(Last Updated On: )
دور کہیں
موت کے راکھ ریگستان کے
اس طرف
چند نفوس
جو زندگی کے عروج کی انتہا پر
آگ کی بارش سے
بچ رہے تھے
وہ جو
ایک چھوٹے سے دھاتی ڈبے میں بند زمانہ
اپنے ہاتھوں میں لیے لیے پھرتے تھے
زمانہ جو دیو ہیکل آہنی پرندوں
کے شکم میں بیٹھا
اڑانیں بھرتا تھا
وہ نفوس ۔۔۔۔
اب غاروں کی پناہ گاہوں میں
اپنے بچوں کے لیے
طویل رات کے اندھیروں کو
کہانیوں سے روشن کرتے تھے
وہ کہانیاں جو انھوں نے
سیمیں پردوں پر دیکھی تھیں
کتابوں میں پڑھی تھیں
اور وہ جو ان پر بیت چکی تھیں
اب انھیں ان کہانیوں کو
اپنے بچوں کے لیے
درختوں کی چھالوں پر
لکھنا تھا
۔۔۔۔ ایک بار پھر