’’ایسا بھی تو ہو سکتا ہے‘‘ اور رقصِ رومی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید ایسا بھی ہوسکتاہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ پھر کائنات بن کر اُبھرے۔ 1998 میں تجرباتی سائنس نے اعلان کیا کہ کائنات تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ اور یہ کہ کائنات کے پھیلنے کی رفتار حالتِ اسراع میں ہے یعنی ایکسیلیریٹ ہورہی ہے۔ اس کے بعد فلکیات نے اپنے نتائج کا اعلان کردیا اور بتایا کہ بِگ کرنچ نہیں ہوگا بلکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ ایک دوسرے سے دُور چلا جائےگا۔ اتنا دُور اتنا دُور کہ بہت ہی دُور۔
ہماری کائنات کی کہانی کے آغاز میں ایک بہت ہی باریک ذرّے سے بِگ بینگ ہونے اور پھر کائنات بن جانے تک زیادہ تر مراحل کے واقعات آج ہمارے سامنے ہے۔ ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو ماضی کا ٹی وی چلتاہوا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کائنات کے ماضی کو تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایک واقعہ اپنی اصل حقیقت کے ساتھ ۔ کاسمک ریڈی ایشن سے لے کر عہد بہ عہد پیش آنے والے حادثات، پھٹتے ہوئے سُپرنوا ستارے، بنتے ہوئے ہوئے بلیک ہولز اور ٹکراتے ہوئے نیوٹران ستارے، سب کچھ ہم کسی ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ 1998 میں ہمیں یقینی طور پر یہ پتہ چلا ہے کہ کائنات کی ساری کہکشائیں ایک دوسرے سے، نہایت تیزی کے ساتھ دُور جارہی ہیں۔ وہ کہکشائیں جو روشنی کی رفتار کی پہنچ سے باہر نکل جاتی ہیں وہ ہمیں کبھی نظرنہیں آسکتیں اور نہ ہی نظرآتی ہیں۔ ہماری دیکھنے کی صلاحیت تمام تر آلات کے باوجود روشنی کی رفتار تک محدود ہے۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے تیزی کے ساتھ دور جارہی ہیں یعنی ایکسیلیریٹ ہوری ہیں تو یہ رفتار بڑھ کر روشنی کی رفتار سے آگے بھی جاسکتی ہے۔ خود سے تیز بھاگتی ہوئی شئے کو روشنی کیسے دیکھ کر ہمیں بتائے گی کہ فلاں اِس وقت کہاں ہے؟
تجرباتی سائنس کی بات یقینی ہوتی ہے۔ اب ہم مستقبل کے اندازے لگا سکتے ہیں اور سائنسدانوں نے ٹھیک ٹھیک سالوں اور سَنین کے ساتھ بتادیا ہے کہ کون سا سیّارہ اور کون سا ستارہ کتنا عرصہ زندہ رہیگا۔ پھر یہ بھی بتادیا کہ اِس رفتار سے پھیلتی ہوئی کائنات کا ذرّہ ذرّہ بالآخر ایک دوسرے سے جدا ہوجائےگا۔
تھرموڈائمیکس کے دوسرے قانون کی رُو سے اینٹروپی ہمیشہ بڑھتی رہیگی اور نتیجۃً کائنات ایک ٹھنڈی، تاریک، خاموش اور بور ترین جگہ بن کر رہ جائے گی جہاں خلا ہوگا اور ذرات بھی شاید ایک دوسرے سے اتنے دور ہوجائیں کہ ان کی موجودگی یا عدم موجودگی کوئی معنی ہی نہ رکھتی ہو۔
اور اتنے دور ہوجائیں کہ ہر ذرّہ اچانک کسی دن ’’شاید‘‘ ایک نئے بگ بینگ کا باعث بنے اور ایک نئی کائنات پیدا ہونا شروع ہوجائے۔ کسے خبر کہ ہرذرہ کائنات کا بیج ہو۔ کسے خبر کہ یہ ایک پارٹیکل جسے ہم فوٹان کہتے ہیں سب کچھ جانتاہو؟ جہاں اور بہت سی غیرعقلی باتیں عین سائنس کے قلب میں موجود ہیں وہاں شاید کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کسی بھی خیال کا اظہار کیونکر ممنوع ہوسکتاہے؟ کیا پتہ فوٹان ہی ایک ذرّہ ہو اور باقی سب ذرّات اپنے رقصِ رومی میں کسی غلطی کا مرتکب ہوکر مشہود ہوگئے ہوں۔ فطرت ہرشئے میں غلطی گوارہ ہوسکتی ہے، رقص میں نہیں۔ رائٹ ہینڈڈ الیکٹران میں سے ڈبلیو بوزان یوں گزرجاتاہے جیسے وہاں کوئی چیز تھی ہی نہیں لیکن لیفٹ ہینڈڈ الیکٹران سے ٹکرا کر ڈفریکٹ ہوجاتاہے۔ حالانکہ دونوں ہی الیکٹران ہیں۔ بس اتنا سا فرق ہے کہ آپس میں کائرل ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کا ایسا عکس ہیں جیسے ہمارے دونوں ہاتھ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ اور دونوں کا الگ الگ ہونا بھی ضروری نہیں۔ ایک ہی کبھی لیفٹ ہینڈڈ اور کبھی رائٹ ہینڈڈ میں تبدیل ہوتا رہتاہے۔ ساتھ کے ساتھ وہ کسی لاٹُو کی طرح گھوم بھی رہے ہیں یعنی اپنے ہی محور کے گرد گردش بھی کررہے ہیں۔ اس گردش کو سپِن کہتے ہیں۔ سپن ہوتے ہوتے اچانک انہیں کچھ ہوجاتاہے اور وہ لہرا کر جھومنے بھی لگتے ہیں۔ لہرا کر جھومنا رقصِ رومی کا حصہ نہیں ہے۔وہ غلط رقص کرنے لگتے ہیں۔ رائٹ ہینڈڈ ٹوسٹ اور پھر لیفٹ ہینڈڈ ٹوسٹ۔ اس رقص کی وجہ سے ہِگز فیلڈ میں موجود ایکسائٹیشن جو ڈبلیوبوزان کی صورت ظاہرہوتی ہے لیفٹ ہینڈڈ الیکٹرانوں سے ٹکرا کر اُن کی رفتار کو کم کردیتی ہے ورنہ وہ بھی فوٹانوں کی طرح روشنی کی رفتار پر ہی ہوتے۔ الیکٹران جونہی روشنی کی رفتار سے کم ہوتے ہیں وہ مادہ کہلانے لگتے ہیں۔ ہر ایسا ذرہ جو مادہ کہلاتاہے دراصل اسی رقصِ رومی میں غلطی کا مرتکب ہوکرکائنات میں محصور ہوکر رہ جاتاہے۔ اُسے کائنات کے گنبد سے باہر نکلنے کے لیے رقص تو کرنا ہے لیکن ایسا کہ صرف گھومتا رہے اپنے مومینٹم کے ساتھ الائن ہوکر، بالکل جیسے فوٹان کا سپن ہے۔ کوئی لیفٹ ہینڈڈ یا رائٹ ہینڈڈ ٹوسٹ نہیں۔ خالص رقصِ رومی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“