آوے ہی آوے تے جاوے ہی جاوے کے نعروں سے اس وقت ریاست کشمیر گونج رہی ہے ۔ریاست میں 25 جولائی کو انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ مایوس اور مشکلات کا شکار کشمیریوں کو ان کے قائدین ایک بار پھر بہتر مستقبل کی امید دلا رہے ہیں انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر عصر حاضر کی چرب زبانی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ روزگار کی یقین دہانیاں، مہنگائی میں کمی کے وعدے ، پانچ سال تک خدمت کرنے کے حلف ، اقتدار میں آتے ہی ترقیاتی کاموں کے اعلانات سمیت ہر وہ جھوٹ بولا جارہا ہے جس کی اس وقت ضرورت ہے ۔ووٹر بے چارے بھی کتنے سادہ ہیں کہ اس عطار لونڈے کے پاس جارہے ہیں جس کے سبب وہ مشکلات کا شکار ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ اُن کا مستقبل اُن کے ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ مگر چونکہ رسم چلی ہے تو سب ہی انتخابی عمل کا حصہ بن کر جمہوریت کو مضبوط کررہے ہیں۔کیونکہ اس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے۔
کیونکہ دوسرا راستہ تو جدوجہد کا ہے اپنے حق کی جنگ لڑنے کا راستہ ہے جو قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں۔مگر قربانی کون دے جدوجہد کون کرئے لہذا جیسا نظام میسر ہے اسی کا حصہ بن کر زندگی گذارنے کا فلسفہ فی الوقت رائج ہے ۔ترقی پذیر ممالک میں عوامی رائے سے منتخب ہونے والی حکومت کو جمہوری حکومت کا نام دیا جاتا ہے ۔اور ان ممالک کی عوام ایک مدت سے اسی خوش فہمی کا شکار ہے کہ ان کے منتخب کردہ نمائندے ہی حکومت بناتے ہیں۔اور بظاہر ایسا ہی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت کے ثمرات عوام تک تاحال نہیں پہنچے۔تاہم جمہوریت کے نام پر انتخابات زریعے عوام سے کھلواڑ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مسائل بڑھ رہے ہیں اور ان کا حل کہیں نہیں مل رہا۔اور حل ملے بھی کیسے کہ مشکلات اور مسائل کا حل تلاش کرنےوالی سیاسی اشرافیہ کے اپنے مسائل اور مشکلات کچھ اور ہیں۔
جس دن سیاسی اشرافیہ کی بجائے عام عوام کے اندر سے نمائندے منتخب کیئے جائیں گے جن کو ایک عام ووٹر کے مسائل کا ادراک ہوگا تو اس دن سے مسائل کے حل کی کوششیں بھی شروع ہوں گی اور عام آدمی کی حالت بہتر ہونے لگے گی۔مگر کیا کیا جائے کہ مسلط کردہ انتخابی عمل ہی ایسا ہے کہ نصیب کے شودر کچھ کرلیں وہ سیاسی برہمن کے برابر نہیں بیٹھ سکتے ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔دوش سارا اس مسلط کردہ جبر کے نظام کا بھی نہیں ہے ہم خود بھی تو فکری طورپر کرپٹ ہوچکے ہیں۔ہمارا انتخاب بھی تو وہی عطار کے لونڈے ہوتے ہیں جن کے سبب ہم بیمار ہیں۔قصہ کوتاہ ریاست کے طول وعرض میں انتخابی بگل بج چکا ہے اور 25 جولائی کو کشمیری اپنے امیدواروں کی جیت کی خوشی میں روایتی رقص میں مصروف ہوں گے۔
اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ حالیہ انتخابات میں کشمیر میں کچھ نیا ہونے جارہا ہے تو وہ اپنی غلط فہمی کو دور کرلے ۔یہاں پر بھی گلگت بلتستان جیسے انتخابات ہوں گے برسراقتدار وفاقی حکومت کے حمایت یافتہ امیدوار ہی کامیاب ہوں گے ۔اب سوال یہ ہے کہ پھر دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات میں کیا کررہی ہیں تو دیگر سیاسی جماعتیں محض اپنے ووٹرز کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیئے بھاگ دوڑ کررہی ہیں تاکہ جب کبھی ان کی باری آئے تو ان کے پاس امیدوار اور ووٹرز موجود ہوں۔وگرنہ سب جانتے ہیں کہ جس طرح ماضی میں حکومتیں بنی ہیں اس بار بھی ویسے ہی حکومت تشکیل پائے گی ۔کیونکہ یہ ایک طے شدہ فارمولہ ہے وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے پاکستان میں ہونے والی تمام ضمنی انتخابات ہارنے والی وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات جیت جائے۔اس لیے 25 جولائی کی شاندار جیت پر عوام کے سوچنے کے لیے بہت کچھ ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ پھر طے شدہ فارمولے کے تحت حکومتیں کب تک بنتی اور ٹوٹتی رہیں گی تو اس کا جواب بہت سادہ سا ہے کہ جب تک دستیاب سیاسی اشرافیہ جدوجہد کی بجائے اپنی باری کا انتظار کرے گی جب تک سیاسی جماعتیں عوام کی بجائے طاقتور حلقوں کی خوشنودی کو مقدم رکھیں گی جب تک امیدواروں کا انتخاب کردار کی بجائے دولت کو دیکھ کر ہوگا جب تک اجتماعی مفادکی بجائے زاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی رہے گی تو انتخابات کا ڈرامہ اسی طرح ہوگا اور اس ڈرامے کے نتیجے میں حکومت تو بے شک تبدیل ہوجائے گی مگر عوام کی حالت نہیں بدلے گی ۔سب کچھ ویسا ہی رہے گا جیسے تھا اور جیسا چل رہا ہے۔اس لیے صرف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے ووٹرز کو بھی ایماندار ہونا پڑے گا۔
فی الوقت 25 جولائی کو آزاد جموں وکشمیر کی 45 براہ راست نشستوں میں سے 33 نشستیں آزاد جموں وکشمیر میں واقع ہیں جہاں پر 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق راہے دہی استعمال کریں گے ان میں 12 لاکھ 97 ہزار خواتین ووٹرز شامل ہیں جبکہ 12 نشستیں پاکستان کے دیگر ان حصوں میں جہاں مہاجرین جموں وکشمیر آباد ہیں کے لیئے بنائی گئی ہیں۔ان 12 نشستوں کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 30 ہزار سے زائد ہے ان میں ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد خواتین ووٹرز شامل ہیں۔
ریاست تبدیلی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے اور 25 جولائی کے بعد ریاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔وہی نیادور جس کے ثمرات سے پاکستانی گزشتہ تین سالوں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔مگر اس کا گلہ کس سے کیا جائے جو اس سے قبل تھے انہوں نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔سب کچھ بگڑ گیا تھا اور اس بگڑے ہوئے کو سنوارنے کے لیے تو ایکسٹینشن لی گئی مگر کام بہت ہے مزید کچھ وقت لگے گا سب کچھ ٹھیک کرنے میں اور شائد ایک بار پھر ایکسٹیشن لینے کی ضرورت نہ پیش آجائے ۔اگر ایسا ہوا تو خاطر جمع رکھیں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔کیونکہ اپنی باری کا لالچ ملک وقوم کے مفاد میں سوچنے پر مجبور کردے گا۔