بسم اللہ
محترم
بہت سی ایسی اشیا ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے اور اپنی گونا گوں مصروفیات و عدم ضرورت کے تحت جاننے کی سعی بھی نہیں کرتے نہ خواہش جبکہ تجسس و تفحص کا مادہ انسان میں ودیعت کیا گیا ہے۔
لاکھوں نہیں کروڑوں اربوں مخلوقات ہیں ان کے علاوہ جنہیں انسان خوردبین کے ذریعہ ملاحظہ کر چکا ہے اور اکثر لوگوں نے سن رکھا ہے کہ امیبا ہے، بیکٹیریا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اسے دیکھ نہیں رکھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ سب اشیا عدم ہوں اور سرے سے وجود ہی نہ رکھتی ہوں محض خیالاتِ بشری ہوں؟ احتمالات کی دنیا بڑی وسیع ہے جو ممکنات اور امکانات کے مابین مقید ہے۔ یہی حالت ایک اور مثال سے واضح ہو کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے سن رکھا ہے کہ لندن ہے، امریکہ ہے یا روس ہے لیکن نہ دیکھنے کے باوجود ان ممالک و خطہ ہائے ارضی کا وجود تسلیم کر لیتے ہیں۔ تو صاحب معلوم ہوا کہ یقین کے رین مدارج ہیں
علم الیقین
عین الیقین
حق الیقین
کہیں سے اٹھتا ہوا دھواں علم الیقین پر دال ہے کہ کہیں آگ سلگ رہی ہے کیونکہ آگ کے نتیجہ میں ہی دھواں پیدا ہوتا ہے۔ یہ یوا علم الیقین۔
پھر انسان آگ دیکھنے چل پڑتا اور سلگتی آگ کا نظارہ کر کے عین الیقین حاصل کرتا ہے۔
تیسرا درجہ یقین کا اس وقت پاتا ہے جب آگ کے قریب پہنچ کر ہاتھ تاپتا یا چہرہ پر حدت و تمازت محسوس کرتا اور اس کی جلانے کی صفت کو دیکھتا ہے تو حق الیقین کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے جاے حتمی علم کہتے ہیں۔
اب منظومات کے وسیع تر امکانات کا احاطہ کرنا یا نت نئی راہیں کھولنا اکسی عام انسان کا کام نہیں ہوتا اور میرا عقیدہ ہے کہ پتا بھی مرضیء مولا کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا تو کیسے ممکن ہے کہ خالق کی مخلوق یعنی ذہنِ انسانی کوئی ایسی اختراع کر کے دکھائے جس میں رضائے باری تعالی شامل نہ ہو۔ اس کیفیت کو میں یوں بیان کرتا ہوتا ہوان کہ
عدمِ علم سے عدمِ شے لازم نہیں آتی
کوئی تسلیم کس حد تک اور کس صورت میں کرتا ہے یہ پڑھنے والے پر ہے لیکن جنہوں نے یہ نادر کام کیے ہیں یعنی نئی نئی اختراعات و ایجادات فرمائی ہیں اور دریافتیں کی ہیں ان کے لیے یہ داد بہرحال بنتی ہے کہ انسانوں کے جم غفیر میں، اژدھامِ خیالات میں انیوں نے اپنی الگ ڈگر پکڑی ہے۔
پس داد تو بنتی ہے