ڈڈيال نقطہ آغاز اور تاريخی پس منطر۔
آج کا ڈڈيال میرپور شہر سے تقريبا 85km کی دوری پر اسکی ايک تحصيل ہے۔منگلا ڈيم کی تعمیر سے پہلے ڈڈيال پرانے ميرپور کے تاریخی شہر کے شمالی دروازے سے کوئئ 20km دور تھا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے خلاف 60 کی دھائئ ميں چلنے والی تحريک نے جب ببياواں (چکسواری ) کے مقام پر دھرنا ديا تو ميجر عباس (جنرل ر سروپ خان سابق گورنر پنجاب کے والد) کی قیادت ميں شامل ڈڈیال کے رہنماوں کے پاؤں ميں بھی بیڑياں ڈال کر رياست بدر کيا گيا تھا۔
https://x.com/i/status/1791490776716722314
منگلا ڈيم کی تعمیر کے وقت ڈڈيال سمیت رياست بھر کے لوگوں سے ریاست پاکستان نے وعدوں کی ايک لمبی لسٹ جاری کی تھی ،جس ميں منگلا سے پیدا ہونے والی بجلی کو ریاست بھر ميں فری آف کاسٹ دینے، ڈيم متاثرین کو بڑے معاوضے کے ساتھ متبادل زمينوں اور اس پر آبادی کاری کرنے اور نئے میرپور شہر کو ڈيم کے دونوں طرف بسنے والوں کو ملانے کيلیے تين بڑے برجز (پل) بنانے کے اعلانات بھی شامل تھے ، جن میں میرپور اکالگڑھ کيليے رٹھوعہ ریام پل ، میرپور چکسواری کيليے ايسر خانپور پل اور ميرپور ڈڈیال کيلیے پلہوٹ سياکھ پل شام تھے۔منگلا ڈیم بھی بن گيا،لوگ کئی بار قید بھی ہوے اور رہا بھی ہوتے رہے، مگر ڈڈيال ميرپور پل آج تک نہيں بن سکا، یوں تحصیل کے لوگ اپنے ضلع ميں جانے کيليے پل نہ ہونے کی وجہ سے 10 کلو ميٹر کا فاصلہ 85km کا لمبا سفر طے کر کے کرتے ہيں۔ يہ اذيت تاريخ کا حافظہ بناتی رہی۔آباد کاری کے نام پر جھنگ / حافظ اباد، تک آباد کیے جانے والے متاثرين منگلا ڈيم کو وہاں کے مقامی لوگوں نے رہنے ہی نہ دیا، انکی زمينيں”استعمال “ ہوہيں اور رقبے غائب ہوگے۔متاثرين کی بجاے مہاجرين جیسے تحقیری القابات سے تنگ آکر اکثریت واپس آ کر جنگلوں ميں آباد ہوگئئ يوں محکمہ جنگلات جيسا نيا آسیب انکے سامنے تھا مگر انکی معقول آباد کاری کيليے سرکار کے کانوں ميں جوں تک نہ سلگی-
ڈڈيال سے ہی تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس سپريم کورٹ عبدالمجید ملک نے 90 کی دھائئ ميں جب وہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو منگلا ڈيم کی راہلٹی پر ایک لینڈ مارک ججمنٹ دی تھی مگر سردار قیوم نے ریاست پاکستان سے وزارت اعظمی کی کرسی کے بدلے اس ججمنٹ پر اپیل دائر کرنے کا وعدہ کيا، اوپر سپریم کورٹ ميں چیف جسٹس راجہ بشارت جو خود مسلم کانفرنسی اور سردار قیوم سپورٹر تھے انھوں نے سردار قیوم سے مک مکا کر کے ججمنٹ ہی اڑا دی۔کرسی کی خاطر سردار قیوم کی اس دلالی پر جب وہ ڈڈیال ميں بحثیت وزير اعظم ایک جلسے سے خطاب کرنے اٹھے تو نوجوانوں نے سردار قیوم کو غدار وطن کہہ کر اپنے حقوق کا نعرہ مستانہ بلند کردیا،جس کے جواب ميں سردار عبدالقیوم نے ڈڈيال کے باسیوں کو جھاڑیوں کی پیداوار کہہ دیا، لوگ اٹھ کھڑے ہوگے، کرسياں چلنے لگی، جلسہ تتر بتر ہوگيا، وزير اعظم سردار قیوم ڈڈيال سے بھاگ گے۔دوسرے دن ڈڈيال کے جوانوں نے سردار قيوم کے خلاف بھرپور احتجاجی جلوس نکالا، انکی پوليس سے مڈبھیڑ ہوگئی ، گرفتارياں ہوہيں اگلے دن پھر احتجاج ہوا،گرفتار لوگ رہا ہو گے مگر تاريخ کا حافط بن گی۔ڈڈيال کے شہريوں اور قوم پرستوں نے ملکر مقبول بٹ کی شہادت کو خراج عقيدت پیش کرنے کيليے مرکزی چوک کو ان کے نام منسوب کر دیا،مگر ریاست کو مقبول بٹ کا نام برداشت نہ ہوا تو ہنگامہ کھڑا کر دیا۔پولیس فائرنگ ہوئی تو لوگ زخمی ہوگے، لوگ گرفتار ہوے، رہا ہوے مگر تاریخ کا حافظ بنتا گیاڈڈيال ميں افغان مہاجرین کثیر تعداد ميں آباد تھے،مقامی بزنسز پر انکا کنٹرول تھا،ایک روز ایک افغان اور رياستی نوجوان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، افغان باشندے نے ریاستی نوجوان پر گولی چلادی جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا، مقامی لوگ اس طرح سرعام اسلحہ رکھنے پر بھڑک اٹھے، احتجاج شروع ہوگے، پولیس نے مجرم پکڑنے کی بجاے پیسے لیکر اسے چھوڑ ديا، لوگوں کا غصہ غیر ریاستی افراد اور پولیس دونوں پر دوگنا ہوگيا،يوں غیر رياستی افراد بلخصوص بے گناہ افغان مہاجرین بھی رگڑے ميں آگے۔مقدمے بنے، گرفتاریاں ہوئیں پولیس نے دونوں طرف سے مال کھایا اورپھر قیدی رہا ہوگے۔بات تاريخ کے حافظے ميں چلی گئی۔ڈڈيال کے مقبول بٹ چوک ميں سرکار نے پاکستان کا جھنڈا نصب کروايا تو قوم پرست نوجوان تنویر احمد نے چوک کے گنبد پر چڑھ کر پاکستان کا جھنڈا اتار کر کشمیر کا جھنڈا لگا ديا، جس پر ایک پشتون پی ٹی آئی کے سپورٹر نے تنویر احمد کے خلاف توعئن پرچم کی FIR درج کروا دی۔ مقامی پولیس نے تنویر احمد کو تعزیرات پاکستان کے ايکٹ میں اندر کر ديا، جو آزاد کشمیر ميں لگ نہيں سکتيں تھيں اس پر آزاد کشمیر بھر ميں قوم پرستوں نے احتجاج شروع کردیے۔تنویر احمد برطانوی شہری بھی تھا،اسکی رہائی کيليے پاکستان ہائی کمیشن لنڈن اور برمنگھم و بریڈ فورڈ کے قونصلیٹس کے باھر کشمیریوں نے بھرپور مظاہرے کیے۔برطانوی پارلیمنٹ نے آواز اٹھائی اور اسلام آباد ميں مقیم برطانوی سفارت کار کو تنویراحمد کی رہائی کا مطالبہ کرنا پڑا۔ تنویر احمد رہا ہو گیا مگر بات تاریخ کے حافظے ميں محفوظ رہ گئی۔الغرض ریاستی اسمبلی ميں جو حکمران رياست پاکستان نے بٹھا رکھے وہ نہ صرف دانش سے دور ہيں بلکہ انھیں عوام کے اندر پاے جانے والے غصے کا کماحقہ اندازہ کرنے کی صلاحیت ہی نہيں، اوپر سے ریاست پاکستان نے منگلا ڈيم کی بجلی کی خاطر واپڈا کو بے لگام چھوڑے رکھاہے ، واپڈا کی ڈھٹائی کی وجہ سے جب مشرف دور ميں منگلا ڈيم کی اپ ریزنگ کا پروجيکٹ شروع ہوا تو ڈڈيال کے عوام پھر بے گھر ہونے پر سراپا احتجاج بن گے، یہاں تک کہ ڈڈيال کے باسی یونس تریابی (جو برطانیہ شہری بھی ہيں)نے برمنگھم سے نکلنے والے پرچے کشمیر پوسٹ ميں یکے بعد دیگرے آٹھ دس کالم لکھے جس ميں انھوں نے منگلا ڈيم توڑ دو تحريک کے حق ميں جاندار دلال دیے يہ بات بھی تاريخ کے حافظے ميں محفوظ ہوگئی۔اس مختصر تاريخ کے بعد اب اتے ہيں حاليہ واقعات کیطرف، عوامی ايکشن کمیٹی نے حکومت آزاد کشمیر سے دو مرتبہ دھوکہ کھانے بعد 11 مئی کو مظفرآباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم انوار الحق اور انکی حکومت نے اس سے قبل ہی عوامی ایکشن کمیٹی والوں کو دھمکياں دينا اور ڈرانا شروع کر ديا۔ آزاد کشمیر ميں پنجاب پولیس اور فرنٹیر کانٹیبلری کو بھلا کر آزاد آزاد حکومت نے پولیس کو ازاد کشمیر پولیس کی وردیاں پہنا ديں،تحريک کو کچلنے کيلیے حکومت پاکستان سے ایف سی اور رینجرز طلب کر لی۔ دوسری طرف میرپور سے ایکشن کمیٹی کے تمام سرکردہ رہنماوں کو ايک دن قبل ہی اٹھا لیا، جس سے ضلع میرپور کے دور دراز علاقوں کے نوجوان سڑکوں پر نکل اے۔
ڈڈيال ميں بھی لوگ احتجاج کيليے باھر نکلے، پرامن جلوس کے آگے پولیس کھڑی ہوگئی تو AC باھر نکل کر جلوس کے پاس ايا اور تحمکانہ لہجے ميں لوگوں سے کہنا لگا کہ يہ سب بند کرو، مگر لوگوں نے جواب دیا کہ پرامن احتجاج ہمارا حق ہے، تو AC نے پھر اسی لہجے ميں کہا کہ ميں نکالوں آپکا حق؟
اس پر ايک نواجون نے آگے بڑھ کر کہا کہ آپ کيا کرو گے، گرفتار کرو گے؟ اس پر AC نے اس نوجوان کے منہ پر تھپڑ رسيد کر ديا جس سے لوگ مشتعل ہوگے، تو انھوں نے AC کو پکڑ لیااور اسکی گاڑی کو آگ لگا دی،اسکی شلوار کو اتار کر چوک پر لٹکا ديا، قمیض اتار کر جلتی گاڑی پر لٹکا دی۔ پولیس نے لاٹھی چارج شروع کيا مگر پسپا ہوگئئ۔ پھر دوبارہ اکٹھے ہو کر ڈڈيال شہر کی طرف آنسو گیس کے گولے مارنے شروع کردیے جو قريبی گرلز سکول کے اندر جا گرے جس سے سکول کے اندر درجنوں بچیوں کے سانس بند ہوگے،اورانکی حالت تشويش ناک ہوگئئ تو مقامی لوگ بچیوں کو اٹھا کر قریبی ہسپتال ميں لے جانے لگے۔ علاقے ميں کہرام مچ گیا لوگ گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگے اور پولیس پر برس پڑے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے لوگوں سے پرامن رہنے کی استدعا کی مگر بھپھرے ہوے لوگوں نے سرکاری عمارات پر قریب قریب قبضہ کرليا۔ایکشن کمیٹی کے بندوں نے موقع پر پہنچ کر حالات کو ٹھنڈے کیا، تو ہزاروں کی تعداد ميں لوگ معصوم بچیوں اور دوسرے زخمیوں کو خون دینے کيلیے ہسپتال کے باھر جمع ہوگے، دوسری طرف ہسپتال کے علاوہ رياستی انتظامیہ شہر سے بھاگ گئی۔ يہ ڈڈيال کے اندر لوگوں ميں عشروں سے ابلتے ہوے لاوے کا انت تھا جبکہ باقی آزاد کشمیر کيلیے يہ شروعات تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...