دسمبر 1964 میں ہماری موسمِ سرما کی تعطیلات تھیں، اُس وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا اور میری عمر سات سال تھی۔ میرے والد صاحب سرکاری ملازم تھے لیکن ان کے گھرانے کا ادبی پس منظر تھا، اس لئے ہمارے گھر میں کافی تعداد میں اخبارات اور رسائل آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اُس وقت اردو اخبارات پڑھ لیا کرتا تھا۔ پاکستان میں جنرل ایوب خان کی سرکردگی میں آمرانہ حکومت قائم تھی جس کی رو سے جنرل ایوب خان "صدارت" کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ ہمارے ملک کے پہلے فوجی حکمران تھے. انہوں نے اُس وقت پاکستان میں صدارتی انتخابات کا اعلان کر رکھا تھا، جس میں وہ خود بھی حصہ لے رہے تھے. جنرل صاحب کے نافذ کردہ "1962" کے خودساختہ آئین کے تحت مشرقی و مغربی پاکستان میں صدارتی نظام نافذ تھا۔ ان کے مقابلے میں "متحدہ اپوزیشن" نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ "فاطمہ جناح" کو صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا کیا تھا اور انتخابات جنوری 1965 کے پہلے ہفتے میں منعقد ہونے تھے. انتخابات میں ایوب خان کا انتخابی نشان "گلاب کا پھول" اور محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان "لالٹین" تھا. میں اور میری عمر کے دوسرے بچے اپنی قمیض کی ایک جانب گلاب کا پھول اور دوسری طرف لالٹین کا نشان لگائے گھومتے پھرتے تھے کیونکہ ہماری عمر کے بچوں کے لیے یہ محض ایک کھیل تماشہ ہی تو تھا۔
دو جنوری 1965 کو انتخابات کا انعقاد ہوا اور ایوب خان جیت گئے لیکن حیران کُن طور پر "ڈھاکہ" اور "کراچی" میں ایوب خان کو شکست ہوئی.۔۔
اُس وقت مجھے اپنے بڑوں کی گفتگو سن کر یہ اندازہ ہوا اور عام خیال بھی یہی تھا کہ
"محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا گیا ہے"
محلّے میں شام کے وقت گھر کے سامنے ہمارے والد صاحب اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے سے گول دائرے کی صورت میں کھڑے ہو کر حالات حاضرہ پر گفتگو کیا کرتے تھے، میں بھی والد صاحب کے ساتھ کھڑا ہو جایا کرتا تھا کیونکہ میں چھوٹا بچہ تھا اور اُن لوگوں سے قد میں خاصا چھوٹا تھا۔ اس لئے مجھے اپنی گردن اونچی کر کے اُن لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھنا پڑتا تھا۔
جنوری 1965 میں یہ سب لوگ مجھے پہلی دفعہ بہت متفکر نظر آئے تھے۔ متفقہ طور پر ان سب کا کہنا تھا کہ آج کل حالات بہت خراب ہیں، اس لئے گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء زخیرہ کر لی جائیں کیونکہ کراچی کے شہریوں نے عمومی طور پر فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ہے، اس لئے یہ شہر اب خاص طور پر حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بنے گا۔
پھر ہمیں پتہ چلا کہ صدر جنرل ایوب خان کا بیٹا "گوہر ایوب" شہرِ کراچی میں بہت جلد فتح کا ایک بڑا جلوس نکالنے والا ہے۔ وہ جلوس نکلا اور فتح کا جشن منانے کے لیے جلوس کے شرکاء "لالوکھیت" کی طرف روانہ ہو گئے کہ وہاں کے لوگوں نے محترمہ "فاطمہ جناح" کا دیوانہ وار ساتھ دیا تھا. جلوس میں شامل مسلح جتھوں نے کراچی کے نہتے شہریوں پر "گولیاں" برسائیں، ان کے گھر "لوٹ" لیے اور ان کی کئی ایک بستیوں میں "آگ" لگا دی.
جیتنے والوں نے کراچی کے "شہریوں" کو محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا دی اور یوں شہر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے، جن میں بہت سے شہری مارے گئے اور یہ کھیل تماشہ ایک "خونی کھیل" میں تبدیل ہوگیا.
اس افسوسناک واقعے کے دوسرے دن میرے والد صاحب جب اپنے آفس سے گھر واپس آئے تو ان کا رکشا بالکل گھر کے سامنے رُکا تھا، والد صاحب دوڑتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور مجھ سے بلند آواز میں کہا کہ
"لال دوائی اور روئی کے ٹکڑے لے کر فورا باہر آؤ۔۔۔"
اُس زمانے میں لال دوا تقریبا ہر گھر میں ہوتی تھی، جو خون سے رستے زخموں کو ٹھیک کرنے کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ جب میں دوا لے کر گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ
"پٹھان رکشا ڈرائیور کے ایک گال پر گہرا زخم ہے اور اس میں سے تیزی سے خون بہہ رہا ہے۔۔۔" والد صاحب نے اُس کا زخم صاف کیا اور اس زخم پر لال دوائی لگائی، پھر رکشا ڈرائیور کو ایک گلاس گرم دودھ پلا کر رخصت کیا۔
والد صاحب نے امی کو بتایا کہ میرے رکشے کو "لالوکھیت" میں لوگوں کے ایک ہجوم نے روک لیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ رکشا ڈرائیور "پٹھان" ہے تو ہجوم میں سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ آپ ڈرائیور کو ہمارے پاس چھوڑ جائیں، والد صاحب نے ان کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے کہا کہ نہیں میں اسی رکشے میں اپنے گھر تک جاؤں گا۔۔۔ اور میں ابھی ہجوم سے اسی بحث میں ہی مصروف تھا کہ کسی نے رکشا ڈرائیور کے چہرے پر ایک مُکّا مار دیا، جس سے فورا ہی ڈرائیور کے چہرے سے خون نکلنے لگا۔۔۔ معلوم ہُوا وہ آدمی ہاتھ میں "لوہے کا کلپ" پہنے ہوئے تھا، اتنی دیر میں ہجوم میں سے ہی کسی کی تیز آواز آئی کہ پولیس آرہی ہے، پولیس۔۔۔ اور پھر وہ ہجوم فورا ہی تتر بتر ہو گیا۔۔۔ ہجوم کے چلے جانے کے بعد والد صاحب رکشا ڈرائیور کے ساتھ اس علاقے سے نکل آئے۔۔۔ ٹھیک اُسی شام ہمارے محلّے کے بڑے "گول دائرے" کی صورت میں کھڑے ہوئے، میں بھی والد صاحب کے ساتھ اپنی گردن اوپر کی جانب کر کے کھڑا ہو گیا۔۔۔ خبر یہ تھی کہ
"آج ہمارے گھروں پر بھی حملہ ہو سکتا ہے"
ہماری کالونی تین منزلہ عمارتوں پر مشتمل تھی، طے یہ پایا کہ مغرب کے بعد اندھیرا ہوتے ہی تمام عورتیں اور بچے تیسری منزل کی چھت پر منتقل کر دیئے جائیں گے، ان عمارتوں کی چھتوں پر جانے کے لئے باقاعدہ زینہ نہیں تھا، بس تیسری منزل کی چھت پر ایک بڑا سا چوکور سوراخ بنا ہوا تھا، اس سوراخ سے ایک کمزور سی لکڑی کی سیڑھی ٹکا کر کھڑی کر دی گئی۔۔۔
جنوری کا سخت سردی کا موسم تھا۔ اس زمانے میں آج کی نسبت کراچی میں ٹھیک ٹھاک سردی پڑتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب ہم صبح اسکول جانے کے لئے نکلتے تھے تو ہمارے منہ سے بھاپ نکلتی تھی اور اتنی دھند چھائی ہوتی تھی کہ تین چار فٹ سے زیادہ نظر نہیں آتا تھا۔۔۔ اندھیرا ہوتے ہی سب بچے اور عورتیں بھاگتے ہوئے، اُس کانپتی سیڑھی کے ذریعے "کُھلی چھت" پر منتقل کر دیے گئے، جس پر کوئی حفاظتی دیوار بھی نہیں تھی. چھت کے اوپر دفاعی ہتھیاروں کا پہلے سے ہی بندوبست کیا گیا تھا۔ وہ ہتھیار کچھ یوں تھے؛
ایک طرف پتھروں کا ایک بڑا سا ڈھیر رکھ دیا گیا، دو تین تھیلوں میں پسی ہوئی لال مرچیں بھر کر رکھ دی گئیں اور ایک طرف عارضی "چولہا" بنا ہوا تھا جس میں لکڑیاں سُلگ رہی تھیں اور اس کے اوپر رکھی ہوئی دیگچی میں پانی گرم ہو رہا تھا۔۔۔
اُن خواتین کو بتایا جارہا تھا کہ اگر "حملہ آور" بلڈنگ کے نیچے پہنچ جائیں تو ان کو اوپر سے پتھر مارے جائیں، گرم پانی پھینکا جائے اور پسی ہوئی لال مرچیں چھڑکی جائیں۔
ان دفاعی تیاریوں کے ساتھ کُھلے آسمان تلے ہم سب سخت سردی میں كپكپا رہے ہوتے تھے۔ حملے کی صورت میں بجلی کے کھمبے بجائے جاتے تھے۔۔۔ ہم سب نے وہ بہت سی راتیں جاگ کر خوف کی حالت میں گزاریں تھیں اور خوش قسمتی سے "حملہ آور" ہماری بلڈنگ تک نہیں پہنچ سکے۔۔۔
آج میں چھیاسٹھ سال کا ہو چکا ہوں لیکن حالات بدستور خراب ہیں۔۔۔ بس اب "پتھروں" اور "مرچوں" کی جگہ "کلاشنکوف" اور "بموں" نے لے لی ہے۔۔۔
یہ آپ پر منحصر ہے کہ
آپ اسے "نفرتوں" کی ترقی کہیں یا "ٹیکنالوجی" کی ترقی۔۔۔!!!
“