آزاد کشمیر میں الیکشن کی گہما گہمی عروج پر ہے۔ عجب جمہوریت کی غضب کہانی کچھ یوں ہے،ہم ملک میں الگ الگ الیکشن کروا کر پہلے ہی رائے عامہ ہموار کر لیتے ہیں۔ پاکستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بیک وقت الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے وفاق میں برسراقتدار پارٹی ہی گلگ بلتستان اور آزاد کشمیر میں حکومت بناتی رہی ہے۔ آزاد کشمیر کی سیاست زیادہ تر وفاق اور برادری ازم کے گرد گھومتی ہے۔ اسی لیے پی ٹی آئی آزاد کشمیر کوجماعت مضبوط کرنے کے لیے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی ضرورت پیش آئی۔ پی ٹی آئی کی طرح دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی برادری ازم اور موروثیت کی ان مٹ چھاپ موجود ہے۔ آزاد کشمیراسمبلی کی کل 45سیٹوں میں سے 33آزاد کشمیر میں ہیں اوررجسٹرڈ ووٹر ز کی تعداد2.28ملین ہے جس میں 1.29ملین خواتین ووٹر شامل ہیں۔ باقی ماندہ 12سیٹیں پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی ہیں اوررجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد430,456ہے جس میں 170,931خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ پاکستان میں مقیم کشمیری سیٹیں حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر تی ہیں۔ آزاد کشمیر میں پرانے چہرے ہی پارٹیاں بدل کرآتے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر چہرے ہر حکومت میں نظر آتے ہیں۔راتوں رات وفاداریاں بدلنے والے ارکان بھی ممکنہ حکومت کا سگنل سمجھے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے سیاستدان اور عوام دونوں حد درجہ نظریاتی ہیں۔ یہ نظریہ ضرورت کا بھر پور استعمال کر تے ہوئے ممکنہ حکومت بنانے والی پارٹی کو بھانپ لیتے اور پارٹیاں، وفاداریاں اور وابستگیاں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔آزاد کشمیر الیکشن میں بنیادی طور پر مقابلہ تین بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں ہے۔ کشمیر کا الیکشن بھی گلگت بلتستان سے مختلف قطعا نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بھی وفاق وہی حربے استعمال کر رہا ہے جو جی بی کے الیکشن میں استعمال کیے گئے۔ حکومتی وزراء نہ صرف انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ سیاسی نورا کشتی بھی اپنے عروج پر ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی انتخابی مہم پی ٹی آئی پاکستان کی ناکامی اور آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے جنتر منتر کے گرد گھومتی ہے۔ واحد بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس ریاست تو درکنار سیاست بچانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردارعتیق اپنی سیٹ بچانے کے لیے عمران خان صاحب سے اتحاد کرنے دوڑ پڑے مگراتحاد کو الیکشن کے بعد کی پوزیشن سے مشروط کر دیا گیا۔ مسلم کانفرنس پی ٹی آئی سے یکطرفہ اور زبردستی اتحاد کے نعرے سے شائد ایک دو سیٹیں بچا پائے اس سے زیادہ تو کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ ریاستی پارٹی کے انتخابی نشان گھوڑے کو پی ٹی آئی کے بلے کی ٹانگیں لگا کر چلانے کی بے سود کوشش کی جارہی ہے۔ برسراقتدار مسلم لیگ ن نے بھی وفاق کی وجہ سے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اب راجہ فاروق حیدر صاحب کے وفاق سے شکوے غیر منطقی ہیں۔ مسلم لیگ ن پی ٹی آئی پر لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈینگ کے الزامات لگاتی ہے جبکہ ن لیگ کو بھی ایم سی اور پیپلز پارٹی توڑ کر بنایا گیا تھا۔ ن لیگ وفاق میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ممکنہ حکومت کے اردگرد بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ دوسری وجہ راجہ فاروق حیدر صاحب کی وفاق پر مسلسل سیاسی گولہ باری اور کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی باتیں ہیں۔ تیسری وجہ ن لیگ پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں پی ڈی ایم طرز کا کے ڈی ایم (کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ) بنانے میں بھی کامیاب نہیں ہو ئی۔ اگر ن لیگ کے ڈی ایم بنانے اور چلانے میں کامیاب ہو جاتی تو پی ٹی آئی کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔چوتھی وجہ پاکستان میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی اندرونی طور پر ملی ہوئی ہیں جبکہ آزاد کشمیر میں صورتحال اس کے بلکل برعکس ہے۔2016کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے ن لیگ سے اتحاد کر کے دو مخصوص نشستیں حاصل کیں۔ یہ جماعت اسلامی کی سیاسی کامیابی اور نظریاتی ناکامی تھی۔ اس بار جماعت اسلامی بھی اپنے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو آج تک نہ تو پاکستانی سیاست کی سمجھ آئی ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر کی۔ اگرچہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں اتحاد کی چے مہ گوئیاں بھی کی جارہی ہیں مگر اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ حکومت بنانے کے لیے شائد پی ٹی آئی کو کسی اتحاد کی ضرورت پیش نہ آئے۔ فرض کر یں اگر ایسا ہوبھی جاتا ہے تو یہ ضرورت آزاد امیدوار اور نام نہاد ریاستی جماعت مسلم کانفرنس پوری کر دیں گے۔ مسلم کانفرنس تو اقتدار کے لیے عمران خان کی ملنگنی بنی پھرتی ہے۔ ن لیگ کے لیے حکومت میں آنے کا امکان اسی صورت بن سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرز پر پیپلز پارٹی سے یا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کو رام کرلے اور دونوں اندرونی طور پر ملکر حکومت بناتے ہوئے پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر کر دیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں پارٹیا ں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ سیٹیں حاصل کر پائیں۔ البتہ مسلم کانفرنس تو برسراقتدار پارٹی کے ساتھ ہی ملے گی وہ چاہیے کوئی بھی ہو۔ پاکستان میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی اندرونی ملی بھگت سے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ دونوں پارٹیاں ملکر حکومت بنا لیں۔اس کی ایک ٹھوس وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے امیدواران کو توڑنے کے بجائے ہاتھ دھو کر ن لیگ کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ زیادہ تر لیگی تبدیلی کو پیارے ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید قربانیاں بھی متوقع ہیں۔ ن لیگ نے بعض حلقوں میں انتہائی غیر معروف اور کمزور امیدوران کو ٹکٹ دیے ہیں جس سے امکان ہے پس پردہ کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ طے ہو چکی ہے۔ مثلا وادی نیلم لوئر حلقے سے سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر سے ٹکٹ واپس لے کر ایک غیر معروف امیدوار کو جاری کیا گیا۔ ا پی ڈی ایم کی مفاد پرستیوں نے گلگت بلتستان کا الیکشن معمولی مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیا۔ حکومت تو جی بی میں بھی ن لیگ کی تھی مگر اس کے باوجود الیکشن نہ جیت سکی۔اگرچہ پی ٹی آئی نے جی بی کی طرح آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کا نعرہ تو نہیں لگایا مگر وفاق کی جانب سے فنڈز کی فراہمی اور تعطلی کی بنیاد پر مہم چلائی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کا حصہ ہے اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی مقاصد کے لیے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی مخالفت کر رہے ہیں تو پھر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اپنے اعلانات کیا منافقانہ نہیں ہیں۔عوامی سطح پر اس بات کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے اگر کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دے کر جتوایا گیااوراس کی پارٹی حکومت نہ بنا سکی تو وی جیتنے کے باوجود بھی ہار جائے گا اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے گا۔پی ٹی آئی میں بھی پاکستان طرز کی گروپ بندی موجود ہے۔ بیرسٹر اور سردار گروپس میں سیاسی رسہ کشی جاری ہے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے بعض حلقوں میں ٹکٹ تبدیل کیے ہیں جس کا فائدہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اٹھا سکتی ہیں۔ بعض حلقوں میں ناراض ارکان نے کاغذات نامزدگی واپس نہیں لیے اگر وہ پارٹی سے بغاوت کر کے آزاد لڑتے ہیں جس کا امکان بہت کم ہے تو اس کا فائدہ یقینا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ سیاست، کھیل اور جنگ کے بارے جیت یا ہار سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہوتا ہے تاہم مقامی سیاسی لحاظ سے پی ٹی آئی حکومت بناتی نظر آرہی ہے۔ دوسر ا امکان پیپلز پارٹی کا ہے جبکہ ن لیگ تیسرنمبر پر ہے جو شائد چند سیٹیں تو لینے میں کامیاب ہو جائے مگر حکومت بناتی دکھائی نہیں دیتی۔ عوامی سطح پر وفاق میں برسراقتدار پارٹی کو فوقیت دی جاتی ہے تاکہ فنڈز جاری ہونے میں دقت پیش نہ آئے۔ اگر وفاق میں حکومت نہ ہوتی تو ستر سالہ میڑک پاس سیاستدانوں کے سامنے اعلی تعلیم یافتہ نوجون ہاتھ باندھے کھڑے نہ ہوتے۔ اگرچہ آزاد کشمیر میں آزاد الیکشن لڑنا فیشن سمجھا جاتا ہے تاہم آزاد یا چھوٹی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ سے جیتنے والا امیدوار بھی اپوزیشن کے بجائے حکومتی پارٹی کے ساتھ شامل ہونے کو ترجیح دے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...