و عشرت میں کر سکتے ہیں۔ میں اسے ایک مقدم شرط کے طور پر تسلیم کر لوں گا کہ کسی اور ایک فرد کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کی غرض سے کسی دوسرے شخص کو سامان آسائش سے محروم کرنا جائز ہے۔ ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں کسی خاص زمانے میں یہ بات سیاسی یا معاشی طور پر مفید نہ ہو۔ تاہم آزادی کے حوالے سے اس بات کو قابل اعتراض نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی شخص کو ضروریات زندگی سے محروم رکھنا آزادی کے اصول کی زیادہ شدید خلاف ورزی ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی شخص کو سامان عیش و عشرت سمیٹنے سے روکنا کم اہم ہے۔
اس نقطۂ نظر کو قبول کر لیا جائے تو بات دور تک پہنچتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ایک حل طلب مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عوامی صحت، ماں بچے کی دیکھ بھال اور بچوں کی بہبود جیسے امور کے لیے کس قدر وسائل مخصوص کیے جائیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان امور پر خرچ ہونے والی رقم سے زندگی بچانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لندن شہر کے تمام حلقوں میں امیر لوگ اس رقم میں اضافے کو روکنے اور ممکن ہو تو کم کرنے کے لیے آپس میں مل جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امیر لوگ ہزاروں افراد کو لقمۂ اجل بنانے پر آمادہ ہوتے ہیں تاکہ ان کی عیش و عشرت میں کوئی فرق نہ آئے۔ اب چونکہ اخبارات پر بھی ان کو اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ستم رسیدہ انسانوں سے حقائق کو چھپانے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تحلیل نفسی کے ماہرین کے جانے پہچانے طریقوں سے وہ ان حقائق کو اپنے آپ چھپا بھی لیتے ہیں۔ ویسے بھی اس میں کوئی نرالی بات نہیں۔ دنیا میں ہر جگہ اور ہر زمانے میں امر کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہاں میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آزادی کی بنیاد پر ان کے طرز عمل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
جنس اور ولدیت کے حق پر میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم اس قدر ضرور کہوں گا کہ مسیحی رہبانیت کی روایت کا ایک ناخوشگوار نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لوگ روٹی کے حق کو تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن جنس کے حق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ انسانی فطرت کو جان سکیں۔ عام مردوں اور عورتوں کو متحرک کرنے والی خواہشوں کا انہیں کچھ علم ہی نہیں ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے قائدین نفسیات کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھتے ہوں تو وہ جماعت غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔
اچھا میں تو مانتا ہوں کہ لوگوں کو ضروریات زندگی مہیا کرنے کی غرض سے معاشرے کو دخل دینے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ ان امور میں بھی معاشرے کی دخل اندازی جائز ہے جن میں فرد اپنی کامیابیاں دوسروں کی قیمت پر حاصل نہیں کرتا۔ یہاں میں نقطۂ نظر، علم اور آرٹ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ کسی معاشرے کی اکثریت اگر کسی رائے کو، کسی نقطۂ نظر کو پسند نہیں کرتی تو بھی اسے اس رائے کے حامل افراد کو راہ راست پر لانے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح اگر کسی معاشرے کی اکثریت بعض حقائق کو جاننے کی روادار نہیں تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہو جاتا کہ ان حقائق کو جاننے کے آرزومند افراد کو جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے۔
میں ایک خاتون کو جانتا ہوں جس نے ٹیکساس کی خاندانی زندگی کے موضوع پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے۔ میرے خیال میں علم سماجیات کے حوالے سے یہ ایک قابل قدر کتاب ہے۔ اب چونکہ پولیس کے خیال میں حقائق کی اشاعت بہت بری بات ہے، لہذا اس نے ڈاک کے ذریعے اس کتاب کی ترسیل کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تحلیل نفسی کے مریضوں کا علاج اکثر اوقات محض اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ انہیں لاشعور میں ٹھنسے ہوئے حقائق دوبارہ شعور میں لانے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ بعض حوالوں سے معاشرہ بھی ان مریضوں جیسا ہوتا ہے۔ لیکن اپنے علاج کا موقع دینے کے بجائے معاشرہ اس ڈاکٹر کو سزا دیتا ہے جو ناپسندیدہ حقائق کو اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ آزادی میں مداخلت کی یہ نہایت ہی ناپسندیدہ صورت ہے۔ ذاتی اخلاقی ضابطوں میں مداخلت کے بارے میں بھی یہی بات درست ہے۔ اگر کوئی مرد دو بیویاں رکھنا چاہتا ہے یا کوئی عورت دو شوہر رکھنے کی خواہش مند ہے تو یہ ان لوگوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ دوسروں کو اس میں دخل دینے کی ضرورت محسوس نہ ہونی چاہیے۔ یہاں تک میں نے آزادی میں جائز مداخلتوں کی حدود کے بارے میں محض تجریدی استدلال پیش کیا ہے۔ اب میں زیادہ نفسیاتی امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
جیسا کہ ہم بات کر چکے ہیں، آزادی کی راہ میں سماجی اور طبعی دو قسم کی رکاوٹیں حائل ہیں۔ آزادی کو یکساں نقصان پہنچانے والی کسی طبعی اور سماجی رکاوٹ میں سے سماجی رکاوٹ زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ غصہ اور آزردگی پیدا کرتی ہے۔ اگر کوئی لڑکا درخت پر چڑھنا چاہتا ہے اور آپ اسے روک دیتے ہیں تو اسے شدید غصہ آتا ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ خود درخت پر نہیں چڑھ سکتا تو اس طبعی رکاوٹ کو چپ چاپ مان لیتا ہے۔ غصے سے بچنے کی خاطر اکثر اوقات یہ بات مناسب ہو سکتی ہے کہ ان امور کی اجازت دے دی جائے جو بذات خود نقصان دہ ہیں۔ مثلاً وبا کے دنوں میں بھی لوگ عبادت کے لیے جانا چاہتے ہیں تو انہیں عبادت گاہ جانے دیجیے۔ حکومتوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عوام کی ناراضگی سے بچنے کی خاطر بدقسمتیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری فطری اسباب پر تھوپ دیتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مخالف سیاسی جماعتیں ان کا تعلق انسانی اسباب سے جوڑتی ہیں۔ مثلاً جب روٹی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو حکومت خشک سالی اور بری فصل کو اس کا ذمہ دار قرار دیتی ہے، مخالف سیاسی جماعتیں دعوی کرتی ہیں کہ روٹی کی قیمت میں اضافہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور منافع اندوزوں کے سبب ہوا ہے۔
ترقی اور صنعت کاری کے زیر اثر عوام یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ انسان کے امکانات اور صلاحیتیں بے پناہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کوئی ایسی قدرتی آفت نہیں جس پر انسان قابو نہ پا سکے۔ سوشلزم اسی عقیدے کی ایک صورت ہے کیونکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ غریبی خدا نے نازل نہیں کی بلکہ وہ انسانی حماقت اور ظلم کا نتیجہ ہے۔ اس نقطۂ نظر نے فطری طور پر سرمایہ داروں کے بارے میں محنت کشوں کا رویہ تبدیل کر دیا ہے۔
بسا اوقات انسان کے قادر مطلق ہونے کے عقیدے میں بہت ہی شدت پیدا کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ بعض اشتراکی بظاہر یہ سمجھتنے ہیں کہ اگر آبادی اس قدر بڑھ جائے کہ کرۂ ارض پر انسانوں کے لیے صرف کھڑا رہنے کی گنجائش رہ جائے، تو بھی سب کے لیے کافی مقدار میں خوراک موجود رہے گی۔ میرے نزدیک یہ احمقانہ مبالغہ آرائی ہے۔ بہرحال انسان کی قدرت کاملہ پر جدید ایمان کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو غصہ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ اب تمام بدقسمتیوں اور آفتوں کے لیے انسان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور اس وقت بھی ان کا تعلق خدا سے یا فطرت سے نہیں جوڑا جاتا جب کہ ایسا کرنا جائز ہو سکتا ہے۔ یوں ماضی کے مقابلے میں اب انسانوں پر حکومت کرنا زیادہ دشوار ہو گیا ہے۔ دوسری طرف اسی سبب سے حکمران طبقوں کی مذہب میں دلچسپی بڑھ گئی ہے اور وہ مذہب سے اپنے لگاؤ کی نمائش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی رعایا بدقسمتیوں، مصیبتوں اور دیگر مسئلوں کے لیے انہیں مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے انہیں خدا کی مرضی تسلیم کر لیں۔ اس صورتحال میں بنیادی آزادیوں میں مداخلت کو جائز ثابت کرنا پہلے کے مقابلے میں بہت دشوار ہو گیا ہے۔ اب انہیں ناقابل تنسیخ قوانین قرار دینا ممکن نہیں رہا، حالانکہ علمائے مذہب اس پرانے طریقۂ کار کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
سماجی آزادی میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے صرف غصہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ دو اور ایسے اسباب بھی ہیں جو ان رکاوٹوں کو ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ لوگ دوسروں کی خوشحالی اور بہبود کو پسند نہیں کرتے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں کہ دوسروں کی خوشی و بہبود کس بات پر منحصر ہے۔ شاید بنیادی طور پر یہ دونوں اسباب ایک ہی ہیں۔ کیونکہ جب ہم خلوص دل سے کسی دوسرے شخص کی بھلائی چاہتے ہیں تو عموماً ہم یہ جاننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ اس کی ضروریات کیا ہیں۔ بہرحال لوگ خواہ بدخواہی سے یا جہالت سے دوسروں کو نقصان پہنچائیں تو عملی نتائج میں فرق نہیں پڑتا۔ وہ ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔ لہذا ان دونوں اسباب کو ایک ہی سمجھ سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں ک دوسروں کے مفادات کی حفاظت کے لیے کسی شخص یا طبقے پر اعتماد مشکل ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
جمہوریت کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال کی بنیاد یہی ہے۔ تاہم جدید ریاست میں جمہوریت افسروں کے وسیلے سے کام کرتی ہے، لہذا جہاں تک فرد کا تعلق ہے وہ بالواسطہ اور دور از کار ہو جاتی ہے۔ افسر شاہی میں ایک خاص خطرہ پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ عام طور پر افسر اپنے دفتروں میں بیٹھتے ہیں اور یہ دفاتر ان لوگوں سے بہت دور ہوتے ہیں جن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔ تعلیم کی مثال ہی لے لیجیے۔ استاد بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، اس لیے وہ بچوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کی پروا بھی کرتے ہیں، لیکن اساتذہ کو کنٹرول ایسے افسر کرتے ہیں جن کو کوئی عملی تجربہ نہیں ہوتا اور جن کے لیے بچوں کی حیثیت محض فضول لونڈوں کی سی ہوتی ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ جب حکام اساتذہ کی آزادی میں دخل دیتے ہیں تو عموماً یہ بات نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے شعبوں کا حال بھی یہی ہے۔ قوت ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے جو مالی وسائل پر حاوی ہوتے ہیں۔ قوت ان لوگوں کے پاس نہیں جو ان امور کا علم رکھتے ہیں جن پر یہ وسائل خرچ کیے جاتے یں۔ یوں اہل قوت عموماً بے خبر اور بدخواہ ہوا کرتے ہیں وہ اپنے اختیارات جس قدر کم استعمال کریں، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔
مجبوری کا معاملہ وہاں شدید ترین ہوتا ہے جہاں مجبور کیا جانے والا شخص مجبوری کو اخلاقی رنگ دے دیتا ہے، حالانکہ اگر اس کے لیے ممکن ہو تو وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتا جس کو وہ اپنا فرض قرار دیتا ہے۔ ہم سب محصول ادا کرتے ہیں چاہیے ہمیں سڑکیں نہ مہیا کی جائیں۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی ایسا معجزہ ہو جائے کہ محصول جمع کرنے والے کو ہم نظر ہی نہ آئیں تو ہم بھی اسے اپنے وجود سے آگاہ نہ کریں گے۔ اسی طرح کوکین کی ممانعت کو ہم سب قبول کر لیتے ہیں، جبکہ شراب پر پابندی کا معاملہ مشکوک رہتا ہے۔
بہرحال بہترین مثال بچوں کی ہے۔ بچوں کو اتھارٹی کی نگرانی میں رکھنا لازم ہے۔ بچے خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں، اگرچہ کبھی کبھار وہ بغاوت کا کھیل رچانا پسند کرتے ہیں۔ بچوں کا معاملہ اس لحاظ سے عجیب و غریب ہے کہ جن بچوں پر اتھارٹی موجود ہوتی ہے، وہ بسا اوقات اسے پسند کرنے لگتے ہیں۔ جہاں کہیں یہ صورت حال ہو، وہاں بچے عام طور پر اتھارٹی کے خلاف رنجیدگی کا اظہار نہیں کرتے، البتہ خاص خاص موقعوں پر اس کی مزاحمت ضرور کرتے ہیں۔
اساتذہ کے برخلاف تعلیمی حکام ایسی خوبی سے محروم ہیں۔ یہ حکام ملک و قوم کی بہتری کی خاطر بچوں کو حب الوطنی کا درس لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ حب الوطنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ معمولی باتوں کی خاطر قتل کرنے یا قتل ہونے کی خواہش پیدا کی جائے۔ اتھارٹی اگر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو اپنے ماتحتوں کے خیر خواہ ہیں تو پھر اتھارٹی نسبتاً بے ضرر ہوا کرتی ہے۔ تاہم یہ نتیجہ حاصل کرنے کا کوئی بھی معلوم طریقۂ کار نہیں ہے۔
جبر اس وقت بدترین ہوا ہے جب اس کا نشانہ بننے والے کو یقین ہو کہ جس کام کا اسے حکم دیا جا رہا ہے وہ غلط یا نقصان دہ ہے کسی مسلمان کو سؤر کا گوشت یا کسی ہندو کو گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کرنا نفرت انگیز اور مکروہ ہے۔ جو لوگ چیچک کا ٹیکہ لگانے کے مخالف ہیں، انہیں یہ ٹیکہ نہیں لگانا چاہیے۔ البتہ ان کے چھوٹے بچوں کا معاملہ مختلف ہے۔ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے انہیں ٹیکہ لگنا ہی چاہیے۔ آزادی کے اس معاملے میں اہم ترین فرق دو قسم کی نیکیوں میں ہے۔ ایک طرف وہ نیکیاں ہیں جن کو کوئی شخص دوسروں کی قیمت پر قبول کیے رکھتا ہے۔ دوسری طرف ایسی نیکیاں ہیں جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہیں ہے۔ اگر میں اپنے جائز حصے سے زیادہ خوراک چٹ کر جاتا ہوں تو کوئی دوسرا شخص بھوکا رہ جاتا ہے لیکن اگر میں ریاضی کا بہت زیادہ مطالعہ کرتا ہوں تو اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا بشرطیکہ میں تعلیمی مواقع پر اپنی اجارہ داری قائم نہ کر لوں۔ ایک اور نکتاہ بھی یہاں غور طلب ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان زندگی کی ضروریات میں اور اس بارے میں لوگوں میں زیادہ اختلاف نہیں ہے لہذا جمہوری نظام میں حکومت کو ان کے معاملے میں دخل اندازی کا حق ہونا چاہیے۔ ایسے سارے معاملات میں انصاف کو بالادستی ہونی چاہیے۔ جدید جمہوری معاشرے میں انصاف کا مطلب مساوات ہے۔ تاہم ایسے معاشرے میں اس کا مطلب مساوات نہ ہو گا جس میں طبقوں کی درجہ بندی ہو اور نچلے اور بالائی دونوں طبقوں والے اسے قبول نہ ہوں۔ جدید انگلستان میں بھی اگر یہ تجویز پیش کی جائے کہ بادشاہ کی شان و شوکت ایک عام مزدور سے زیادہ نہ ہونی چاہیے تو بہت سے مزدوروں کو بھی اس سے رنج پہنچے گا۔ لہذا میں چاہتا ہوں کہ انصاف کی تعریف یوں کی جائے کہ اس سے مراد کم سے کم حسد پیدا کرنے والا نظام ہے۔ ضعیف الاعتقادی سے پاک معاشرے میں اس کا مطلب برابری ہو گا۔ تاہم سماجی نابرابری میں ایمان رکھنے والے معاشرے میں معاملہ الٹ ہو گا۔
خیر، جہاں تک رائے، فکر، آرٹ وغیرہ کا تعلق ہے ان میں ایک شخص اپنی کامیابیاں دوسروں کی قیمت پر حاصل نہیں کرتا۔ مزید برآں شعبے میں اچھائی کا تعین بھی مشکوک ہے۔ اگر الف عیش اڑا رہا ہے اور ب روکھی سوکھی روٹی سے پیٹ کی آگ بجھا رہا ہے، تو الف کی طرف افلاس کے فائدے پر وعظ ریاکاری ہو گی۔ لیکن اگر مجھے ریاضی پسند ہے اور آپ موسیقی کے رسیا ہیں تو ہم ایک دوسرے کے معاملے میں دخل نہیں دیتے اور جب ہم اک دوسرے کے ذوق کی داد دیتے ہیں تو شائستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک رائے کا معاملہ ہے، صداقت تک پہنچنے کا واحد راستہ مقابلہ ہے۔ لبرل ازم کے پرانے حامیوں سے غلطی ہوئی ہے۔ وہ کاروبار میں آزاد مقابلے کا پرچار کرتے رہے ہیں، جب کہ انہیں خیالات کی دنیا میں آزاد مقابلے کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ ہم بھی کاروبار کے بجائے خیالات کی دنیا میں آزاد مقابلہ چاہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ کاروبار میں آزاد مسابقت ختم ہوتی ہے تو فاتحین اپنی معاشی قوت کو ذہنی اور اخلاقی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ وہ روزی کمانے کی اجازت کو راست زندگی اور راست سوچ سے مشروط کرنے پر زور دیتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے، کیونکہ راست زندگی کا مطلب ریاکاری اور راست سوچ کا مطلب بیوقوفی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ آیا امراء کی حکومت یا اشتراکی نظام میں معاشی ایذا رسانی کے ذریعے تمام ذہنی اور اخلاقی ترقی محال ہو جائے گی۔ فرد کی آزادی کا احترام وہاں ہونا چاہیے جہاں کے اعمال سے دوسروں کو کوئی براہ راست، واضح اور غیر مشکوک نقصان نہیں پہنچتا۔ بصورت دیگر ہماری ایذا رساں جبلتیں سولہویں صدی کے سپین جیسی ایک دھڑے پر چلنے والا معاشرہ تعمیر کر دیں گی۔ یہ خطرہ حقیقی ہے اور ہم بھی۔ اگر ہم نے آزادی کو اس کے مناسب مقام پر رکھنا نہ سیکھا تو پر اس خطرے سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہیں گے۔ ہمیں ایسی آزادی کی خواہش نہ کرنی چاہیے جو دوسروں کو دبانے والی ہو بلکہ ہمیں ایسی آزادی تلاش کرنی چاہیے جو ہمیں اپنی مرضی کے مطابق رہنے اور سوچنے کا حق دے اور ہمارے اس حق سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔
آخر میں میں اس شے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کو اس مضمون کے آغاز میں “نفسیاتی حرکیات” کا نام دیا گیا تھا۔ جس معاشرے میں ایک ہی قسم کا کریکٹر ملتا ہو، اس میں مخلتف قسم کے کریکٹر رکھنے والے معاشرے کے مقابلے میں زیادہ آزادی ممکن ہو سکتی ہے۔ انسانوں اور شیروں پر مشتمل معاشرے میں آزادی خطرے میں رہتی ہے، کیونکہ وہاں شیروں کو پابند سلاسل کرنا پڑتا ہے یا پھر انسانوں کو۔ اس طرح دنیا میں جس جگہ رنگ دار لوگوں پر سفید فام حکمران ہیں، وہاں آزادی ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ آزادی کو ممکن بنانے کے لیے تعلیم کے ذریعے کردار سازی ضروری ہے تاکہ انسان ایسی سرگرمیوں سے خوشی حاصل کرنا سیکھ سکیں جو دوسروں کو دبانے والی نہیں ہے۔ کردار سازی میں مؤثر کام زندگی کے پہلے چھ برسوں میں ہوتا ہے۔ ڈپٹ فورڈ میں مس میکملن بچوں کی اس طرح تربیت کر رہی ہیں کہ وہ آزاد معاشرے تخلیق کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔ اگر مس صاحبہ کے طریقوں کا اطلاق امیر و غریب تمام بچوں پر کیا جائے تو محض ایک نسل ہمارے تمام سماجی مسائل حل کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ تاہم تربیت پر اصرار کے سبب تمام فریق یہ بات بھول گئے ہیں کہ تعلیم میں اہم شے کیا ہوتی ہے۔ بچپن گزارنے کے بعد خواہشوں کو کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں بدلا نہیں جا سکتا۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ انسانوں کو بچپن ہی میں “زندہ رہو اور زندہ رہنے دو” کا سبق سکھایا جائے۔ انسان اگر ایسی چیزوں کی خواہش نہ کرنے لگیں جن کو صرف دوسروں کی بدقسمتی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے تو پھر سماجی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گی.۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...