رب جانے وہ کون سا سال تھا اورکیا کیا تباہیاں آئی تھیں اور فیض صاحب پر کیا گذری تھی کہ وہ کہہ اٹھے تھے
پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے ،پر یوں نہیں جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ، روش روش برباد ہوئے
اس کے بعد بھی ایسے کئی مہ و سال گذرے ہوں گے کہ باغ ہستی کے پتے اور روشیں برباد ہوئے ہونگے۔ فیض صاحب نے جنگ عظیم دوم کی تباہکاریاں دیکھی ہوں گی، تقسیم کا دکھ سہا ہوگا، ویتنام، فلسطین میں ہونے والے ظلم وستم دیکھے ہوں گے اور پھر ہمارے سامنے کا، ملک ٹوٹنے کا سانحہ دیکھا ہوگا۔ اور یہ شکست وریخت ، یہ ٹوٹ پھوٹ اسی کا تو نام زندگی ہے۔ سب سے نا معتبر ، نا پائیدار حقیقت زندگی ہے جب کہ موت سب سے بڑی اور اٹل سچائی ہے۔ لیکن دل اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا ۔
میں نے بھی اپنی زندگی میں ایسے سانحے دیکھے ، اپنے پیاروں کو جاتے دیکھا اور اب تو حالت بقول فراق یہ ہے کہ
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
اور اللہ جانے یہ بستیاں اب کتنی دور رہ گئی ہیں کہ ہم بھی ان کے ساتھ جا بسیں۔ جانا تو سب نے ہے، سب قطار بنائے کھڑے ہیں، ہاں کچھ لوگ جلدی میں ہوتے ہیں قطار توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ قطار بہت جلد خالی ہوتی جاتی ہے۔ ایسا ہی آج سے تقریباً چار ساڑھے چار سال قبل بھی ہوا تھا۔ ہر روز کسی نہ کسی کی سناؤنی آتی۔ ان دنوں میں نے ایک مضمون لکھنا چاہا جس کا عنوان تھا “عام الحزن “ یعنی غم کا سال لیکن میری ہمت جواب دے گئی اور یہ کوئی ایسا موضوع بھی نہیں جس پر لکھنے کی کوئی تمنا کرے۔ بس خدا سے دعا کرتا رہا کہ اب ایسا وقت نہ آئے۔
لیکن مالک الملک اپنی مرضی کا مالک ہے۔ ہماری آزمائش شاید ختم نہیں ہوئی تھیں اور یہ سال تو کچھ ایسی ابتلا لے کے آیا کہ دنیا کی چیخیں نکل گئیں۔ کوئی دن نہیں گذرا کہ کسی اپنے پیارے کی، دوستوں کی ، کسی مشہور شخصیت کی جانے کی خبر نہ آئی ہو اور یہ سلسلہ اب تک رکا نہیں۔
شکر ہے یہ سال اب ختم ہونے کو ہے۔ خدا کرے آنے والا سال زندگی کی نوید لے کر آئے ۔زندگی ، جو اس سال تو ہم سے روٹھ ہی گئی تھی۔ بہرحال رب کی مرضی کے آگے سر جھکانے کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔۔ زندگی لینے اور دینے کا اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہمارے لیے اس میں کیا سبق ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم سبق سیکھتے نہیں۔
کل سال کا آخری دن ہے۔ خدا کرے کہ یہ دن خیروعافیت سے گذر جائے۔ اس سال تو ایک ختم نہ ہونے والی فہرست ہے اپنے پیاروں کی جو دنیا سے منہ موڑ گئے۔ آج ایسے چند مشہور لوگوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اس سال داغ مفارقت دیا۔ یہ ایک بہت بڑی تفصیل ہے میں نے بہت مختصر کرکے ان ناموں کا ذکر کیا ہے جنہیں زیادہ تر لوگ جانتے ہیں۔
میں اس سال کے شروع میں کراچی میں تھا۔ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی اور کسے خبر تھی کہ آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا کچھ لانے والا ہے۔ کراچی ہی میں تھا کہ کراچی کے فرشتہ صفت سٹی ناظم نعمت اللہ خان صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ کراچی اپنے اس حقیقی محسن کو کبھی نہیں بھلا سکے گا۔
انہی کے آگے پیچھے کامریڈ لال خان اور مشہور گلوکارہ مہ جبین قزلباش بھی رخصتی ہوئے۔
مارچ میں اسٹیج، ٹیلیویژن اور فلم کے ایک مقبول ترین فنکار امان اللہ ہمیں چھوڑ گئے۔
اپریل کا مہینہ شاید فلمی فنکاروں پر بھاری تھا۔ سب سے پہلے میرے بچپن کی یاد فلم “ میرا کیا قصور” کے ہیرو اسد بخاری کی خبر آئی۔ اپریل ختم ہونے کو تھا تو ایک بہت ہی باصلاحیت فنکار “عرفان خان “رخصت ہوئے اور دوسرے دن بالی ووڈ کے ایک اور مقبول فنکار “رشی کپور” بھی آنجہانی ہوگئے۔
مئی کا مہینہ اطہر شاہ خان عرف “ جیدی” کی خبر لایا۔ مئی میں ہی میری چوتھی جماعت والے “ مسلم اسکول بہار کالونی” کے بانی اور سیاسی اور سماجی کارکن آزاد بن حیدر کا انتقال ہوا اور اسی مئی میں مشہور طنز نگار اور ادیب مجتبی حسین بھی اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے۔
جون کا مہینہ تو یوں لگتا ہے کہ انتظار میں ہی تھا۔ پہلی جون کو آصف فرخی کی خبر ملی۔ میں انہیں نہیں جانتا تھا لیکن جس طرح ادبی حلقوں میں ان کی جدائی کا سوگ منایا گیا اس سے اندازہ ہوا کہ اردو ادب کیسی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ انہی دنوں پاکستان کی فلمی دنیا کی خاتون اوّل “صبیحہ خانم “ کی سناؤنی بھی آگئی۔ اسی جون میں گلزار دہلوی، سرور جاوید، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، منظر ایوبی ہم سے رخصت ہوئے تو میرے دور طالبعلمی کا ایک روشن باب، مشہور مقرر اور سماجی کارکن، دوست محمد فیضی اس موذی بلا کا شکار ہوئے۔
فیضی کا غم ابھی تازہ تھا کہ پاکستان ٹیلیویژن کا اولین نام ، اداکار، بے بدل کمپئیر، شاعر، سیاستدان اور پی ٹی وی کے شاید مشہور و مقبول ترین فنکار طارق عزیز داغ مفارقت دے گئے۔ دو دن بعد جامعہ بنوریہ کے مہتمم اور مشہور عالم مفتی نعیم صاحب خالق حقیقی سے جا ملے۔ مفتی صاحب کی مرقد کی مٹی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک اور عالم بے بدل ، ہمارے دور کے ایک نابغہ روزگار، علامہ طالب جوہری اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
جولائی میں جہاں شاعر اور کالم نگار ناصر زیدی، محسن بھوپالی صاحب کی اہلیہ، افسانہ نگار طاہر نقوی، ماہ طلعت زاہدی ، سلطان نسیم جمیل، ہاکی کے کپتان اولمپئین اسد ملک اور مشہور کوریوگرافرسروج خان کی خبریں سنیں تو وہاں دو بہت ہی بڑے نام ہمیں چھوڑ گئے۔
جماعت اسلامی اور اس کی سیاست سے کوئی بھی اختلاف کرسکتا ہے ۔ اسی طرح “ سید منور حسن” کے سیاسی خیالات بھی بہت سے لوگوں کو پسند نہیں ہوں گے لیکن ان کے بدترین دشمن بھی ان کی کھرے سونے جیسی خالص اور درویش صفت شخصیت کے معترف تھے۔ سید صاحب جیسے روشن ضمیر لوگ روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ ابھی ان کا غم تازہ تھا کہ اگلے دن پروفیسر عنایت علی خان بھی رخصت ہوئے۔ پروفیسر صاحب سے نیاز مندی کا رشتہ تھا ۔ وہ خاکسار کی کتاب “ میرے شہر والے” کی تقریب رونمائی کے مہمان خصوصی بھی تھے۔ دودن میں اتنی معتبر ہستیوں کی رخصتی سے دنیا خالی خالی لگنے لگی تھی۔
اگست میں بھی یہ سلسلہ کہیں رکا نہیں ۔ علم و ادب میں سعدیہ دہلوی، اطہر علی ہاشمی رخصت ہوئے لیکن راحت اندوری کی موت سے تو لگتا تھا کہ ہندوستان کے مشاعرے بے آواز ہوگئے۔ راحت کا غم نہ صرف سرحد کی دونوں جانب بلکہ جہاں کہیں اردو بولی جاتی ہے بری طرح محسوس کیا گیا۔
اسی اگست میں سیاست کا ایک بڑا نام اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے ایک بڑے سپاہی میر حاصل بزنجو بھی رخصت ہوئے۔
ستمبر نے ہم سے علامہ ضمیر اختر نقوی جیسی نابغہ شخصیت ہم سے چھین لی۔ علامہ کی رخصتی سے نہ صرف منبر ویران ہوگیا بلکہ شعروادب اور خطابت کا ایک دور ختم ہوا۔
اسی ماہ مشہور ہندوستانی سیاستدان اور قائداعظم پر لکھی جانے والی کتاب کے مصنف جسونت سنگھ کا بھی انتقال ہوا۔
اکتوبر اردو ڈائجسٹ کے مدیر اور صحافی اعجاز حسن قریشی، اور سب سے مشہور جیمز بانڈ سیریز کے سب سے مشہور اور مقبول اداکار سین کونری بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔
نومبر میں افسانہ نگار مسعود مفتی، اشفاق سلیم مرزا، قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر فاروق علی خان اور مشہور ادیب اور دانشور غلام علی الا نہ کی خبریں آئیں لیکن سب سے بڑی خبرسرحد پار سے علامہ کلب صادق نقوی کی تھی۔ علامہ طالب جوہری، علامہ ضمیر اختر نقوی کے بعد عزا داران اہل بیت کے لیے یہ ایک اور بہت بڑا نقصان تھا۔
نومبر میں ہی پاکستان کی ہاکی کے ایک بہت بڑے ہیرو رشید جونئیر بھی اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کی خبر کم از کم میں نے تو کہیں نہیں پڑھی۔
دسمبر میں پہلی بڑی خبر ایک نفیس اور شریف سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے انتقال کی تھی۔ نغمہ نگار شبی فاروقی اگلے دن رخصت ہوئے۔ اور پھر یکے بعد دیگرے کالم نگار عرفان حسین، عبدالقادر حسن، عبدالحمید چھاپرا، ابولفرح ہمایوں کی خبریں آئیں تو دوسری طرف پنجابی فلموں کی مشہور ہیر ، اداکارہ فردوس بیگم بھی اللہ کو پیاری ہوئیں۔
اور ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ اردو ادب، افسانے اور تنقید کا ایک روشن ترین چراغ بھی گل ہوگیا۔ شمس الرحمان فاروقی ان شخصیات میں سے ہیں جن کا خلا کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ اردو ادب ان کے جانے سے یتیم ہوگیا ہے۔
رب کریم جانے والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے۔ ابھی سال ختم ہونے میں ایک دن باقی ہے ۔ خدا کرے یہ دن خیروعافیت سے گذر جائے ۔ اور اللہ نہ کرے کہ اگلے سال ایسا کوئی کالم لکھنا پڑے۔
تمام دوست احباب اور کل عالم کے لئے خیروعافیت، صحت وتندرستی ، امن وسلامتی، خوشحالی اور خوشیوں کی دلی دعا کے ساتھ نئے سال کی دلی مبارکباد۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...