میں جب بھی جنم بھومی جاتا ہوں تو کئی احباب سے ملاقات کی خواہش لیے جاتا ہوں،کچھ سے مل پاتا ہوں اور کچھ سے ملاقات ممکن نہیں ہوپاتی۔ حالیہ وطن یاترا تو گویا ایسی ہر خواہش کو حسرت میں بدلنے والی تھی۔ پاکستان پہنچتے ہی مجھے کرونا نے جکڑ لیا۔کئی دن گھر پر ہی گزارنے پڑے اور دو ہفتوں میں آخری چند روز ہی باہر نکل پایا۔ یوں محدودے چند احباب سے ہی ملاقات ہو پائی یا اُن سے جن کے ہاں کوئی فوتگی ہوئی تھی اور میں نے بغرضِ تعزیت حاضری ددی۔ میں نے ایاز کیانی کو اپنی آمد کی اطلاع دی اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو اُنھوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کیا اور میرے آبائی گھر پر تشریف لائے۔ایاز کیانی میرے پڑوسی ہیں،وہ یوں کہ اُن کا گاؤں پاک گلی میرے گاؤں سے ملحقہ ہے اور ہمارا اور اُن کا گھر آمنے سامنےواقع ہیں۔ جب میں کالج گیا تھا تو وہ پہلے سے کالج میں غالباََ بی اے کے سٹوڈنٹ تھے۔ ہم ایک ہی طلبا تنظیم کے ساتھ وابستہ تھے،اس لیے اُٹھنا بیٹھنا بھی تھا۔ تب میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ ایک لکھاری ہیں۔ ممکن ہے اُس دور میں اُن کی تحریریں کہیں چھپی ہوں مگر مجھے یاد نہیں پڑ رہا کہ وہ میری نظروں سے گزری ہوں۔ اُنھوں نے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کیا تھا ۔ جس دور میں میں نے وطن سے ہجرت کی تب وہ کالج میں بطور لیکچرر تعینات ہو گئے تھے۔گزشتہ دہائی میں سوشل میڈیا کے توسط سے اور اخبارات کے آن لائن ایڈیشنز میں اُن کی کچھ تحریریں مجھے پڑھنے کو ملیں جو مجھے دلچسپ لگیں۔ وہ کالج کے مطالعاتی یا سیاحتی دوروں کی سفرنامہ نما رودادیں اور دیگر مضامین تھے ۔ اس مرتبہ ملاقات پر اُنھوں نے اپنا سفرنامہ ‘‘تماشائے اہل کرم‘‘ تھمایاجسے واپسی پر جہاز کے سفر میں جستہ جستہ دیکھا ۔ بلجیئم پہنچ کر اس کا باریک بینی سے مطالعہ تو کیا مگرغم روزگار میں بُری طرح اُلجھ جانے اور خرابی صحت کے باعث تصنیف کے حوالے سے کچھ لکھنے میں بہت تاخیر ہوگئی۔ اس دوران احباب تصنیف ہذا کی خاصی دُرگت بنا چکے تھے۔ چلیں اس تاخیر کا ایک ففائدہ ضرور ہوا کہ نثر نگاری کے فن سے خُوب آشنا ہمارے ‘‘بڑے بھائی نما‘‘ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز صادق کا میری حد تک وہ ‘شکوہ‘ تو دُور ہوا کہ ‘‘ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کسی دوست کی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے تو پروفیسر عبدلصبور شیدائی، ڈاکٹر ظفر حسن ظفر،ڈاکٹر محمد صغیر خان اور برادرانِ عزیز قمر رحیم،نقی اشرف اور ممتاز غزنی تابڑ توڑ تبصروں پر اُتر آتے ہیں۔‘‘ تماشائے اہلِ کرم پر جس بڑی تعداد میں اہل قلم نے تبصروں پر تبصرے لکھے ہیں،یہ اعزاز تو بلا مبالغہ ہمارے ہاں تخلیق ہونے والی کسی شاہکار تصنیف کو بھی حاصل نہیں ہوا۔یہ ایاز کیانی کے لیے لکھاریوں کے دلوں میں محبت کا ثبوت تو ہے ہی مگر اس میں اُن کے قلم کی تاثیر کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ میں بارہا یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ تصانیف پر تبصرے اہلِ علم کو زیبا ہیں۔ میں ایک قاری ہوں ،گاہے اپنے ہاں کے کسی لکھاری کی کوئی اچھی کتاب پڑھتا ہوں تو اپنی طالبِ علمانہ رائے کو تحریر کا روپ دینے سے اپنے آپ کو باز نہیں رکھ پاتا۔آپ مجھے کتابوں کا پروموٹر بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجھے کتابیں اچھی لگتی ہیں اور معیاری ادبی تخلیقات تو بہت ہی اچھی لگتی ہیں۔ میں آج انٹرنیٹ کے دور میں بھی کتابوں کی ہارڈ کاپیز کا بار اُٹھائے پھرتا ہوں۔”تماشائے اہلِ کرم” پر بہت لکھا گیا ہے،شاہکار تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ میں نے بڑے شوق اور انہماک سے اُنھیں پڑھا اور بعض کو تو کئی کئی مرتبہ پڑھ کر لطف اُٹھایا۔ تصنیف کے حوالے سے شائد ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو لکھاریوں سے اوجھل ر رہا ہو۔ یہ سفر نامہ راولاکوٹ سے شروع ہوکر،راولپنڈی،لاہور،سرائیکی وسیب کے شہر ملتان ،چھوٹے شہروں اور قصبوں سے ہوتا ہوا کوئٹہ،وہاں سے کراچی اور پھر واپس راولاکوٹ آکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ایاز کیانی نے اپنی رودادِ سفر خوبصورتی سے بیان کی ہے اور خُوب منظر کشی کی ہے۔تعلیمی اداروں اور تاریخی مقامات کے ححوالے سے جو معلومات دی ہیں،وہ اس بات کی غماز ہیں کہ مصنف نے لکھنے سے قبل ان سب چیزوں کے بارے میں مطالعہ کیا اور جان کاری لی ۔ ایاز کیانی کی تحریر نثرنگاری کی راویتی غلطیوں سے پاک ہے۔ ایاز کیانی اُردو کے اُستاد ہیں۔ ایاز کیانی کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے کہنے دیجیئے کہ اُردو پڑھانے والوں کی تحریر کم از کم اس معیار کی تو ہونی ہی چاہیے۔کتاب شائع کرنے والے ادارے ‘‘ پریس فار پیس فاؤنڈیشن‘‘ یو کے نے خوبصورت ڈیزائننگ کی ہے،ٹائٹل دیدہ ذیب اور سب سے بڑی بات یہ ہے کتاب میں کمپوزنگ کی کوئی غلطی بھی ڈھونڈنے کو نہیں ملتی۔ کتاب میں نامور لکھاریوں کی آراء بھی شامل ہیں۔ اس بات سے میرا مکمل اتفاق ہے کہ کتاب مقصدیت سے خالی نہیں ہ ہونی چاہیے مگر کتاب میں مقصدیت کی بھرمار بھی کتاب میں قاری کی دلچسپی میں کمی کا باعث بنتی ہے،جس کا مجھے ہلکا سا تاثر ملا۔ ساری باتیں ایک ہی تصنیف میں سمو د دینے سے مزید تصانیف کی تخلیق کی گنجائش گھٹتی ہے اور تخلیق ہوں تو اُن کے یکسانیت کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ خدانخواستہ یہ ایاز کیانی کی کوئی آخری کتاب تھوڑی ہی ہے۔ مجھے اُمید ہے ایاز کیانی مزید لکھتے جائیں گے اور اُن کی مزید تصانیف منظرِ عام پر آئیں گی۔ خدا اُنھیں کامرانیوں اور خوشیوں سے نوازے۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...