آزاد کشمیر اور سنسر شپ
"آزادیِ اظہار سے مراد ہمیشہ انکے اظہار کی آزادی ہے جو مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ روزا لکسمبرگ"
24 اگست کو راولا کوٹ کی انتظامیہ نے روزنامہ مجادلہ کے دفتر کو یہ کہہ کر بند کر دیا کہ اخبار کے پاس اجازت نامہ [ڈیکلریشن] نہیں ہے۔ اخبار کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈیکلریشن کے لئے درخواست دے رکھی تھی اور قانون کے مطابق اس دوران وہ اخبار شائع کر سکتے تھے۔ اخبار کی بندش پر انتظامیہ، سیاسی کارکنوں اور آزاد کشمیر کے دانشوارانہ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ایک انتقامی کاروائی ہے جبکہ قانونی چارہ جوئی محض بہانہ ہے۔
یہ انتقامی کاروائی کیوں کی گیئ ؟
کاروائی سے ایک روز قبل، اخبار میں ایک سروے رپورٹ شائع کی گئی تھی جسکے مطابق آزاد کشمیر کے ستر فیصد لوگ آزادی چاہتے ہیں۔ یہ سروے برطانیہ میں مقیم آزاد کشمیری نژاد محقق تنویر احمد نے کیا۔ انکی تحقیق کی بنیاد دس ہزار افراد کے ساتھ انٹرویو ہے۔ ان کے طریقہ تحقیق اور اس سروے کی سائنسی بنیاد پر بات فی الحال کرنا ممکن نہیں کیونکہ تفصیلات میسر نہیں ہیں مگر اس وقت یہ بات اہم نہیں کہ یہ سروے کتنا درست یا غلط ہے۔ بات ہے آزاد کشمیر میں سنسر شپ کی۔
ابھی پچھلے سال آزاد کشمیر کی حکومت نے سولہ کتابوں پر پابندی عائد کی تھی۔ جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ان میں مقبول بٹ شہید کی دو کتابیں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ برمنگھم میں مقیم کشمیری دانشور اور محقق، شمس رحمِن، کی تحریرکردہ مقبول بٹ کی سانح عمری بھی شامل تھی۔ ان سولہ کتابوں میں کچھ سعید اسد کی تحریر کردہ تھیں۔ یہ کتابیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز نے شائع کی تھیں۔
'کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے' کا رٹا لگانے والے پاکستانیوں کو شائد مقبول بٹ بارے معلوم نہ ہو۔ مقبول بٹ محاذِ رائے شماری کے بانیوں میں سے تھے اور جموں کشمیر کو ایک آزاد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ پاکستانی ریاست بھی انکے در پے تھی اور ہندوستانی ریاست بھی۔ کنٹرول لائن کے آر پار قوم پرست اور ترقی پسند حلقے ان کو اپنا قہر مان مانتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور وادئی کشمیر میں ان کا چہرہ پوسٹروں کی صورت جا بجا دکھائی دے گا۔ انہیں 1984 میں دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر جسدِ خاکی کو جیل ہی میں دفنا دیا گیا۔ دلی کو خدشہ تھا کہ انکی قبر وادی میں آزادی پسندوں کے لئے ایک علامت بن جائے گی۔
کچھ سالوں سے قوم پرست یہ مہم چلا رہے ہیں کہ انکا جسدِ خاکی انکی بوڑھی ماں کے حوالے کیا جائے جو انکو وادی میں دفن کرنا چاہتی ہیں۔ اس مہم بارے سویڈن میں مقیم فلم میکر طلعت بٹ ایک دستاویزی فلم بھی بنا رہے ہیں۔
اب اسے ستم ظریفی کہئے یا منافقت کہ انکی کتابوں پر پابندی کے چند ہی دن بعد آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم چوہدری مجید [ جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا]
نے اقوامِ متحدہ اور عالمی رہنمائوں سے اپیل کی کہ مقبول بٹ کا جسدِ خاکی واپس دینے کے لئے دلی پر دباو ڈالا جائے۔
بات شروع ہوئی تھی مجادلہ سے۔ مجادلہ پر پابندی دراصل اس پاکستانی حکمتِ عملی کا حصہ ہے کہ ہر اس آواز کو دبا دیا جائے جو اسلام آباد سے متفق نہیں۔ اس حکمتِ عملی پر دو طرح سے عمل کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو 1974 کے عبوری آئین میں الحاقِ پاکستان کو قانونی شکل دے دی گئی۔ گویا اس نظرئے سے انحراف ہی غیر آئینی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی سیاسی جماعتوں کی کشمیری فرنچائز کھلوا کر [یہ کام بھٹو نے شروع کیا] اور ریاستی جماعتوں کو کم سے کم جموں کشمیر کی لیجسلیٹو اسمبلی سے فارغ کر دیا گیا۔ کیا مذاق ہے کہ آزاد کشمیر میں مہاجر قومی مومنٹ یعنی ایک کیو ایم اور لشکرِ طیبہ تو قانونی طور پر کام کر سکتے ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ، جموں کشمیر نیپ یا جموں کشمر پی این پی آیئنی طور پر غیر قانونی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“