آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے 25جولائی کو ہونے والے انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی شاخیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی صف اول کی سیاسی قیادت انتخابی مہم چلانے کے لئے آزادجموں کشمیر میں مصروف ہے۔ اس انتخابی مہم میںآزاد کشمیر کی سیاسی قیادت پش منظر میں چلی گئی ہے اور منظر عام پر پاکستانی سیاسی قائدین ہی نظر آرہے ہیں۔ آزادکشمیر ایک حساس خطہ اور مضبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی سیاسی جماعتوں کی آمد نے اسے سیاسی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشیوں کے ذریعہ اپنی مہم چلا رہی ہیں۔ کسی ایک جماعت نے بھی عوامی مسائل کے حل، تعلیم، صحت، سماجی سہولتوں کی فراہمی، آزادحکومت ریاست جموں کے قیام کے مقاصد کے حصول اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا کوئی طریقہ کار اور منشور پیش نہیں کیا۔ اس سیاسی مہم میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرس کہیں نظر آرہی جو ر طویل عرصہ آزادکشمیر اور برسر اقتدار رہی اور ریاستی جماعت ہونے کی دعویٰ دار ہے۔ پی پی پی کی آزادکشمیر شاخ انتخابی مہم بھی مسئلہ کشمیر کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی وابستگی کو پیش کررہی ہے۔مسلم لیگ ن کی ساری انتخابی مہم تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف الزام تراشیوں پر مشتمل ہے البتہ مریم نواز نے آزادکشمیر کی عوام کی نبض پر خوب ہاتھ رکھ کر ’’ بچہ بچہ کٹ مرے گا۔ کشمیر صوبہ نہیں بنے گا‘‘ کے اس نعر ے کا اعادہ کیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں وجود آیا تھا جب وہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنانا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے آزادکشمیر میں اپنے جلسوں میں آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی تردید نہیں کی اس کی بجائے وہ اپنے ریاست مدینہ کے تصور کو پیش کرتے رہے۔ انہوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کے لئے کسی منصوبہ کا کوئی ذکر نہیں کیا وہ کس طرح مودی حکومت کے اقدامات کا جواب دیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں پابند سلاسل کشمیریوں کی رہائی اور مسئلہ کشمیر حل کے لئے وہ کون سے نئے اقدامات کریں گے جو اب تک نہیں کرسکے؟
وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور کی آزاد کشمیر میں سرگرمیوں پر اعتراض کرتے ہوئے وہاں کے الیکشن کمشن نے انہیں آزاد کشمیر سے نکل جانے کا حکم دیا لیکن وزیر موصوف نے اس حکم کی بالکل پروا نہ کی اور وہ بدستور نہ صرف آزادکشمیر میں موجود ہیں بلکہ وہ انتخابی جلسوں سے بھی خطاب کررہے ہیں۔ حیرت اس امر ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان جو قانون کی حکمرانی کے دعویٰ دار ہیں ، وہ خود اس وزیر امور کشمیر کو اپنے ساتھ باغ، بھمبر اور میرپور کے جلسوں میں ساتھ لے کر گئے ہیں۔ اس سے وہی تاثر ابھرے گا جو عمران خان کہتے ہیں کہ طاقت ور کے لئے کوئی اور قانون اور بے اختیار کے لئے کوئی اور قانون۔اس عمل سے آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کی بے توقیری ہوئی ہے اور ان انتخابات کی اپنی ساکھ بھی مجروح ہوئی ہے۔ انتخابات کے موقع پر سب سے سپریم اتھارٹی الیکشن کمیشن ہوتا ہے اورہر ایک اس کا حکم ماننا ہوتا ہے۔اس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اور اس کے اداروں کی کوئی حیثیت نہیں ۔آزادکشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کو احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہو کر تاریخ رقم کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان جو قانون کی حکمرانی کے داعی ہیں، ان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس وزیر کو اپنے ساتھ جلسوں میں رکھیں گے اور آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کے حکم کو ردی کی ٹوکری میں پھینکیں گے۔کیا جناب عمران خان آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا احترام نہ کرنے کی وضاحت کریں گے؟
جہاں ایک طرف پر جوش انتخابی مہم جاری ہے تو دوسری جانب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور دیگر آزادی پسند حلقوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ انتخابات کشمیر کی آزادی کی جدوجہد سے دور لے جانے کا باعث ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کی بجائے مظفرآباد کی کرسی کے حصول کے لئے کوشش ہورہی ہے۔ آزادکشمیر جسے تحریک آزدی کا بیس کیمپ ہونا چاہیے ، وہ الیکشن کا میدان بن چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو کئے گئے اقدامات اپنی جگہ موجود ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت پابند سلال ہے۔ آزادکشمیر اسمبلی کے انتخابات قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتے ہیں ۔ سیاسی، علاقائی تعصبات کے علاوہ اور برادری ازم کو فروغ ملتا ہے۔ یہ دلائل اپنی جگہ اہم ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا تو پھر آزادحکومت ریاست جموں کشمیر کا انتظام کیسے چلایا جائے گا؟ اگر آزاد جموں کشمیر میں منتخب اسمبلی نہیں ہوگی تو پھر متبادل نظام ہوگا؟ مجوزہ قومی حکومت کیسے بنے گی؟۔ ماضی میں جب آزادجموں کشمیر میں منتخب اسمبلی نہیں ہوا کرتی تھی تو وزارت امور کشمیر کے جوائینٹ سیکریٹری آزادکشمیر کے صدر کا تقرر کرتے تھے۔ بھلا ہو کے ایچ خورشید کا جنہوں نے 1961 میں جمہوری دور کا آغاز کیا اور آزادجموں کے باشندوں کو اپنی قیادت خود منتخب کرنے کا حق دیا۔ قبل ازیں وزارت امور کشمیر اپنے من پسند لوگوں کو آزادکشمیر کی کرسی صدارت پر فائیز کرتی تھی۔ 1947 میں آزادکشمیر کے قیام کے بعد سردار محمد ابراہیم کو صدر ریاست بنایا گیا لیکن 1950 میں انہیں اتار کر کرنل علی احمد شاہ کو صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ اگلے ہی سال انہیں ہٹا کر میر واعظ محمد یوسف شاہ کو آزادکشمیر کا صدر بنا دیا گیا۔ان کے بعد راجہ محمد حیدر پھر کرنل شیر احمد خان ان کے بعد دوبارہ میر واعظ محمد یوسف ان کے بعد سردار عبدالقیوم خان ان کے بعد پھر دوبارہ سرادر ابراہیم کو اور 1959 کو جناب کے ایچ خورشید کو وزارت امور کشمیر نے صدارت کی کرسی پر بٹھایا تھا جو بعد ازاں 1961میں پہلے منتخب صدر بنے۔
آزادکشمیر میں جمہوری عمل جاری ہونا چاہیے لیکن وہاں کی حکومت کو ایک بااختیار حکومت ہونا چاہیے جو آزدی کے بیس کیمپ کا کردار ادا کرے۔ وہاں کے الیکشن کمشن اور ادروں کو باختیار ہونا چاہیے اور سب کو ان کا احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی وہاں سیاسی مداخلت بند ہونی چاہیے اور انہیں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔
“