یہی ظالم مہینہ تھا یہی راتیں اور دن
جب سانس کی ڈوری مدھم ہوتی گٸ
وہ جو میری ہم راز دم ساز
میرے دکھ میرے سکھ سب اک آہٹ سے جان لیتی تھی
اب مہمان ٹہری چند دنوں کی ،لمحوں کی
وہ جسے میں ہزار کوشش کے باوجود کوئی
سکھ نہ دے سکی
میرا ہونا جس کی زندگی کی اذیت ٹہرا
وہ جو مجھے دیکھتی
ھی اور مسکراتی تھی اپنے ہاتھوں
سے نوالے کھلاتی تھی
سب کی سنتی تھی مگر
میری ضد نبھاتی تھی
میرے آرام کی خاطر خود کو تھکاتی تھی
کبھی سوچا نہ تھا ایسے وہ مجھ سے بے وفاٸ کرۓ گی
دنیا کے اندھیرے غار میں
میٹھی بولی والے اغیار میں
اکیلے چھوڑ کر نجانے کون سے دیس چھپ
جاۓ گی
جہاں میری
آواز کوٸ آہ و کراہ اس تک نہ پہنچ پاۓ
اس کا بستر گرم رکھنے کو میں کیا کیا جتن کرتی تھی
مگر نومبر کی سرد رات میں ٹھنڈی زمین کے سپرد کیے بھی نجانے کتنے
سال بیت گۓ
اس رات لگتا تھا نہ اب کوٸ دن
اور کوٸ سال ہے باقی
زندگی اسی کے ساتھ تھی
اب خاک ہے باقی
مگر میں کتنی ڈھیٹ ہوں
جیے جا رہی ہوں جیے جارہی ہوں
کبھی زندہ رہنے کا کوٸ جھوٹا جواز
مل جاتا ہے اور کبھی کوٸ دوسرا آسرا
نجانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا
تیرے ہاتھوں کا لمس بھی اب تو یاد نہیں
تیرا ناراض ہو کر خاموش بیٹھ جانا بھی یاد نہیں
بس اب تو کچھ بھی یاد نہیں
وہ گلی وہ گھر وہ لمحہ کچھ بھی تو یاد نہیں