انہیں مجھ سے شکایت ہے کہ میں ماضی میں جیتی ہوں
مرے اشعار میں آسیب ہیں گزرے زمانوں کے
وہ کہتے ہیں کہ یادیں سائے کے مانند میرے ساتھ رہتی ہیں
یہ سچ ہے اس سے کب انکار ہے مجھ کو
میں اکثر جاگتے دن میں بھی آنکھیں موند لیتی ہوں
کوئ صورت۔ کوئ خوشبو ۔کوئ آواز ۔کوئ ذائقہ یا لمس جب جادو جگاتا ہے
ٹو ” منیا تور” تصویریں اچانک بولنے لگتی ہیں ناٹک منچ سجتا ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کسی ٹوٹے ہوئے صندوق میں رکھے ہوئے بوسیدہ مخطوطے سے کوئ داستاں تمثیل بن جآتی ہے
جی اٹھتے ہیں سب کردار ماضی کے
سپاہی ۔بادشاہ۔خلعت
۔نوادر ۔رقص و موسیقی
کسی کے پاوں میں پائل ۔دھنک آنچل
کسی شمشیر کی بجلی ۔گھنی برسات کی بدلی۔
ْ۔کسی بارہ دری میں راگ دیپک کا
کسی۔صحن گلستاں میں
کدم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئ چڑیاں
اچانک جاگ جاتی ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔
کسی گمنام قصبے میں کوئ ٹوٹی ہوئ محراب ۔خستہ حال ڈیوڑھی کی جھلک
معدوم کردیتی ہے
ہوٹل ۔چائے خانے ۔بس کے اڈے ۔ڈھیر کوڑے کے
کئ صدیاں گذر جاتی ہیں سر سے
کوئ گم گشتہ شہر رفتگاں بیدار ہوتا ہے
اسی منظر کا حصہ بن کے میں تصویر ہو جاتی ہوں کھو جاتی ہوں ماضی میں
میں اکثر آبنائے وقت پر کاغذ کہ ناو ڈال دیتی ہوں
تو پانی اپنا رستہ موڑ دیتا ہے
میں جب چاہوں سلونی ۔سانولی نٹ کھٹ مدھر یادیں اْٹھا لاوں لڑکپن کے گھروندوں سے
میں جب چاہوں
تو کالی کوٹھری میں قید رنجیدہ ،پشیماں ،_زخم خوردہ ساعتوں بیتے دنوں کو پیار سے چھو کر
دلاسہ دوں تھپک کر لوریاں دوں ،
خوب روؤں ،خوب روؤں،شانت ہو جاؤں
یہ ماضی میرا ماضی ہے فقط میرے تصرف میں ہے میی ملکیت ہے ۔میرا ورثہ ہے
نہ میرا حال پر بس ہے
اور آنے والا کل بھی کس نے دیکھا ہے