مروجہ انتخابی نظام کے تحت بالآخر وادی کشمیر کے گیارہویں عام انتخابات میں ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دے دیا۔25 جولائی کو وادی میں ہونے والے انتخابات میں ووٹرز کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ دوران پولنگ لڑائی جھگڑے ، فائرنگ کے واقعات میں کوٹلی میں ایک ووٹر کی ہلاکت نے اس پرامن انتخابی مرحلے کو گہنا دیا۔اس دوران الیکشن ڈیوٹی کے دوران ایک گاڑی جس پر پاک فوج کے جوان سوار تھے۔نیلم ویلی میں لیسوا کے قریب گہری کھائی میں جاگری جس سے چار جوان شہید ہوگئے جبکہ باقی زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔تاہم اس کے باوجود آزاد کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر سردار عبدالرشید سلہریا کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات مجموعی طورپر پرامن رہے رہے ۔
آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 53 ہے۔ خواتین کیلئے 5 اور علما و مشائخ کی ایک مخصوص نشست ہے۔ ٹیکنو کریٹ اور اوور سیز کی بھی ایک ایک نشست ہے۔جبکہ 45 حلقوں میں پولنگ ہوئی جس میں سے 33 آزاد کشمیر اور 12 حلقے مہاجرین جموں وکشمیر کے لیے ہیں ۔آزاد کشمیر کے 45 حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 32 لاکھ 28 ہزار 99 ہے ۔جبکہ آزاد کشمیر کے 33 حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد28 لاکھ41 ہزار 985 ہے۔ان 33 حلقوں میں مرد ووٹرز 15 لاکھ 47 ہزار 850 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 12 لاکھ 94 ہزار 135 ہے۔
آزاد جموں کشمیر کے 45 حلقوں میں کل پولنگ اسٹیشن کی تعداد 6ہزار 114 ہے۔ مردانہ پولنگ اسٹیشن کی تعداد ایک ہزار 1275 ہے ۔خواتین پولنگ اسٹیشن کی تعداد 930 ہے۔ مشترکہ پولنگ اسٹیشن کی تعداد ایک ہزار 178 ہے۔جبکہ آزاد کشمیر کے33 حلقوں حلقوں میں کل پولنگ اسٹشن کی تعداد 5ہزار 123 ہے۔مظفرآباد ڈویژن کے168 پولنگ اسٹیشن کو حساس ترین قرار دیا گیا۔جبکہ مجموعی طورپر 300پولنگ اسٹیشنزکوحساس اور 759 کو نارمل قرار دیا گیا ہے۔
ریاست آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج سے متعلق تجزیہ نگار پہلے ہی پیش گوئی کرچکے تھے کہ اس بار کے انتخابات میں تحریک انصاف کی حکومت بنے گی۔اس کے متعلق تجزیہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وفاق میں جس سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے ریاست آزاد کشمیر میں اسی جماعت کی حکومت بنتی ہے ۔یہ ایک روایت ہے اور اسی روایت کی بنیاد پر وہ تحریک انصاف کی جیت کی پیش گوئی کررہے تھے۔اس سے قبل اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو 1996 میں اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو کشمیر میں بھی پی پی پی کی حکومت بنی ۔2001 میں مسلم لیگ ق کی حکومت تھی تو کشمیر میں مسلم کانفرنس برسراقتدار آئی 2006 میں بھی مسلم لیگ ق کی وجہ سے کشمیر میں مسلم کانفرنس اقتدار میں آئی ۔2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو کشمیر میں پی پی کی حکومت بنی اور 2016 میں اسلام آباد میں ن لیگ کی حکومت تھی تو کشمیر میں ن لیگ اور 2021 میں اسلام آباد میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔
ویسے دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلسل شکست کھانے والی تحریک انصاف کے پاس آزاد کشمیر انتخابات میں ایسا کون سا نیا نعرہ تھا جس کی بنیاد پر اس کو کامیابی ملی۔گزشتہ تین سالوں سے پاکستانی جس تبدیلی کے مرحلے سے گذر رہے ہیں کیا وہ حالات کشمیریوں کے علم میں نہیں تھے۔مہنگائی اور غربت میں بے پناہ اضافے کے سبب ضمنی انتخابات میں حکومت کو مسلسل شکست سے دوچار ہونا پڑا۔اگر کشمیریوں نے محض روایت کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے تو امید ہے اس تجربے کے بعد وہ آئندہ روایت شکن ثابت ہوں گے
مگر اس سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ واقعی یہ فیصلہ کشمیریوں کا ہی ہے یا روایت کو زندہ رکھنے میں کسی اور کا ہے ۔اس بات کا اندازہ کشمیر کے وزیراعظم اور کابینہ کے انتخاب سے ہوجائے گا۔تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اگر اپوزیشن کے مطابق 2018 میں سلیکشن ہوئی ہے تو اگر اپوزیشن اتفاق رائے سے حلف نہ لیتی تو کیا اس کو یہ دن دیکھنا پڑتے۔اگر مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی حمایت کی جاتی تو آج اپوزیشن سلیکشن کا شور نہ مچاتی ۔اگرپی ڈی ایم کو چھوٹے چھوٹے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھایا جاتا اور آج اگر پی ڈی ایم ہوتی تو کیا ایسے حالات ہوتے۔کشمیر الیکشن میں سب کہہ رہے ہیں پی پی پی نے اچھا پرفارم کیا ہے ۔سوال تو ن لیگ سے بنتا ہے جن کی پارٹی اقتدار میں تھی۔شہباز شریف ، حمزہ شریف اور ان کی ٹیم کشمیر الیکشن سے بالکل ہی لاتعلق رہے
اگر اپوزیشن اسی طرح منقسم رہی اور ن لیگ اسی طرح اندرونی خلفشار کا شکار رہی تو 2023 کے نتائج بھی اسی طرح کے ہی ہوں گے جیسے کشمیر کے نتائج سامنے آئے ہیں۔پیپلزپارٹی تو سندھ لے جائے گی مگر ن لیگ ، جے یو آئی ، اے این پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے حصے میں کچھ نہیں آنے والا۔اگر سب ہی ڈیل یا ڈھیل کے چکروں میں تذبذب کا شکار رہیں گے تو یاد رہے کہ ناتو ڈیل ہونی ہے اور نا ہی ڈھیل ملے گی۔کیونکہ ڈیل اور ڈھیل کے نتیجے میں انہوں نے جو خدمات سرانجام دینی ہیں وہی خدمات کم معاوضہ پر موجودہ حکمران سرانجام دے رہے ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ڈیل کی جائے اور ڈھیل دی جائے۔
پاکستان کی سیاست میں پنجاب کو ایک اہمیت حاصل ہے اور پنجاب کی سیاست الجھن کا شکار ہے۔ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا اس کا فیصلہ پنجاب نے کرنا ہے ۔جبکہ پنجاب کی ایک اہم جماعت ن لیگ کی اپنی مشکلات کم نہیں ہورہیں وہ باہمی اختلافات ختم نہیں کرپارہے۔ ن لیگ کا سیاسی ماڈل مریم نواز کے ساتھ انقلابی ہوگا یا پھر شہباز شریف کے ساتھ مفاہمتی ہوگا اس کا فیصلہ ن لیگ کو کرنا ہے اور جلد کرنا ہے۔وگرنہ ن لیگ بھی مستقبل میں ایم کیو ایم بننے جارہی ہے۔فی الوقت کشمیر کے انتخابات میں بلا چل گیاہے