اپنے گھر کا ہو پالتو کتا
یا کہ آوارہ فالتو کتا
چاہے جیسا بھی ہم اسے سمجھیں
اور حقارت سے اس کو جو کہہ دیں
پھر بھی اس میں ہے کچھ نہ کچھ خوبی
اس کے اندر ہے شان محبوبی
اس کے اندر صفت قناعت کی
قوت صبر بھی قیامت کی
کچھ نہ پائے تو بھوکا رہ جائے
جو مصیبت بھی آۓ سہ جاۓ
سیکھیں کتوں سے ہم وفاداری
وہ نبھاتا ہے کس طرح یاری
اپنے مالک کو وہ دغا دیدے
یہ نہ ہوگا کبھی بھی کتے سے
نیک لوگوں کی ہیں صفات اس میں
قابل ذکر کچھ ہے بات اس میں
دم ہلاۓ وہ آگے محسن کے
اور چمٹ جاۓ اس کی چوکھٹ سے
اس کا مالک اگر بھگا بھی دے
اپنے در سے اسے اٹھا بھی دے
تو بھی اس در کو وہ نہ چھوڑے گا
اس کی چوکھٹ سے منہ نہ موڑے گا
اپنے محسن کو یاد کرتا ہے
دم ہلاکر سلامی دیتا ہے
اپنے وہ مرتبے سے واقف ہے
بے وفائی سے رہتا خائف ہے
اس کا مالک جو کھانا کھاتا ہو
کھاتے کھاتے ہی مسکراتا ہو
دور سے بیٹھ کر ہی دیکھے گا
اپنی حد سے نہ آگے جاۓ گا
رات کو کم بہت ہی سوتا ہے
اور جو سوتے ہیں اس پہ روتا ہے
“