آزاد سوچ کی اہمیت
گھر سے دوست کے ساتھ پیدل لاہور کی سیر کا سفر جاری تھا ۔دھواں چھوڑتی اور شوربرپا کرتی گاڑیوں کی وجہ زہنی سے اور روحانی کیفیت بدترین شکل اختیار کر چکی تھی ۔سڑکوں اور گلی محلوں میں ہر طرف گندگی ہی گندگی تھی ۔ سفر کے دوران ایسا لگا جیسے لاہور میں ہر طرف آلودگی اور گندگی ہی گندگی ہے ۔ہم دونوں بہت گھنٹوں کے بعد تھک ہار کر ایک پارک میں جاپہنچے ۔میں نے کہا یار ہرطرف بدبو،گندگی اور غلاظت ہی غلاظت ہے ۔کیسے ماحول میں ہم زندہ ہیں؟اس نے کہا دوست یہ جس طرح ہمارا ماحول بدترین ہے ،اسی طرح ہماری اندر کی دنیا بھی تباہ کن ہے ،باہر کا ماحول اندر کی دنیا کا عکاس ہوتا ہے ۔باہر سڑکوں ،گلیوں اور محلوں میں گندگی اور غلاظت ہے ،اسی طرح ہمارے نظریات ،خیالات اور تصورات میں بھی گندگی اور غلاظت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے لئے بھی ناسور ہیں اور دنیا کے لئے بھی ۔ادھر مغرب اور امریکہ میں جہاں کافروں کا بسیرا ہے ،وہاں صفائی ہے ،آلودگی اور غلاظت کا نام و نشان تک نہیں ،اس لئے ان کے خیالات و ںطریات بھی پاکیزہ اور انسانی ہیں ۔وہاں اس لئے ہر طرف تخلیقی قوت کا راج ہے اور یہاں ہر طرف تخریبی قوت کی حکومت ۔میں نے کہا ایسا کیوں ؟ ۔بہت دیر تک ہم دونوں پارک کے ایک کونے میں نصب بنچ پر خاموش بیٹھے رہے ۔سامنے بچے فٹبال کھیل رہے تھے اور ہم دونوں ان بچوں کو فٹبال کھیلتا دیکھ کرمحظوظ ہورہے تھے۔اسی دوران مغرب ہو گئی،اندھیرا چھانے لگا ،بچے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔میں نے کہا دوست ،چلو ہم بھی اپنے گھروں کو چلتے ہیں ،دوست نے کہا ،ابھی نہیں ،ساڑھے سات بجے ہیں ،دس بجے پارک بند ہوتا ہے،ہم یہاں سے ساڑھے نو بجے نکلیں گے ۔اب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔پارک کی مصنوعی بتیاں درختوں کی مسکراہٹ کے ساتھ سرگوشیاں کرتی نظر آرہی تھی ۔کچھ پنچھی نچلی پرواز کرتے درختوں میں گھس رہے تھے۔مجھے یہ مناظر بہت دلکش اور خوبصورت محسوس ہورہے تھے ۔اپنی دنیا میں محو تھا کہ اچانک دوست نے کہا ،اجمل شبیر مجھے لگتا ہے خدا بھی انسان کا روپ اختیار کرکے کہیں نہ کہیں انسانوں کے ساتھ رہ رہا ہے ۔میں نے کہا ،ایسا کیوں؟دوست نے کہا ،یار بس یہ مت پوچھو ،مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے ،خدا انسانوں میں ہی رہتا ہے ،وہ آسمان کی بلندیوں پر نہیں ،انسانوں کی دنیا میں رہتا ہے۔دوست کی باتیں بڑی عجیب محسوس ہونے لگی،مجھے تھوڑی سی ٹھنڈک کا احساس ہوا،درختوں کے پتوں کا رقص اچانک شروع ہو گیا ۔ایسا لگا جیسے درختوں کی دنیا میں خوشی اور روحانیت چھا گئی ہو۔دوست نے مسکراتے ہوئے کہا ،اجمل شبیر کائنات کا رب ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا ہے ۔دوست کی باتوں سے میں تھوڑا سا خوف زدہ ہوا، لیکن ایک عجیب سی خوشی اور راحت تھی اور دل چاہا رہا تھا ساری رات اس بینچ پر بیٹھا رہوں۔ہر طرف خاموشی ،ناچتے اور رقص کرتے درخت اور مصنوعی روشنیاں ۔ایسا لگا جیسے ساری کائنات رقص و مستی کی کیفیت میں ہے ۔محسوس ہوا جیسے واقعی ہی خدا ہمارے ساتھ ہے اور مسکرا رہا ہے ،خدا کی اس مسکراہٹ کی وجہ سے مستی بھرے نظارے ہمارے سامنے تھے ۔دوست نے خاموشی کی کیفیت میں مدہم آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ،اجمل شبیر اگر ہم سب زندگی کو انجوائے کرنا شروع کردیں اور کسی کی شرائط پر زندگی نہ گزاریں تو ہر لمحہ ایسا ہو جیسا اس وقت ہمیں نصیب ہورہا ہے ۔دوست کی اس بات پر میں مسکرایا ،اچانک پارک کی انتظامیہ کی طرف سے اسپیکر پر اعلان ہوا،جو لوگ پارک میں ہیں ،فوری پارک سے نکل جائیں ،دس بجنے والے ہیں ،پارک بند ہونے والا ہے ۔دوست مسکرایا اور اس نے کہا ،دیکھو انہیں شرائط اور اعلانات کی وجہ سے انسانیت تکلیف میں ہے ۔ہم دونوں نے پارک اور خدا کو بائی بائی کہا اور باہر نکل گئے ۔پارک سے باہر نکلتے ہی ہم دونوں چائے کا لطف لینے ایک ڈھابے پر پہنچ گئے ۔ہوٹل والے کو دو دودھ پتیوں کا آرڈر دیا اور کرسیوں پر براجمان ہو گئے ۔کرسی پر بیٹھتے ہی میں نے کہا ،کیسے ہمارے معاشرے میں ہر سحح پر انقلاب برپا ہو سکتا ہے؟دوست نے کہا ،ہمیں آزادانہ سوچ کی ضرورت ہے۔آزادانہ سوچ کی وجہ سے اس انسانیت کے ہر کونے کھدرے میں انقلابی کیفیت آجائے گی ۔انسانوں کے آپس کے تعلقات بہتر ہوجائیں گے ،پھر کوئی کسی کو غدار یا محبت وطن نہیں کہے گا ۔یہ انسانیت جو اس وقت تقسیم ہے اس کی وجہ آزادانہ سوچ کا نہ ہونا ہے ۔جس دن ہمارے معاشرے میں آزادانہ سوچ کی صلاحیت آگئی اسی دن ہم سب آزاد ہوں گے ،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب کے ریمورٹ دوسروں کے ہاتھوں میں ہے ،کسی کا کنٹرول سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہے اور بہت ساروں کو جرنیل اور فوجی حکام محب وطنی اور قوم پرستی کے نام پر اپنے اشاروں پر نچوارہے ہیں ۔ہم ساری رات بھی تو پارک میں بیٹھ سکتے تھے ،لیکن ایک اعلان نے ہمیں اٹھنے پر مجبور کردیا ۔ہم انسانوں کو سرمایہ داروں ،سیاستدانوں کمیونسٹوں ،فوجی جرنیلوں نے غلام بنایا ہوا ہے ،اس کی وجہ آزادنہ سوچ کا نہ ہونا ہے ۔یہ سیاستدان ،فوجی جرنیل ،مولوی،سرمایہ دار ،جاگیردار کمیونسٹ لیڈرز یہ ہمارے خدا بنے ہوئے ہیں ،انہیں اس بات کا خوف ہے کہ جس دن ہم آزادانہ سوچ کی اہمیت سمجھ گئے ،ان کا ہم پر کنٹرول ختم ہو جائے گا ۔اس لئے یہ آزادانہ سوچ سے خوف زدہ ہیں اور ہمیں دہشت گردی ،انتہا پسندی اور سیکیورٹی کے نام پر الجھائے رکھتے ہیں ۔کبھی سیاست،آمریت اورجمہوریت کے نام پر، تو کبھی الطاف حسین کی غداری کے نام پر ،کبھی محب وطنی کے نام پر ،ہم ان کے غلام ہیں ۔اس ملک میں اس طرح کا نظام تخلیق دیا گیا ہے کہ جس سے آزادانہ سوچ کو قید کردیا گیا ہے۔جہاں آزادانہ سوچ کا راج نہیں ہوگا ،وہاں طاقتور فرد پیدا نہیں ہوسکتا ،صرف ہجوم پیدا ہوسکتا ہے اور ہم سب ہجوم ہیں ،ہمیں آزادانہ سوچ کو اختیار کرنا ہوگا ۔اپنے آپ کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے بنیادی چیز آزادانہ سوچ ہے جو ہماری انسانیت میں کہیں بھی نظر نہیں آرہی ۔اس انسانیت میں آزادانہ سوچ کی صلاحیت کو انسان کی پیدائش سے پہلے ہی تباہ کردیا جاتا ہے ۔جو لکھا ہے وہی سچ ہے اور اسی سے سوچ پیدا کرائی جاتی ہے ،بس یہی سوچ کا زریعہ بنی ہوئی ہے ۔داس کیپیٹل یا کمیونسٹ مینیفسٹو یا پھر کیپیٹالزم ۔۔۔۔۔انہی نظریات سے انسانوں کی سوچ پیدا کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہم سب غلام ہیں ۔یہ سوچ نہیں ،یہ اندھی تقلید ہے ۔لیکن اسے ہی سوچ کہا جاتا ہے ۔جہاں سوچنے کی بنیاد کا اسٹرکچر پہلے ہی پیدا کردیا جائے، وہاں آزادانہ سوچ کیسے پیدا ہوسکتی ہے ۔ایسے معاشرے میں آزادانہ سوچ ممکن نہیں ۔جہاں انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوگی ،زندگی گزارنے کے لئے جہاں شرائط ہوں گی ،وہاں غلام ابن غلام ہی پیدا ہوں گے ۔آزادانہ سوچ سے ہی زہانت،شعور کی صلاحیت ابھرتی ہے ۔اجمل شبیر ،ایک بات یاد رکھو ،آزادانہ سوچ کا بیج ہر دماغ میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے۔اگر مناسب آب و ہوا میسر ہوتو یہ بیج نشوونما پاسکتا ہے اور ہم سب آزاد ہو سکتے ہیں ۔لیکن اس بیج کو پیدائش سے پہلے ہی تباہ و برباد کردیا جاتا ہے ۔دوست کی باتیں جاری تھی ۔اسی دوران رات کے بارہ بج چکے تھے ۔میں نے کہا ،دوست اپنی ازادانہ سوچ کا پرچار بند کرو ۔رات بہت ہو چکی ،اب گھر کو چلتے ہیں ۔میری اس بات سے دوست شرارتی ہنسی ہنسا اور پھر ہم دونوں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔