مرے غم کی
کہانی کا
ہوا آغاز منگل سے
گیارہ ماہِ اکتوبر کو
اس دل میں گڑا اک تیر
ایسا تیر جس نے کر دیا جینا
مرا مشکل
نہ مر پائی
نہ جی پائی
مگر مجھ کو تو جینا تھا
مجھے اک زہر پینا تھا
مرے بھائی جو روتے تھے
مری بہنا بھی روتی تھی
ہمیں اس غم میں جینا تھا
یہ غم تھا میرے ابوکا
مرے ابوکے جانے کا
ہوئیں بے آسرا امی مری
جب ساتھ ان کے ساتھ دینے والے کا چھوٹا
انھیں کا ہم سفر ان سے چلا تھا روٹھ کر جیسے
ہمارا آشیانہ ان کے دم سے
نور افشاں تھا
انھیں کے دم سے رونق تھی
وہ جن کے بعد اب یہ گھر
بہت بے جان لگتا ہے
بہت سنسان لگتا ہے
بڑا ویران لگتا ہے
کبھی تھا جو مکاں اپنا
وہ اب کھنڈر سا لگتا ہے
یہاں گر شادمانی تھی
تو تھی بس میرے ابو سے
مری جو زندگانی تھی
تو تھی بس میرے ابو سے
مری راحت تھی ابو سے
مری چاہت تھی ابو سے
یہ سب خوشیاں تھیں ابو سے
مجھے تو ابو پیارے تھے
وہ اس گھر کے دلارے تھے
وہی سب کے چہیتے تھے
سبھی تھے معترف ان کے
جو ان سے ملنے آتا تھا
انھیں خوش رنگ پاتا تھا
جو ان کو غم سناتا تھا
بہت ہی چین پاتا تھا
سدا پھر مسکراتا تھا
وہ تھے جاگیرداری میں بہت مشہور
دنیا میں
بڑے ہی ناز کے پالے
خدا کے چاہنے والے
بلا کی سادگی ان کی
فقیری زندگی ان کی
بلا کی خاکساری تھی
بہت ہی انکساری تھی
بہت صابر تھے
شاکر تھے
بڑے مضبوط بندے تھے
سدا ثابت قدم دیکھے
مرے ابو نے اس دنیا میں
کتنی گردشیں دیکھیں
سدا اپنوں کی ان کے پیٹھ پیچھے
سازشیں دیکھیں
بہت حالات بگڑے
پر وہ ان سب سے نکل آئے
ہر اک اپنا، پرایا ان سے بےحد پیار کرتا تھا
مرے ابو کو دادا سے
بہت ہی پیار ملتا تھا
وہ دادی جان سے میری بہت ہی پیار کرتے تھے
مرے ابو نے بھی
ان کے بچھڑنے کی گھڑی دیکھی
بہن بھائی پھر ان کے ان کی
تربیت میں رہتے تھے
مرے ابو نے امی کو بہت عزت،
محبت دی
انھیں بھی اپنے بچوں سے
قسم رب کی محبت تھی
تھے بیٹے دل کے ٹکڑے
بیٹیاں تو راحتِ دل تھیں
وہ سب نورِ نظر تھے
اور ہم آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں
بہت پیارا یہ ناتا تھا
بہت پیارا یہ رشتہ تھا
مرے ابو میں تھیں
بے شک تمام ہی خوبیاں موجود
اللہ کا کرم سب تھا
بہت ہی خوبصورت
خوب سیرت
خوب خلقت تھے
رہا کردار اور اخلاق
وہ اعلٰی سے اعلٰی تھا
صلاة و صوم کے پابند
اور شیدا محمد ﷺ کے
بلا کی
خاکساری
انکساری
خوش مزاجی تھی،
ملنساری تھی
ہمدردی تھی،
غم خواری
بہت ایثار کرتے تھے
سبھی سے پیار کرتے تھے
مرے ابو نے رشتوں کی
ہمیشہ پاسداری کی
وہ کم کھاتے تھے
کم سوتے تھے
کم کہتے تھے اور اس پر
اگر کچھ گفتگو کرتے
بہت ہی نرم ہوتی تھی
وہ ان کی میٹھی باتیں
اور وہ ٹھہرا ہوا لہجہ
انھیں بھاتی تھی تنہائی
رہی گوشہ نشینی ہی
شفیق و مہرباں وہ تھے
عزیز و جانِ جاں وہ تھے
شرارت کرنے پر اولاد کو ڈانٹا نہ کرتے تھے
کبھی مارا نہ کرتے تھے
کبھی پیٹا نہ کرتے تھے
خدا والے تھے سو ہر وقت لب پر تھا
خدا کا نام
اور تھا ہر کسی کے واسطے
حرفِ دعا جاری
مرےابو معلم تھے
ہمیں اخلاق سِکھلایا
دیا تھا درس ہم سب کو
اسی اخلاقِ عالی کا
نمونہ بن کے سب کے سامنے آئے
سبھی سے پیار تھا ان کو
مگر ہم بیٹیاں ان کی
ہمیں وہ جان کہتے تھے
سکونِ دل سمجھتے تھے
ہمیں وہ چین کہتے تھے
وہ جس پیاری سی شخصیت
بڑی ہستی نے ہم سب کو
سکوں سمجھا تھا جاں سمجھا
ہمیں شہزادیاں سمجھا
بڑے ہی ناز سے پالا
سدا پریاں کہا ہم کو
ہماری خواہشیں ساری کی ساری
پوری کر ڈالیں
اچانک ایک دن
اک آن میں
ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑے
ہمیں داغِ جدائی دے گٸے وہ
ایک لمحے میں
ہماری دنیا اجڑی تھی
مددگاری کو ترسے تھے
وہ آنکھیں جن سے اب تک کوئی بھی
آنسو نہ ٹپکا تھا
انھیں آنکھوں میں آنسو کا
سمندر موجزن اب ہے
کوئی سیلاب جاری ہے
چلا اشکوں کا اک ریلا
ہوئی تلقینِ صبر
احباب و ہر اپنے پراۓ سے
تسلی بھی
دلاسے بھی
کسی سے بھی نہ ہو پاپا
رمیشا کا یہ غم آدھا
مرے ان آنسوؤں پر کوئی بھی بند باندھ نہ پایا
تلاطم میرے سینے میں جو ہے
وہ روک دے مولا
مرے بھی اضطرابِ دل تو ٹھہرا دے اے مولا
سکونِ قلب دے مجھ کو
مرے آقا
مرے مولا
مرے ابو کو رکھنا ہر گھڑی تو
اپنی رحمت میں
مری یہ التجا سن لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔