ضمیر جعفری رخصت ہوئے تو مزاحیہ شاعری کا ایک روشن باب بند ہو گیا۔ کیا طنز تھا! پسِ پردہکتنا دکھ تھا! کس قدر دلسوزی تھی! کتنے درد سے کہا ؎
نہ بینائی پسند آئی، نہ دانائی پسند آئی
مجھے سب جرمنی میں ایک نکٹائی پسند آئی
نعت پر دسترس تھی۔ کلام پر قدرت تھی! انگریزوں کی قبروں پر لکھے کتبوں کا ترجمہ کیا تو اصلکو پیچھے چھوڑ گئے ؎
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
میں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے
یہ دوسری نظم تو ضرب المثل بن چکی ہے ؎
کلائیو کی یہ بات آئی پسند
کہ وہ مر گیا
مزاحیہ شاعری ان کے بعد بھی زندہ ہے مگر زیادہ تر بیوی کی برائی‘ پڑوسن اور کھڑکی جیسےفرسودہ مضامین کی بیساکھیوں پر چل رہی ہے۔ کہیں کہیں اگر شاعری میں جان ہے بھی تو شاعر کیجسمانی پرفارمنس تلے دب دب جاتی ہے! اس موضوع پر زیادہ لکھنا خطرے سے خالی نہیں کہ کچھدوستانِ عزیز اس میدان کے شہسوار ہیں ؎
خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
بھارت کا دورہ شروع کرنے سے پہلے صدر اوباما نے ایک بھارتی جریدے کو انٹرویو دیا۔ اسانٹرویو کے مندرجات پڑھ کر ضمیر جعفری یاد آ گئے اور بے ساختہ یاد آ گئے۔ ذرا انٹرویو کے چیدہچیدہ نکات ملاحظہ کیجیے:
بھارت حقیقی گلوبل پارٹنر ہے۔
نائن الیون اور بمبئی واقعات کے بعد امریکہ اور بھارت دفاع اور سلامتی میں ایک دوسرے کے ساتھہیں۔
افغانوں کی حالت بہتر بنانے میں نئی دہلی کی مدد کے شکرگزار ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے میں مل کر کام کریں گے۔
دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح بھارتی اور امریکی عوام کے لیے بھی 16 دسمبر کو پشاور کےسکول میں بچوں کا قتلِ عام ایک دردناک واقعہ تھا۔
گزشتہ کچھ برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے اور امریکیاور بھارتی نوجوانوں کو ملازمت کے بہتر مواقع میسر آئے ہیں۔
ہم نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کو مزید گہرا کردیا ہے۔
پاکستان اور امریکہ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان پر واضح کردیاہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے قابلِ قبول نہیں!
ان میں سے کچھ نکات تو مضحکہ خیز ہیں۔ پاکستانی میڈیا کو‘ بالخصوص پاکستانی وزارتِ خارجہکے ترجمان کو صدر اوباما کے اس بیان کی حقیقت آشکارا کرنی چاہیے تھی کہ افغانوں کی حالت بہتربنانے میں وہ نئی دہلی کی مدد کے شکرگزار ہیں۔ کون سے افغان؟ اور کون سی حالت؟ امریکہ نےبمباری کر کر کے افغانستان کے رہے سہے انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کردیا۔ امریکی فوجی افغانوںکے گھروں میں گھس گھس کر تلاشیاں لیتے رہے اور ظلم و ستم ڈھاتے رہے۔ لاکھوں افغان آج بھیدوسرے ملکوں میں جلاوطنی کا زہر اب پی رہے ہیں۔ اگر افغانوں کی حالت بہتر ہوئی ہوتی تو وہ ایکلمحہ تاخیر کے بغیر واپس وطن روانہ ہو جاتے۔ سچی بات یہ ہے کہ امریکہ کو اور امریکی حکومتکو اور امریکی صدر کو افغان عوام کی اتنی بھی پروا نہیں جتنی امریکیوں کو اپنی ساس کی ہوتیہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ افغانستان میں حالات اس قدر خراب تھے کہ امریکی اپنی ساس کو بھی وہاںجانے سے روک رہا تھا! رہی افغان حالت کو سنوارنے میں نئی دہلی کی مدد! تو کاش! امریکی صدراپنے دعویٰ کے ثبوت میں اعداد و شمار پیش کرتے۔ بھارتی کمپنیاں افغانوں سے کئی کئی سو گنامنافع لے رہی ہیں۔ وہ افغانوں کی کھال اتار رہی ہیں۔ ہاں جو افغان بھارت کے دامِ تزویر میں پھنسکر پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ ان کے حالات یقینا بہتر ہو جاتے ہیں۔اگر امریکی صدر کو ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ افغانستان کے طول و عرض میں بکھرے بھارتیقونصل خانے پاکستان کے خلاف جاسوسی اور دہشت گردی کے مراکز ہیں تو انہیں اپنی معلومات پرنادم ہونا چاہیے۔
مگر صدر اوباما کا دورۂ بھارت اور مندرجہ بالا انٹرویو کے مندرجات ہم پاکستانیوں کے لیے لمحۂفکریہ بھی ہونے چاہئیں۔ بین الاقوامی سیاست کی تلخ ترین لیکن ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ ملکوںکے درمیان محبت ہوتی ہے نہ جذباتی رومان! کوئی ملک کسی کا رشتہ دار ہے نہ دوست! یہ تومفادات کا معاملہ ہے۔ ہر حکومت اپنے ملک کے نکتۂ نظر سے پالیسیاں بناتی ہے اور پھر ان کا نفاذکرتی ہے۔ ہم پاکستانی جب امریکی پالیسیوں کے خلاف جلوس نکالتے ہیں‘ جلسے کرتے ہیں‘ کبھیامریکی پرچم جلاتے ہیں اور کبھی امریکی رہنمائوں کے پتلے‘ تو یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہامریکہ کو‘ بھارت کو‘ یا کسی بھی ملک کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے مفادات کے بجائے ہمارے مفادکو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائے؟ چین ہمارا دوست ہے لیکن اس کے تجارتی اور سیاسی تعلقاتبھارت کے ساتھ روزافزوں ہیں اس لیے کہ چین کو سب سے زیادہ عزیز چین کا اپنا مفاد ہے۔ مشرقِوسطیٰ کے مسلمان ملکوں کے جتنے سیاسی اور تجارتی تعلقات بھارت کے ساتھ ہیں‘ پاکستان کےساتھ ہرگز اتنے نہیں۔ شرقِ اوسط کے کچھ ملکوں میں تو بھارتیوں کا اتنا غلبہ ہے کہ وہ پاکستانیوںکو ملازمتیں تک نہیں حاصل کرنے دیتے اور پاکستانی تاجروں کو بھی نقصان پہنچانے پر قادر ہیں!
آج اگر امریکی صدر بھارت کے لیے اپنے انتہائی مصروف شب و روز میں سے تین دن مخصوصکرتا ہے اور اسے ’’حقیقی گلوبل پارٹنر‘‘ قرار دیتا ہے تو اس کی بھارت کے ساتھ رشتہ دای ہے نہLove affair! بین الاقوامی حوالے سے بھارت نے اپنے لیے جو مقام پیدا کیا ہے‘ یہ اس کا نتیجہہے۔ تجارت اور آئی ٹی میں بھارت جس طرح دنیا پر چھایا ہوا ہے‘ امریکہ اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ہم اس سطح پر پہنچ گئے تو ہمیں بھی دوسرے ممالک گلوبل پارٹنر قرار دینے پر فخر کریںگے۔ ساٹھ کے عشرے میں ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگانے والا چین آج ہمارا دوست ہے توبھارت کو گلوبل پارٹنر کہنے والا امریکہ بھی کل ہمارا مرہونِ احسان ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہماریپٹاری میں کچھ موجود ہو۔ موجودہ منظرنامہ تو بہرطور مایوس کن ہے! بھارتی وزیراعظم کا ماضیقریب میں امریکی دورہ اور اس کے مقابلے میں ہمارے وزیراعظم کی اسی دورے میں مصروفیتاس کا ثبوت ہیں۔ ہمارے سابق صدر اور موجودہ
وزیراعظم کی دولت کے انبار بیرونِ ملک پڑے ہیں۔ ایک سال میں ہماری حکومت کے سربراہ کےذاتی اثاثوں میں ساٹھ کروڑ کی مالیت کا اضافہ بتایا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت ایسےدولت مند حکمرانوں سے محروم ہے!
رہا امریکی صدر کا یہ بیان کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں تو ہماری بہادرافواج ان ٹھکانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے اپنی قیمتی جانیں قربان کر رہی ہیں۔ مگر المیہ یہہے کہ یہ محفوظ ٹھکانے محض زمینی نہیں‘ ہمارے کچھ سیاست دانوں بالخصوص مذہبی قیادت کےدعویداروں کے اذہان میں بھی یہ ٹھکانے آباد ہیں! زمینی ٹھکانوں کو تو ہماری افواج ٹھکانے لگارہی ہیں مگر جو ٹھکانے ذہنوں میں آباد ہیں‘ انہیں کون ختم کرے گا؟ آپ بدقسمتی کا اندازہ لگایئےکہ دہشت گردوں کو پھانسیاں لگنا شروع ہوئیں تو ایک نیم مذہبی نیم سیاسی پارٹی کے سربراہ نےڈنکے کی چوٹ پھانسی لگنے والے دہشت گردوں کو اسلام پسند قرار دیا۔ اس سے کسی نے یہ تکنہ پوچھا کہ آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ کیا معصوم بچوں کے قاتل‘ سروں سے فٹ بالکھیلنے والے اور عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد اسلامپسند ہیں؟ دہشت گردوں کے ایسے ساتھی اس ملک میں آزاد ہیں اور با اثر بھی!
بھارت کو زیادہ اہمیت دینے پر امریکہ کے خلاف ہمارا غصہ بجا‘ لیکن ہم کس کس پر غصہ کریںگے؟ کیا کل ہم چین اور جاپان سے بھی ناراض ہونا شروع کردیں گے؟ ہم خود بھی تو کچھ کر کےدکھائیں! تجارت‘ آئی ٹی‘ ٹیکنالوجی‘ صنعت‘ زراعت‘ یہ سب میدان ہماری توجہ سے محروم ہیں اورویران پڑے ہیں! صرف احتجاجی جلوس نکالنے سے کیا ہوگا؟ امریکی صدر کا انٹرویو پڑھ کر ضمیرجعفری یاد آ رہے تھے ؎
کچھ ہنر‘ کچھ سعی و کاوش اے مرے نورِ نظر!
صرف اک پتلون کس لینے سے کام آتا نہیں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔