ایک آدمی راہ چلتے ہوئے اپنے بازوں لہراتا اور پھدکتا بڑھا چلا جاتا تھا۔ کسی بھلے مانس نے اس لا ابالی کی یہ چونچالی دیکھی تو اسے روک لیا اور لگا نیک و بد سمجھانے۔
وہ بھی اپنی ہٹ کا پکا نکلا ۔یہ کہہ کر چلتا بنا
’’میں ایک آزاد ملک کا آزاد شہری ہوں۔ مجھ سے میری یہ آزادی کوئی نہیں چھین سکتا ‘‘۔وہ آدمی کچھ آگے گیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس کا ہاتھ کسی راہ گیر کے ناک سے ٹکرا گیا۔
متاثرہ شخص طیش کے عالم میں چلا اٹھا
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘۔
" جناب یہی آزادی ہے۔میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ تن مجھ سے میری آزادی نہیں چھین سکتے ‘‘۔
لاابالی شخص نے لاپراہی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔اس پر متاثرہ آدمی بھنا کر بولا ’’
ارے مردود ،تیری آزادی کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے‘‘۔
یہ بات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کے نفس میں سرکشی گندھی ہے۔ اس کی اس سرکشی کو نکیل ڈالنے کو اسے عقل جیسی نعمتِ عظمی دان ہوئی ہے کہ اپنی آزادی کی آڑ میں وہ دوسرے کا حقِ آزادی نہ روندتا پھرے ۔
اللہ نے ہادیانِ برحق کا سلسلہ ہر قوم میں جاری فرما کر یہ باور کرا دیاکہ یہ ابنِ آدم کا کوئی علاقائی نہیں بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ہر انسان کو اپنی آزادی عزیز ہوتی ہے۔لیکن اگر یہ آزادی احساس ذمہ داری سے عاری ہو تواسے فساد میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ الہامی و غیرالہامی مذاہب تو رہے ایک طرف وحشی اور غیر مہذب اقوام بھی یہ ضرورت محسوس کئے بنا نہ رہ پائے کہ اپنے سماج کو کسی نہ کسی قاعدے قانون کا پابند بنا کر اپنے ماحول کو پر امن بنائیں ۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو جنگل کے بھی قاعدے قانون ہوتے ہیں ۔اور نہیں تو فطرت کے قوانین تو ضرور موجود ہوتے ہیں
اس ساری بحث کا حاصل یہ نکتہ ہے کہ ہمیں ہر حال میں ملکی قوانین کی پاسداری کرنی چاہئے کہ اس کے بغیر کسی سماج کا تصور تک محال ہے۔لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمار ے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔اداروں کی بجائے افراد طاقت ور ہیں۔حکومت کی گرفت کسی بھی شعبے پر مضبوط نہیں ۔ تقریباً ہر ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا دکھائی دیتا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ کچھ اداروں کے درمیان من مانی اور کھینچا تانی آئے روز دیکھنے کو ملتی ہے۔قانون کا احترام نام کو نہیں ۔اور تو اور کچھ حلقوں کو خود عدالتو ں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شکایات ہیں ۔جس کا برملا اظہار کرتے وہ ذرا برابر بھی نہیں چوکتے۔غرض عدم توازن کی ایک فضا ہے کہ جس کے زیراثر ہر چیز،ہلتی بلکہ لڑکھڑاتی محسوس ہوتی ہے۔اس سب سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے اور مختلف اداروں کا آپس میں تعلق مخاصمانہ کی بجائے برادرانہ ہو۔