ایک چوھیا یہ بولی ہاتھی سے
خوف مجھ کو نہیں ذرا تم سے
سونڈ تم کس لیٸے اٹھاتے ہو
کس کو چنگھاڑ یہ سناتے ہو
دیکھو گھورو نہ اس طرح مجھ کو
ورنہ دوں گی ابھی سزا تم کو
مجھ کو کمزور مت سمجھنا تم
او میاں مجھ سے مت الجھنا تم
دیکھنے میں بہت ہی چھو ٹی ہوں
جتنی چھوٹی ہوں اتنی کھو ٹی ہوں
دانت کھٹے تمھارے کر دوں گی
پاٶں اپنا جو تم پہ دھر دوں گی
سونڈ پہ چڑھ کے کان کھاٶں گی
تم کو جی بھر کے میں ستاٶں گی
اپنے پیروں سے گد گدا ٶں گی
دوڑ میں پیٹھ پر لگاٶں گی
ہوکے بے تاب دوڑو بھاگو گے
ساری بستی کو تم ہلا دو گے
پھر لگاٶگے لوٹ دھرتی پر
اور مجھ سے کہو گے او سسٹر
معاف کردو مجھے میں باز آیا
گھور کے تم کو میں تو بھر پایا
اب جو دیکھوں گا تم کو آتے ہوۓ
بھاگ جاٶں گا کان ہلا تے ہوئے
اور چپ چاپ سر جھکاۓ ہوۓ
ہاتھی صاحب وہاں سے بھاگ لیٸے
ہنس کے چوھیا بجاتی تھی تالی
ایک چو ھیا سے ڈر گیا ہاتھی
بات پروین کی یہ یاد رکھو
پیارے بچو نہ تم غرور کرو