یہ ایک تصویر تھی جو میں نے دیکھی اور میں دل گیر ہوا۔
میں دل گیر ہوا کہ کیا ہماری تقدیر یہی ہے؟
یہ تصویر کیا ہے، ہماری ساٹھ سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے۔ ہماری نفسیات، ہماری معاشرت، ہماری ذہنی سطح، ہماری ذہنیت کا اس سے بہتر اور جامع تر ذکر ناممکن ہے۔
اس تصویر میں کوئی خاص بات بھی نہیں۔ یہ عبدالرحمان چغتائی کے موقلم کا شہکار ہے نہ مغل منی ایچر کا نمونہ ہے۔ اس میں عام رنگ ہیں نہ آئل کلر ہیں اگر دیکھو تو ایک عام تصویر ہے جو پاکستان کے ہر گلی کوچے کی ہر وقت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر سمجھو تو یہ تصویر پاکستان کا سب کچھ ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی جغرافیہ بھی قسمت بھی، ماضی بھی حال بھی اور جانِ استقبال بھی!کیا ہے اس تصویر میں؟ ایک عام پاکستانی ہے۔ اس کے چہرے پر کرب اور الم نظر آ رہا ہے۔ درد کی شدت سے دانت نظر آ رہے ہیں۔ آنکھیں بند ہیں۔ گال کنپٹیوں تک کھینچے ہوئے ہیں۔ کندھے جْھکے ہوئے ہیں اس پر قیامت گزر رہی ہے افسوس! کہ قیامت آ نہیں رہی۔ وہ تین آدمیوں کے نرغے میں ہے۔ تینوں نے اسے قابو میں کر رکھا ہے۔ تین میں سے ایک پولیس کی وردی میں ہے دو ''سفید'' کپڑوں میں ہیں۔ ان دو سفید کپڑوں والوں میں سے ایک نے اسے پکڑا ہوا ہے۔ دوسرا سفید کپڑوں والا اس کے سر کے بال پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے۔ اتنی طاقت سے کہ سفید کپڑوں والے کا چہرہ بتا رہا ہے کہ اپنے جسم کا پورا زور لگا رہا ہے۔ وردی والا بھی بال کھینچ رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سفید کپڑوں والے نے بال سر کے اوپر سے پکڑ رکھے ہیں اور وردی والے نے سر کے پچھلے حصے سے بال پکڑ رکھے ہیں۔ دونوں کھینچ رہے ہیں اور جس کے بال کھینچے جا رہے ہیں وہ اذیت سے بلبلا رہا ہے۔ لیکن تصویر کا شہکار حصہ یہ نہیں۔ شہکار یہ ہے کہ ساتھ تین وکیل کھڑے ہیں، ان کے چہروں پر زمانوں اور جہانوں کا کرب ہے۔ قیامت کی بے بسی ہے، ہائے۔ ایسی بے کسی ہے کہ فنونِ لطیفہ کی پوری تاریخ میں غم کی ایسی تصویر کشی کسی نے نہیں کی۔ کیا لیونارڈو ڈا ونسی کیا مانی اور کیا بہزاد۔ ایسا شہکار کسی نے نہیں بنایا!۔
ان تین بے بس وکیلوں کے پیچھے پاکستان کے عام شہری کھڑے ہیں۔ حیرت سے انکے منہ کھلے ہیں۔ دہشت سے انکی آنکھیں پھٹ رہی ہیں۔ قوت و جبروت کے سامنے سب بے بس ہیں۔ اور یہ بے بس جو تصویر میں نظر آ رہے ہیں، تصویر واضح کر رہی ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی بے بس وہاں کھڑے ہیں لیکن وہ سارے تصویر میں نہیں آئے۔بس… یہ ہے پاکستان کی تاریخ، معاشرت اور پاکستان کا مستقبل… اس سے ایک ذرہ زیادہ نہ اس سے ایک نقطہ کم…
کراچی میں بارہ مارچ 2009ء کو یہ شخص جس کے بال کھینچے جا رہے ہیں، جو نرغے میں ہے اور جو چھ بازوؤں اور چھ ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے، یہ شخص پاکستان ہے، جس کے باسٹھ سالوں سے بال کھینچے جا رہے ہیں، اذیتیں دی جا رہی ہیں اور جو مسلسل نرغے میں ہے۔ یہ شخص پاکستان کا عوام ہے۔ یہ ہاری ہے، کسان ہے، مزدور ہے، طالب علم ہے، مڈل کلاس ہے پڑھا لکھا ہے، مڈل کلاس کی اور پڑھے لکھوں کی یہی وہ حالت ہے جس سے تنگ آ کر لاکھوں مڈل کلاسیے، لاکھوں پڑھے لکھے دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گئے ہیں۔ وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ان کی ذہانت، علم اور ہنر سے دوسرے ملک بہرہ ور ہوتے رہیں گے اور بال کھینچنے والے اس ذہانت علم اور ہنر سے ملک کو محروم رکھیں گے۔
لیکن یہ تین کون ہیں؟ یہ ہے اصل سوال۔ یہ تین … انہوں نے وردی پہن رکھی ہے یا ''سفید'' لباس میں ہیں… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو مہرے ، یہ تو ملازم ہیں، جنہوں نے ان تینوں کو اسی کام پر مامور کیا ہے، انہیں شناخت کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی شناخت ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ تین وہ ہیں جنہوں نے پہلے دن سے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ یہ تین کبھی یونینسٹ پارٹی تھے، پھر ری پبلکن پارٹی بنے، پھر کونسل مسلم لیگ بنے اور پھر یہ تین ہی تو ہیں جو قاف لیگ تھے! یہی تین تو ہیں جنہوں نے جرنیلوں کو دس دس بار ''منتخب'' کروانے کی خوشخبری دی تھی۔ یہی وہ ہیں جو کابینہ میں تھے اور چینی کا بحران جنم دے رہے تھے۔ پھر ان تین کے مالکوں ہی نے آٹا غائب کیا اور اب بجلی سے عوام کو محروم کر رہے ہیں اور خود جولائی میں رضائیاں اوڑھ کر سوتے ہیں۔
یہ تین شخص… جو ہمارے بال کھینچ رہے ہیں، وہ جرنیل جو ریٹائرمنٹ کے بعد کروڑوں میں کھیل رہے ہیں، وعظ کرتے ہیں مضامین لکھتے ہیں، ٹی وی پر تقریریں کرتے ہیں لیکن ان کے اثاثوں کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ تین شخص وہ ڈکٹیٹر ہیں جو اس ملک کے ماتھے پر کلنک کا نشان ہیں۔ یہ تین ان ڈکٹیٹروں کی اولاد ہیں جو پیرانِ تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں پر سوار ہیں۔ ہمارے مالک ہیں سراپا تکبر ہیں۔ ''میں'' ان کا تکیۂ کلام ہے۔ دولت ان کی لامحدود ہے اور ذریعہ معاش ان کا نامعلوم ہے!
یہ تین شخص… بال کھینچنے والے… اذیت پہنچانے والے۔ جن کے چہروں پر سفاّکی ہے… وہ پیر ہیں جن کے گھر روشن ہیں اور جن کے مریدوں کو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں۔ جن کے اخراجات مہینہ وار ان کے خلیفے چلاتے ہیں اور جو لوگوں کو باور کراتے ہیں کے اندھا انہیں دیکھے تو دیکھنے لگ جائے اور گناہگار دیکھے تو بخشا جائے۔ یہ تین وہ مولوی ہیں جن کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد وزارت لینا ہے اور مراعات کا حصول ہے اور جن کی عزت نفس اتنی بھی نہیں جتنی کسی چوپائے کی ہوتی ہے اور جنہیں معلوم ہے کہ لوگ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اوران کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ یہ تین مدرسوں کے وہ ''مالکان'' ہیں جن کی آمدنی اور خرچ لامحدود ہے، جو مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو قلیل ترین تنخواہیں دیتے ہیں۔ وہ اساتذہ… جو تنگ و تاریک مکانوں میں رہتے ہیں اور رات دن قال اللہ اور قال الرسول پڑھاتے ہیں اور غربت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن مالکوں کے ''صاحبزادگان'' شہزادوں کی طرح رہتے ہیں!۔
اور یہ تین بے بس بے کس وکیل… یہ قانون ہے۔ جو پامال ہوتا ہے۔ جو ہمارے عوامی نمائندوں ہمارے جرنیلوں ہمارے جاگیرداروں اور ہمارے حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہے۔ ہاتھ کی چھڑی ہے اور جیب کی گھڑی ہے ان کی ''حفاظت'' کے لئے شاہراہیں گھنٹوں بلکہ پہروں بند کر دی جاتی ہیں، ہسپتالوں کو جانے والے مریض مر جاتے ہیں۔ عورتوں کے بچے سوزوکی ڈبوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ زچے بچے شہید ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی ابھی تک نہیں بھولے کہ پنجاب کے قائم مقام گورنر کے لئے ٹریفک بند کردی گئی تھی اور سیالکوٹ اور وزیر آباد کے قریب ایک نوجوان… جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آنے کی غلطی کر بیٹھا تھا۔ ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گیا تھا اور اس کا کسی نے ماتم تک نہیں کیا تھا۔ جنرل مشرف جب بھی کراچی گئے، کئی مریض سڑکوں پر مر گئے لیکن مڈل کلاس لیڈر شپ کا دعویٰ کرنے والوں نے احتجاج تک نہ کیا۔ عوامی نمائندوں کا ٹریفک چالان کرنے والے پولیس کے سپاہی سزا پاتے ہیں اور یہ مسلسل ہو رہا ہے۔ کسی کان کی لو سرخ ہوتی ہے نہ کوئی آنکھ جھپکی جاتی ہے۔ یہ بے بس وکیل… وہ قانون ہے جو اس ملک میں صرف کمزوروں کیلئے ہے۔ چیف جسٹس کی بیٹی اس سے مستثنیٰ ہے اور بہت سے دوسرے مستثنیٰ ہیں۔
اور اے اہل وطن! جو لوگ مسلسل تمہارے بال کھینچ کر تمہاری تذلیل کر رہے ہیں، تمہیں اذیت دے رہے ہیں۔ انہیں پکڑو… خدا کے لئے انہیں پکڑو… ورنہ کل تمہارے بچوں اور تمہاری بیٹیوں کے سروں کے بال بھی ان کے ہاتھوں میں ہوں گے!