(Last Updated On: )
اجنبی، آج بہت دیر، بہت دیر کے بعد
تم نے آئینے کے دروازے پہ دستک دی ہے
ایک مدت ہوئی اس تنگ گلی میں رہتے
ہم نے کُھلتے ہوئے دیکھے نہیں یہ بند کواڑ
کبھی آتے تھے کواڑوں پہ صدا دینے کو
اپنی اغراض کو اس شہر کے خوانچے والے
ماہ بماہ فیس وصولی کو کوئی چوکیدار
جان کی قدر سجھانے کو وہ بیمہ ایجنٹ
یا کسی مذہبی تعمیر کے چندے کے امین
بس کوئی دیر کو رکتے تھے چلے جاتے تھے
نئے دروازوں پہ امید کی سوغات لئے
ایک بوڑھا ہے مگر، روز یہاں آتا ہے
کچھ ذرا دیر کو رکتا ہے سرِ آئینہ
اور پہچان کے گزرے ہوئے چہروں کے نقوش
کبھی ہنستا ہے کبھی دیکھ کے رو دیتا ہے
تھپکیاں دیتا ہے چوکھٹ کو وہ دھیرے دھیرے
جیسے اک حرفِ تسلی ہو کوئی کہنے کو
پونچھتا جاتا ہے آئینے کو رومال کے ساتھ
جیسے یہ دن کا تھکا ہارا مسافر ہو کوئی
کون رکتا ہے بہت دیر کسی کی خاطر
اجنبی تم بھی گھڑی بھر کو یہاں چوکھٹ پر
اپنے چہرے کو ہی دیکھو گے چلے جائو گے
اور ہاں شام ڈھلے شہر کا پاگل بوڑھا
پھر سے لوٹ آئے گا آئینے کو صیقل کرنے
ریاض اکبر
آسٹریلیا