(Last Updated On: )
کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے
اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں
باہر سارے پیڑ
دریدہ، پیلے، یرقانی پتّوں کے
مَٹ مَیلے ملبوس میں لپٹے، نصف برہنہ
باد ِ خزاں سے الجھ رہے ہیں
حرف حرف پتّوں کا ابجد
پت جھڑ کی بے رحم ہوا کو سونپ رہے ہیں
میں بھی “الف” سے چلتا چلتا
اب “یائے معروف” پہ پاؤں ٹکا کر بیٹھا
ایک قدم، بس ایک قدم، “یائے مجہول” کو دیکھ رہا ہوں
ننگےبُچے ، دیمک چاٹے
عمر رسیدہ پیڑ بھی اپنا ابجد کھو کر
باد خزاں کا زور نہیں سہہ پاتے، گر جاتے ہیں
اکتوبر سے چل کر میں بھی
اپنے ابجد کی قُطبیبنی “یے”کی یخ بستہ چوکھٹ پر
جونہی شکستہ پاؤں رکھوں گا، گر جاؤں گا
اکتوبر ہے
کہرے کی ایک میلی چادر تنی ہوئی ہے۔!
****
ڈاکٹر ستیہ پال آنند