ازمریلڈا ، کوزیٹ اور صبح ِنو
(فرانسیسی ادیب و شاعر وکٹر ہیوگو پر ایک نوٹ )
پہیہ کس نے ایجاد کیا تھا ، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کمہار کے چاک سے جڑا ہے جس کا استعمال بعد میں گھوڑے ، بیل اور اسی طرح کے باربرداری کرنے والے جانور پالتو کئے جانے پر چھکڑے میں استعمال ہوا ہو گا ۔ آثار قدیمہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسا پتھر کے زمانے ( لگ بھگ دس ہزار تا چار ہزار سال قبل از مسیح ) کے آخری حصے میں ہوا تھا ۔ تب سے اٹھارویں صدی بعد از مسیح تک انسان پہیے کا محدود استعمال کرتا رہا ۔ پانی کی طاقت اور پہیے کو ملا کر استعمال کرنا اس نے ارتقائی طور پر سیکھا تھا جس نے اسی صدی میں اُس انقلاب کی بنیاد رکھی جسے دنیا ’ صنعتی انقلاب ‘ کے نام سے جانتی ہے ۔ اس صنعتی انقلاب نے جہاں یورپ میں سماجی ، معاشی اور سیاسی تبدیلیوں پیدا کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کو جنم دیا وہاں نئے فلسفے اور منطق کو نئے زاویے دینے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ پر بھی اثر ڈالا۔ فرانسیسی والتیئر( نومبر 1694ء تا مئی 1778ء ) ، جرمن ہیگل (اگست 1770 ء تا نومبر 1831ء ) ، ہرڈر ( اگست 1744ء تا دسمبر 1803ء ) ، سکاٹش تھامس کارلائل ( دسمبر 1795ء تا فروری 1881ء) اوربرطانوی ہربرٹ سپینسر ( اپریل 1820ء تا 1903ء ) جیسے فلسفی سامنے آئے ۔ ان کی منطق میں ایک طرف ہیگیلی سوچ تھی ؛ انسان اپنے وقت کا قیدی ہے اور اُس مخصوص وقت کی روح ہی اُس کی روح ہوتی ہے ، تو دوسری طرف کارلائل کا کہنا تھا ؛ انسانی تاریخ ذہین لوگ اور ہیرو مرتب کرتے ہیں ۔
صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لیتے سرمایہ داری نظام میں جہاں کارل مارکس (مئی 18188ء تا مارچ 1883ء ) ، سورن کیرکیگارڈ (مئی 1813ء تا نومبر 1855ء ) نطشے ( اکتوبر 1844ء تا اگست 1900ء ) ، ہوسرل (اپریل 1859ء تا اپریل 1938ء ) اور سگمنڈ فرائڈ (مئی 1856ء تا ستمبر 1939ء ) جیسے فلسفی و دانشورسامنے آئے وہیں فنون لطیفہ کے تناظر میں ’ رومان پسندی‘ کی تحریک نے بھی جنم لیا ۔ اس تحریک کے وجود میں آنے کے دیگر عوامل میں ’ فرانسیسی انقلاب‘ ، جرمن ’ Sturm und Drang‘ تحریک کا بھی عمل دخل تھا ۔ ’ رومان پسندی‘ کا آغاز اٹھارویں صدی کی آخری دہائیوں میں شروع ہوئی تھی اور انیسویں صدی کے وسط تک عروج پر رہی ۔ یہ اشرافیہ کے ان سماجی و سیاسی معیاروں کی مظہر تھی جس کی حفاظت اور پاسداری کرنا اس نے اپنا فرض سمجھا تھا ۔ اس تحریک کا بنیادی زور سماج میں ’ فرد‘ کے جذبات تھے جو اس تحریک کے آگوﺅں نے ’ جمالیات ‘ کا اصل اور مصدقہ ذریعہ قرار دئیے تھے ۔ اس تحریک نے ’ فکر مندی‘ ، ’ ڈر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف ‘ اور ’خوف بھرے تحیر‘ کو نئے معانی بھی دئیے ۔ اس نے لوک فنون کو شاندار ٹہرایا ، کلاسیکی منطقیت کے مقابلے میں قرون وسطیٰ کی نشاالتنثانیہ پر زور دیا ۔ یہ ایک طرح کا صنعتی انقلاب اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے فرار تھا ۔ اس تحریک میں شامل لوگ اس بات سے بے بہرہ تھے ، کہ وہ ’ حقیقت پسندی‘ اور ’ قوم پرستی ‘ کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں ویسے ہی جس طرح ہیگل اس بات سے بے بہرہ تھا کہ مارکس اس کے فلسفے سے آگے بڑھ کر جدلیاتی مادیت کی اس طرح بات کرے گا کہ مارکسزم دنیا میں ایک نئے اور بڑے انقلاب کو جنم دے ڈالے گا ۔
ابتدائی ’ رومان پسندی‘ کے دور میں برطانیہ میں جین آسٹن ( دسمبر1775ء تا جولائی 18177ء ) ، ولیم بلیک ( نومبر 1757ء تا اگست 1827ء ) ، برونٹے سسٹرز ( 1816ء تا 1855ء) اور لارڈ بائرن (جنوری 1788ء تا اپریل 1824ء ) ، روس میں پشکن ( جون 1799ء تا فروری 1837 ء ) ، گوگول (مارچ 1809ء تا مارچ 1862 ء ) ، امریکہ میں ایڈگر ایلن پو ( جنوری 1809ء تا اکتوبر 1849 ء) مشہور تھے جبکہ فرانس میں الیکساندر ڈوماز( جولائی 1802ء تا دسمبر 1870ء ) بھی اہم تھا ۔ اسی زمانے میں فرانسیسی ادب میں ایک اور نام اہمیت کے ساتھ ابھرا ۔ یہ وکٹر میری ہیوگو (Victor Marie Hugo ) تھا ۔
وکٹر ہیوگو 26 فروری 1802ء کو مشرقی فرانس کے شہر بیسنکون (Besançonn) میں پیدا ہوا ۔ اس کی پیدائش سے پہلے 1789ء میں انقلاب فرانس کا آغاز ہو چکا تھا ۔ ملک خانہ جنگی کا شکار تو ہوا ہی تھا اس پر یورپ کی دیگر بادشاہتیں بھی ’ لوئی دہ ہشتم ‘ کی بادشاہت کو بچانے کے لئے پیرس پر چڑھ دوڑی تھیں ۔ اگست 1792ء میں’ لوئی ہش دہ ‘ کی بادشاہت کو معطل کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا تھا ، ایک ماہ بعد پہلی ’ فرانسیسی ری ۔پبلک ‘ قائم ہوئی اور 21 جنوری 1793 کو ’ لوئی ہش دہ ‘ کا سر قلم کر دیا گیا ۔ اگلے دس سال کے اس دور پُر آشوب نے جاگیرداری اور بادشاہت کا تو خاتمہ کر دیا تھا لیکن نپولین 1799ء میں سازش کرکے ری پبلک کا سربراہ بن چکا تھا ۔ وکٹر کا باپ نپولین کا جرنیل تھا اور ایک ایسا آزاد خیال ری۔پبلکن تھا جو نپولین کو ہیرو سمجھتا تھا گو اس کا فوجی کیرئیر سپین میں بطور ایک ناکام گورنر رہنے کے بعد ختم ہو گیا تھا ۔ اس کی ماں کٹر کیتھولک اور شاہ پرست تھی ۔ ہیوگو کی پیدائش کے وقت بھی فرانس سیاسی افراتفری کا شکار تھا ۔ وکٹر ابھی پالنے میں ہی تھا کہ اس کی ماں نے عارضی طور پر اپنے خاوند سے علیحدٰگی اختیار کی اور پیرس میں ہی رہنے لگی ۔ ایسے میں اس کا معاشقہ جنرل وکٹر لوہاری کے ساتھ بھی رہا جو کیتھولک رسم کے تحت وکٹر ہیوگو کا ’ گاڈ فادر ‘ بھی تھا ۔ وہ 1801 ء میں نپولین سے غداری کا مرتکب ہوا تھا اور وکٹر ہیوگو کے والد جوزف کی جاگیرمیں چھپا رہنے کے بعد فرانس چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔ بعد ازاں وہ 1808 ء میں فرانس واپسی پر گرفتار ہوا ۔ 1812ء میں نپولین کے خلاف ایک اور بغاوت ہوئی جس میں باغیوں نے اسے رہا تو کر دیا لیکن بغاوت کی ناکامی کے بعد اس کو نپولین کے حامیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔
وکٹر ہیوگو دو سال کا تھا کہ نپولین بوناپارٹ نے14 مئی 18044ء کو فرانسیسی سینٹ سے خود کو فرانس کاشہنشاہ بنوا لیا اوراسی برس 2 دسمبر کو ناٹراڈیم کے گرجے میں تاج پوشی بھی کروا لی ۔ ’شہنشاہ‘ کا لفظ ان معانوں میں برتا گیا تھا کہ وہ فرانسیسی لوگوں کا حکمران تھا نہ کہ مملکت فرانس کا جسے اس سے پہلے بادشاہ اپنی ملکیت سمجھتے تھے ۔ نپولین نے فرانس کو مملکت کی بجائے ’ سلطنت‘ کا نام بھی دیا ۔ نپولین بوناپارٹ دس سال ہی ’ شہنشاہ ‘ رہ سکا کیونکہ مارچ 1813ء میں ’ چھٹے اتحاد کی جنگ ‘ شروع ہو گئی تھی ۔ پورپی بادشاہتوں کے اس چھٹے اتحاد نے اگلے برس کے آغاز میں ہی نپولین کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے پیرس پر بھی قبضہ کر لیا اور نپولین کو اقتدار چھوڑنے اور ’ ایلبا‘ میں جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا تھا اور ’ بوربن بادشاہت ‘ بحال کر دی تھی ۔ وکٹر اس وقت ابھی بارہ برس کا تھا ۔ بلوغت کے اسی دور میں اس نے نپولین کی خود کشی کرنے کی کوشش کی خبر بھی سنی ہو گی ۔ نپولین کی پیرس واپسی اور اس کی سو روزہ شہنشاہیت کا دور دیکھنے کے ساتھ ساتھ واٹرلو میں اس کی شکست اور سینٹ ہیلنا میں جلا وطنی اور مئی 1821ء میں اس کی موت کی خبر سے بھی آشنا ہوا ہو گا ۔
نوجوانی کے اسی زمانے میں اسے اپنی بچپن کی ساتھی ’ ایڈلی فوچر‘ سے محبت بھی ہوئی ۔ ’ ایڈلی ‘ اس کی ماں’ صوفی‘ کو پسند نہ تھی ۔ وہ خاندانی اعتبار سے ’ صوفی‘ کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی ۔ وکٹر ہیوگو کو اپنی ماں سے بہت محبت تھی اس لئے اس نے ایڈلی سے اپنا تعلق ماں کے مرنے تک چھپائے رکھا اور جب اس کی ماں 1821 ء میں فوت ہو گئی تو اس نے 1822 ء میں ایڈلی سے شادی کر لی ۔
اس کی والدہ گو اپنے خاوند کے ساتھ ہر اس جگہ پر گئی جہاں اس کی تعیناتی رہی لیکن بنیادی طور پر وہ پیرس میں ہی رہائش پذیر رہی اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کیتھولک اور شاہ پرستی کے اصولوں کی بنیاد پر کرتی رہی تھی ۔ اوائل عمری کے یہ سفر ، بعد ازاں، وکٹر کی نظری بصیرت کے لئے خاصے اہم ثابت ہوئے ۔
اس نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا جس کی بنیادی محرک ایڈلی سے محبت تھی ۔ اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ Odes et poésies diverses ) 1822 ) میں شائع ہوا ۔ اس کی شاعری اپنے پختہ و فصیح رومانی و جذباتی اظہار کی وجہ سے بہت پسند کی گئی یہاں تک کہ ’ لوئی دہ ہفتم‘ سے اسے وظیفہ ملنے لگا ۔ اس مجموعے کی کئی نظمیں ’ Journal des débats‘ میں پہلے شائع ہو چکی تھیں ۔ اگلے برس ہی اس کا پہلا ناول ’ Han d'Islande‘ سامنے آیا ۔ یہ سکینڈینیوین بادشاہت کے ایک بیرن ’ اورڈینر‘ کے بیٹے اور ایک سابقہ وزیر کی بیٹی کی محبت کی داستان ہے۔ 1826ء میں اس کی شاعری کے دوسرے مجموعے ’ Odes et Ballades‘ نے اس کو بطور ایک اہم شاعراورگیت نگار مشہور کر دیا ۔ اسی برس اس کا دوسرا ناول ’ Bug-Jargal‘ بھی شائع ہوا ۔ یہ اس کی اسی نام کی ایک کہانی کی طویل شکل تھی جو پہلے اس کے بھائی کے رسالے ’ Le Conservateur littéraire‘ میں 1820 ء میں شائع ہو چکی تھی۔ ہیتین انقلاب (Haitian Revolution ،1791ء تا 1804ء ) کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول ایک امیر جاگیر دار کے بھتیجے ، اس کی منگیتر اوراس کے ایک غلام کی تکون پر آگے بڑھتا ہے جس میں غلام اس فرانسیسی جوڑے کو بچانے کی خاطر اپنی جان سے گزر جاتا ہے ۔ 1829ء میں اس کا ناول ’ Le Dernier jour d'un condamné‘ (موت کے سزا یافتہ آدمی کا آخری دن) سامنے آیا ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ایک ایسے آدمی کے احساسات اور جذبات پر مبنی کہانی ہے جسے موت کی سزا ہو چکی ہے ۔ اس کی زندگی کے آخری دن پر مبنی اس مختصر ناول میں وکٹر ہیوگو کا سماجی شعور ایک نیا رخ اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے جس میں وہ ’ سزائے موت‘ کی کھل کر مخالفت کرتا نظر آتا ہے ۔ اس سے قبل1827 ء میں اس کے ڈرامے ’ Cromwell‘ نے فرانسیسی’ رومانیت پسندی‘ کی تحریک میں اسے صف اول میں لا کھڑا کیا تھا جبکہ اس کے 1830 ء کے ڈرامے ’ Hernani‘ نے اس کا یہ مقام مزید مستحکم کر دیا تھا۔ اگلا سال اس کے ناول ’ Notre-Dame de Paris‘ کا تھا جس نے فرانس کے علاوہ یورپ کے دیگر قارئین کو بھی متوجہ کیا اور اسے انگریزی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ۔ اس ناول کا مرکزی خیال ناٹراڈیم کا گرجا ہے جو قرون وسطیٰ کے اوآخر میں ’لوئی اول دہ‘ کے زمانے میں دکھایا گیا ہے ۔ جب وکٹر نے یہ ناول 1829 ء میں لکھنا شروع کیا تھا تو اس کے سامنے ایک مقصد تھا کہ گوتھک فن تعمیرکی شاہکار عمارتوں کو نہ صرف بچایا جائے بلکہ ان کی اصل ہیت کو بھی برقرار رکھا جائے ۔ اسے اس بات کی تحریک یوں ہوئی تھی کہ فرانسیسی سرکار نے اس گرجے کے’ گوتھک سٹین گلاس‘ کے کئی پینل ٹوٹنے پر عام سادہ شیشے کے پینل لگا کر اس کے اصلی حسن کو زائل کر دیا تھا اور یہ گرجا گھر دن بدن کھنڈر ہوتا جا رہا تھا ۔ وہ اس سے قبل اس موضوع پر ایک مضمون ’ Guerre aux Démolisseurs ‘ لکھ چکا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ پیرس میں موجود قرون وسطیٰ کی عمارات کو محفوظ کیا جائے تاکہ یہ تاریخی ورثہ آنے والی نسلوں کے لئے زندہ رہ سکے ۔ بظاہر یہ ناول ایک حسین خانہ بدوش لڑکی ’ ازمریلڈا ‘ کی کہانی ہے جس پرکئی مرد مرتے ہیں ، ان میں کیپٹن فوبس ، پیری گرنگوری ، گرجے کا پادری کلاڈ فرولو اور گرجے کا گھنٹہ بجانے والا نیم اندھا اوربولنے کی صلاحیت سے تقریباً محروم کبڑا ، جسے گرجے کے گھنٹے کی آواز نے بہرہ بھی کر رکھا ہے، کوزیموڈو بھی شامل ہیں ۔ کلاڈ فرولو کے کہنے پر کوزیموڈو ’ازمریلڈا‘ کو اغوا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن فوبس اور اس کا دستہ اس اغوا کو ناکام بنا دیتا ہے ۔ کوزیموڈو کو کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے جس کے دوران اس کے پانی مانگنے پر ’ ازمریلڈا‘ اسے پانی پلاتی ہے یوں کوزیموڈو اس کا عاشق ہو جاتا ہے ۔ بعد ازاں’ ازمریلڈا‘ فوبس کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوتی ہے اور اسے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔ فوبس کو قتل کرنے کی کوشش ’ ازمریلڈا‘ نہیں کرتی بلکہ یہ حرکت بھی حسد میں آ کر کلاڈ فرولو ہی کرتا ہے کہ’ ازمریلڈا ‘ فوبس سے التفات کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جب ازمریلڈا کو پھانسی گھر کی طرف لے جایا جا رہا ہوتا ہے تو کوزیموڈو اسے سپاہیوں سے اچک لیتا ہے اور گرجا گھر میں لے جاتا ہے ۔ یوں ازمریلڈا وقتی طور پر خدا کے گھر میں پناہ گیر ہو جاتی ہے ۔ پادری کلاڈ فرولو اس پر پارلیمان سے یہ فیصلہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ ازمریلڈا کو خدا کے گھر میں پناہ لینے کا حق نہیں ہے ۔ خانہ بدوشوں کا سردار پیرس کے عام باسیوں کی مدد سے گرجے پر ہلہ بولتا ہے تاکہ ازمریلڈا کو بچا سکے ۔ کوزیموڈو اس کو ازمریلڈا کی جان کے لئے خطرہ گردانتا ہے اور سردار کے حملے کو پسپا کر دیتا ہے ۔ پادری کلاڈ فرولو ایک بار پھر ازمریلڈا کو اپنے چنگل میں پھنسانا چاہتا ہے لیکن ناکامی پر اسے شاہی سپاہیوں کے حوالے کر دیتا ہے جو اسے پھانسی چڑھا دیتے ہیں ۔ اس پر کوزیموڈو اپنے مالک پادری کو گرجا گھر کی چھت سے نیچے پھینک دیتا ہے اور قبرستان جا کرازمریلڈا کی لاش کے ساتھ لیٹ جاتا ہے اور بالآخر بھوک پیاس کے ہاتھوں وہیں دم دے دیتا ہے ۔ اس رومان کو بیان کرتے ہوئے وکٹر درحقیقت ایک طرف تو قدیم عمارتوں کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے تو دوسری طرف پہلی بار فکشن میں ایک ایسا ماحول دکھا رہا ہے جس میں ایک معاشرے کی پوری زندگی کا احاطہ ہوتا نظر آتا ہے ۔ فرانس کے بادشاہ سے لے کر ، کلیسا اور اس کے نگہبان ، بھکاری ، ان کے رہائشی علاقے اور پیرس کے نکاسی آب کے نظام میں پھرتے چوہوں تک ، سب اس ناول میں موجود ہیں ۔ اس ناول میں ایسے اشارے و کنائیے بھی موجود ہیں جو وکٹر ہیوگو کے صنعتی دور مخالف خیالات کے بھی مظہر ہیں جیسے وہ پرنٹنگ پریس کو ’ جرمن طاعون کا نام دیتا ہے ۔ پانچ سال بعد وکٹر نے اپنے اس ناول کوچار ایکٹ کے اوپیرا ’ لا ازمریلڈا‘ کے غنائی متن میں بھی ڈھالا جسے شاعرہ و موسیقارہ ’ لوئی برٹن‘ نے نومبر 1836ء میں سٹیج پر پیش کیا تھا ۔
1840ء تک وکٹر ہیوگو کی شاعری کے مزید پانچ مجموعے شائع ہوئے اور وہ اپنے ناول ’ Les Misérables ‘ پر بھی کام کرتا رہا ۔ اسے یہ ناول مکمل کرنے میں17 سال لگے ۔ اس دوران اس کے کئی ڈرامے، افسانے، مضامین اور شاعری کے مجموعے شائع ہوتے رہے ۔ جن میں سے چند کے نام یہ ہیں؛ ’ Angelo, Tyrant of Padua‘ ، ’ Les Burgraves‘ اور ’ Ruy Blas‘ ۔ اس کے افسانوں میں’ Claude Gueux‘ اس لئے قابل ذکر ہے کہ اس کا شمار اولین ’ کرائم فکشن‘ میں ہوتا ہے ۔ یہ کلاڈ نامی ایک غریب بھوکے اور ان پڑھ کی کہانی ہے جو اپنی عورت اور اس سے اپنے بچے کی خاطر روٹی اور بالن چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے ۔ اسے پانچ سال کی سزائے قید ہو جاتی ہے ۔ جیل میں وہ اس کے ظالم ڈائریکٹر کو قتل کر دیتا ہے اورقینچی کی مدد سے خودکشی کی کوشش میں ناکام رہتا ہے ۔ اسے موت کی سزا سنائی جاتی ہے ۔ ساتھی قیدی اسے بھاگنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھاگنے سے انکار کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی موت کی سزا کے خلاف اپیل بھی نہیں کرنا چاہتا اور سر قلم کروا لیتا ہے۔ اس کے مضامین میں ’Napoléon le Petit‘ (ادنیٰ نپولین) اہم ہے جو اس نے جلاوطنی کے زمانے میں ، 1852 ء میں نپولین سوم کے دور اقتدار پر اس کی مذمت میں لکھا تھا اور پہلی بار ادب میں’ دو + دو= پانچ‘ کوحق رائے دہی کے تناظر میں پیش کیا تھا جسے بعد میں روسی ادیب دوستوفسکی اور برطانوی ادیب جارج اورویل نے بھی برتا تھا ۔ نپولین سوم کے خلاف لکھا اس کا مضمون ’ Histoire d'un crime‘ ( جرم کی تاریخ ) بھی اہم ہے جو نپولین سوم کے اقتدار فرانس پر قبضے کے موضوع پر ہے۔ اس کی’ William Shakespeare ‘ نامی نان فکشن کتاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ ہومر سے لے کر شیکسپئیر تک لکھاریوں کا احوال ہے۔ لوئی فلیپی اول کے زمانے (1830ء تا 1848ء ) میں وکٹر ہیوگو کھل کر سزائے موت کی مخالفت کرتا رہا اور سماجی ناانصافی کے خلاف بھی بولتا رہا ۔ 1848ء میں وہ قدامت پرستوں کی طرف سے پارلیمان کا رکن منتخب ہوا لیکن جب اس نے غربت اور عوام کی ناگفتہ بہ حالت پر تقاریر کرنا شروع کیں تو قدامت پرستوں سے اس کا تعلق ٹوٹ گیا ۔ فروری 1848 ء کی سیاسی افراتفری کے بعد جب ’ دوسری ری پبلک‘ قائم ہوئی اور نپولین سوم نے 1851 ء میں اقتدار فرانس پر مکمل غلبہ پا لیا تو اس نے وکٹر ہیوگو کو غدار قرار دے دیا ۔ یوں اسے اگلے سترہ سال جلاوطنی میں گزارنے پڑے جس میں سے پندرہ سال وہ سینٹ پیٹر پورٹ ، جزیرہ ’گورنسے ‘ (Guernsey) میں رہا ۔ جلا وطنی کے اسی عرصے میں اس کی شاعری کے تین اہم مجموعے ’ Les Châtiments‘ ، ’ Les Contemplations‘ اور ’ La Légende des siècles‘ بھی سامنے آئے ۔ ’ Les Misérables‘ بھی اسی جلاوطنی میں مکمل ہوا اور بیلجیئم سے1862ء میں شائع ہوا ۔ یہ ناول 1815ء تا 1832ء کے زمانے کا احاطہ کرتا ہے اور ’ جون بغاوت ‘ کے دوران پیرس میں اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ ویسے تو اس میں کئی کردار ہیں جن کی زندگی کا تال میل اس ناول میں موجود ہے لیکن سب سے اہم کردارایک سابق سزا یافتہ’ ژاں ولژاں ‘ کا ہے ۔ ناول اس کے ان تجربات کی داستان سناتا ہے جس میں سے وہ اپنی عزت و وقار کی بحالی کے لئے گزرتا ہے اور بالآخر جان سے گزر جاتا ہے ۔ یہ ایک محنت کش فینٹین ،جو غربت کی وجہ سے جسم بیچنے پر بھی مجبور ہے ، کی بیٹی ’ کوزٹ ‘ اور انقلابی ’ ماریس ‘ کی محبت کی داستان بھی ہے۔ وکٹر یہ سب بیان کرتے ہوئے فرانس کی تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے پیرس کے شہری ڈیزائن ، فن معماری اور سیاست کو زیر بیان لاتے ہوئے اخلاقی فلسفے ، بادشاہت مخالف رجحانات ، انصاف اور مذہب پر بات کرتا نسوانی محبت کی اقسام اور رومانیت کو بھی موضوع بناتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خانقاہی سلسلہ جات ، پیرس کا سیور سسٹم ، اس کی گلیوں میں آوارہ پھرنے والے بچے اور معاشرے کی مختلف پرتوں اور گروہوں میں بولی جانے والی خفیہ زبانیں بھی اس ناول کے موضوعات میں شامل ہیں ۔ یہ ستائس سو سے زائد صفحات کا ایک ضغیم ناول ہے جس کو پانچ جلدوں ’ Fantine‘ ، ’ Cosette‘ ، ’ Marius‘ ، ’ The Idyll in the Rue Plumet and the Epic in the Rue St. Denis‘ اور’ Jean Valjean‘ میں منقسم کیا گیا ہے جو آگے 48 کتابوں اور 365 ابواب پرمشتمل ہے ۔ شروع کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ پلاٹ یا ذیلی پلاٹوں سے خالی ہے اور اخلاقیات پر مضمونی شکل رکھتا ہے ۔ اسی طرح ناول کی دوسری جلد کے ابتدائی کئی باب ’ جنگ واٹر لو‘ کے بیانیے پر مشتمل ہیں ۔ وکٹر نے یہی تکنیک اپنے پہلے ، جیسے’Notre-Dame de Paris‘ اور بعد کے ناولوں ، جیسے ’ Les Travailleurs de la Mer‘ میں بھی برتی ہے ۔ وکٹر نے اس ناول میں ’راوی‘ کو بھی مبہم رکھا ہے اور قاری کو سوچنا پڑتا ہے کہ بیان کرنے والا کون ہے ۔ بیانیے کے اعتبار سے یہ ایک پیچیدہ ناول ہے ۔وکٹر کو اس پیچیدگی کا خود بھی اندازہ تھا اسی لئے وہ ناول کے اختتام پر لکھتاہے ؛
”۔ ۔ ۔ یہ کتاب جو اس لمحے ، اپنی پوری طوالت اور تفصیل کے ساتھ ، قاری کے سامنے ہے ۔ ۔ ۔ بدی سے اچھائی کی طرف آگے بڑھتی ہے ، نا انصافی سے انصاف تک ، جھوٹ سے سچ تک ، رات کی سیاہی سے دن کے اجالے تک ، آرزو سے شعور تک ، بدعنوانی سے زندگی تک ؛ فرعونیت سے فرض تک ، جہنم سے جنت تک ، نیست سے ہیست تک ، جس کا آغاز مادیت اور منزل یعنی روح ہے ۔ جس کے آغاز میں مصبت زدگی ہے اور اختتام پر فرشتگی ۔ ۔ ۔ ۔“
وہ یہ بھی کہتا ہے؛
” ۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے ہر کوئی پڑھے گا لیکن یہ سب کے لئے ہے ۔ یہ برطانیہ ، سپین ، اٹلی ، فرانس، جرمنی اور آئر لینڈ اور ان سب مملکتوں سے مخاطب ہے جو غلامی کو پروان چڑھاتی ہیں ، ایسی بادشاہتوں کو مضبوط کرتی ہیں جہاں محنت کش آبادی جاگیر داروں کی اطاعت پر مجبور ہوتی ہے، جہاں سماجی مسائل حدوں سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ جب جب انسان جہالت اور نا امیدی میں گھرتا ہے ، عورتیں پیٹ کی خاطرخود کو بیچتی ہیں ، بچوں کو سیکھنے کے لئے کتاب میسر نہیں آتی اور آتش دان انہیں گرمائش نہیں پہنچا پاتا ، ایسے میں یہ ناول دروازے پہ دستک دیتا ہے اور کہتا ہے؛ کھولو ، میں یہاں موجود ہوں ۔ ۔ ۔“
میں یہاں اس ناول کا خلاصہ پیش نہیں کروں گا اور چاہوں گا کہ اس مضمون کا قاری اسے خود پڑھے اور اسے اپنے سماج پر منطبق کرکے دیکھے ، پندرہ دہائیوں سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود یہ ناول آج بھی ان سماجوں کا عکاس ہے جن میں آپ اور میں رہ رہے ہیں ۔
اس ناول کو مخاصمانہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ فرانسیسی نقاد’ ہیپولائٹ ٹین‘ (اپریل 18288ء تا مارچ 1893ء) نے اسے ایک غیر مخلص تحریر کہا ۔ ناول و افسانہ نگار ' باربی ڈی اورولی ‘ ( نومبر1808ء تا اپریل 1889ء) نے اسے بیہودہ اور فحش قرار دیا ۔ فطرت پسند گونکورٹ برادران نے اسے مصنوعی کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا ۔ فلوبئیر (دسمبر1821ء تا مئی 1880ء ) نے بھی کچھ ایسا ہی تاثر دیا ؛ نہ یہ سچی داستان ہے اور نہ ہی بڑھیا ۔ شاعر بڈلئیر(اپریل 1821ءتا اگست 1867ء) نے اسے بد مزہ اوربے ڈھب جانا ، البتہ عوام نے اسے خوب پسند کیا اور اس نے فرانس کے ایوانوں میں بھی کھلبلی مچائی ۔
وکٹر ہیوگو کا اگلا ناول ’ Les Travailleurs de la Mer‘ ( سمندری محنت کش) 18666 ءمیں سامنے آیا ۔ یہ’ گورنسے ‘ جزیرے کے ایک محنت کش اور ایک بحری جہاز کے مالک کی بھتیجی کی محبت کی کہانی ہے ۔ جس کے ساتھ وکٹر نے اس جزیرے پر صنعتی انقلاب کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ 1869ء میں منظر عام پر آنے والے ناول ’ L'Homme Qui Rit ‘ ( آدمی جو ہنستا ہے) نے وکٹر کو احساس دلایا کہ اب اس کی تحریریں اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں جبکہ فطرت و حقیقت پسندوں کی تحریریں زیادہ پسند کی جانے لگی ہیں ۔ 1874ء میں اس کا آخری ناول سامنے آیا ۔ یہ ’ Quatre-vingt-treize‘ ( ترانوے ) تھا ۔ یہ انقلاب فرانس کے دوران پھیلی افراتفری اور خوف و ہراس کے موضوع پر تھا ۔ اسے بھی کچھ زیادہ پذیرائی نہ ملی ۔
سیاسی خیالات کے اعتبار سے وکٹر ہیوگو پہلے شاہ پرست تھا لیکن بعد میں آزاد خیال ریپبلکن ہو گیا ۔ وہ سزائے موت کا سخت مخالف تھا ۔ اس کی اس حوالے سے لکھی گئی تحریروں ، اطالوی سیزر بیکاریا (1738ء تا 1794ء) ، چارلس ڈکنز اور کارل مارکس کی تحریروں کا یہ اثر ہوا کہ وینزویلا (1863ء) ، سان ماریا (1865ء) ، پرتگال (1867ء ) سوئیزلینڈ (1874ء) ، اورکوسٹا ریکا (1877ء ) میں اس سزا کو ختم کر دیا گیا ، گو اٹلی ، جرمنی اور برطانیہ اور خود فرانس میں یہ سزا بہت بعد میں ختم ہوئی ۔ وہ فنکاروں کے حقوق کا داعی بھی تھا جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ ’ Association Littéraire et Artistique Internationale‘ کے بانی ارکان میں شامل تھا ۔ مذہبی طور پر پہلے وہ اپنی ماں کے اثر تلے عبادت گزار کیتھولک تھا اور کلیسا کی درجہ بندی اور اختیار کا آدر کرتا تھا ۔ پھر وہ کیتھولک تو رہا لیکن عبادت سے گریز کرنے لگا اور گرجا جانا بند کر دیا ۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے خیالات مزید بدلے اور وہ کیتھولک چرچ کا مخالف ہو گیا ۔ جلاوطنی کے زمانے میں وہ روحانیت پرست ہوا لیکن بعد میں اس نے آزاد خیالی اورمنطق پسندی پر ہی قناعت کی اوروہ مرتے دم تک کچھ ایسا ہی رہا ۔ اس کی تحریروں میں اس کے اس ذہنی بدلاﺅ کے ارتقاء کو واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
وکٹر ہیوگو جب جلا وطنی کے بعد پیرس میں واپس آیا تو اس کی عمر 688 برس تھی ۔ رومان پسندی کی تحریک روبہ زوال تھی اوربلزاک اور فلوبئیر جیسے فطرت اور حقیقت پسند ادب میں آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس کی اپنی صحت بھی گر رہی تھی ، اس پر فالج کا ایک ہلکا حملہ بھی ہو چکا تھا ۔ وہی وکٹر جس کا استقبال واپسی پر بطور ایک ہیرو کیا گیا تھا ، 1872 ء کا پارلیمانی انتخاب ہار گیا ۔ اس کی بیوی 1868ء میں ہی فوت ہو چکی تھی ۔ اسے تین دکھ اور بھی سہنے پڑے ۔ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی ایڈلی جو نوجوانی میں ہی ذہنی مریضہ ہو گئی تھی ، کو دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا ۔ اسے اپنے دو بیٹوں کی موت کا صدمہ بھی سہنا پڑا ؛ چارلس مارچ 1871ء میں 44 سال کی عمر میں فوت ہوا تھا جبکہ فرانکوئیس 45 برس کی عمر میں 1873 ء میں چل بسا تھا ۔ جنوری 1876ء میں وہ سینٹ کا ممبر منتخب تو کیا گیا لیکن اپنی آزاد خیالی اور منطق پسندی کی وجہ سے کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا کیونکہ سینٹ میں قدامت پسندوں کی اکثریت تھی ۔ جون 1878ء میں وکٹر پر فالج کا ایک اور حملہ ہوا ۔ مئی 1883ء میں اس کی داشتہ ’ جولیٹ ڈروئٹ ‘ بھی فوت ہو گئی ۔ جولیٹ ایک اداکارہ تھی اور وکٹر سے اس کا رشتہ 1830 کی دیائی کے آغازمیں قائم ہوا تھا اور وہ مرتے دم تک اس کے لئے سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیتی رہی تھی ۔ وہ وکٹر کے دوروں میں بھی اس کی ہم سفر رہی تھی اور جلا وطنی کے زمانے میں بھی اس کے ساتھ رہی تھی ۔ اس کی زندگی میں جولیٹ کے علاوہ بھی عورتیں موجود رہیں جن میں ’لیونی بیارڈ‘ اور ’ ایلس اوزی‘ نمایاں ہیں ۔ وکٹر کا ایک سوانح نگار ’ گراہم روب‘ اپنی کتاب ’ Victor Hugo: a Biography ' میں لکھتا ہے؛ مختلف عورتوں کے ساتھ’ اختلاط‘ اس کے لئے غورو فکر کا ایک ذریعہ تھا ۔
ادب کے علاوہ وکٹر شوقیہ طور پر مصوری بھی کرتا تھا لیکن اس کی مصوری کاغذوں اور گتے کے چھوٹے ٹکڑوں پر گہری بھوری یا کالی سیاہی سے بنائی ڈرائنگوں پر ہی مشتمل ہوتی تھی ۔ اس شوق کااستعمال اس نے 1848ء سے 1851ء کے دوران سب سے زیادہ کیا تھا ۔ اس نے چار ہزار سے زائد خاکے بنائے لیکن ان کو عوام کے سامنے اس لئے پیش نہیں کیا کہ کہیں یہ اس کے ادبی کام پر سایہ نہ ڈال سکیں ۔ وہ انہیں صرف دوستوں اور خاندان کے لوگوں کو ہی دکھاتا یا تحفتاً دیتا تھا ۔ اس کی مصوری پر آرٹ کے نقادوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اسے بطور ’ پیشہ‘ اختیار کرتا تو اپنے کئی ہم عصر مصوروں کو پیچھے چھوڑ دیتا ۔
وکٹر ہیوگو نے 26 فروری 1885ء کو اپنی زندگی کے 844 ویں برس میں قدم رکھا تو اس صحت بہت خراب تھی اور وہ نمونیہ کا شکار تھا ۔ یہی نمونیہ اس کی موت کا سبب بنا ۔ وہ 22 مئی کو پیرس میں فوت ہوا ۔ یہاں اس کی وصیت کا ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا جس میں اس نے لکھا تھا ؛
” ۔ ۔ ۔ میں پچاس ہزار فرانک غریبوں کی فلاح کے لئے دان کرتا ہوں ۔ میری میت انہی کے جنازے ڈھونے والی عام گاڑی میں لے جائی جائے ۔ میری موت پر کسی قسم کی مسیحی تعزیتی رسم ادا نہ کی جائے سوائے اس کہ سب مرے ہوئے لوگوں کے لئے دعا ہو ۔ میں خدا کا منکر نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ “
اس کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی ۔ اسے ’ پینتھین ‘ ، پیرس کے اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں الیکساند ر ڈوماز ، جو دسمبر 1870ء میں فوت ہو چکا تھا ، دفن تھا ۔ بعد میں ایمل زولا بھی ستمبر 1902ء میں وفات پر، اسی حجرے میں دفنایا گیا تھا ۔
وکٹر ہیوگو کے ادبی کام کی اہمیت کا اندازہ آپ اُس اثر سے لگا سکتے ہیں جو اس نے فنون لطیفہ پر چھوڑا ۔ اب تک ایک ہزار سے زائد موسیقی کی دھنیں اس کے کام سے متاثر ہو کر بنائی جا چکی ہیں ۔ سو سے زیادہ اوپیراز اس سے ماخوذ ہیں جن میں سے کئی تو اس کی حیات میں ہی لکھے گئے تھے ۔ اس کے اپنے لکھے ’ La Esmeralda ‘ کا ذکر اوپر آ چکا ہے ۔ دیگر میں ’ Lucrezia Borgia‘ ، ’ Rigoletto‘ ،’ Ernani ‘ اور ’ Ponchielli's La Gioconda‘ نمایاں ہیں ۔ فلم کا میڈیم آنے کے بعد وکٹر ہیوگو کے لکھے ادب کو ایک سے زائد بار سکرین پر پیش کیا گیا ۔ ’ Notre-Dame de Paris‘ کی مثال لیں تو یہ بڑی سکرین کے لئے گیارہ بار فلمایا گیا جبکہ ٹی وی کے لئے اس پر پانچ سیریلز بنیں ۔ بطور ڈرامہ اور میوزیکلز پیش کیا جانا ان سے الگ ہے۔ ’Les Misérables‘ کی بات کریں تو یہ پچاس سے زائد بار فلمایا گیا ۔ ٹی وی کے لئے اس کی بیس سے زائد adaptations اس کے علاوہ ہیں ۔ ڈرامے، میوزیکلز ، اینیمیشنز ، ریڈیائی تشکیلیں اور کمپوٹر گیمز کی گنتی بھی الگ ہے۔ اس کے دیگر کئی ناول اور ڈرامے بھی فلموں کی زینت بنے جن میں کچھ کے نام یہ ہیں ؛ ’ Lucretia Borgia‘ ، ’ Ruy Blas‘ ، ’ Le roi s'amuse‘ ، ’ L'Homme qui rit‘ اور ’ Marie Tudor ‘ ۔
اردو میں وکٹر ہیوگو کو متعارف کرانے میں سعادت حسن منٹو کا کردار اہم ہے ۔ اس نے اپنے ادبی سفر کے آغاز میں جو تراجم کئے ان میں ’Le Dernier jour d'un condamné‘ (The Last Day of a Condemned Man) کا ترجمہ بھی شامل ہے جسے اس نے ’ سرگزشت اسیر‘ کا نام دیا تھا ۔ اس ترجمے کے آغاز میں جو دیباچہ منٹو نے لکھا ہے اس پر 25 اگست 1933ء کی تاریخ درج ہے ۔ منٹو کا کیا یہ ترجمہ اسی برس ’ اردو بک سٹال‘ ، لاہور نے شائع کیا تھا ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153939205726895