ایک بات میں اپ احباب کو واضع کر دوں
ہم بے نظیر کی حکومت سے شروع کرتے ہیں اور نواز شریف کی آخری حکومت تک آتے ہیں۔ سب کئی حکومتوں کو ایک ادارے نے ختم کیا اپ نے کبھی دیکھا کہ ایاز میر نے کبھی کسی سیمنار میں کسی اجتماع میں ا کر کہا ہو کہ یہ سب ایک ادارہ کر رہا ہے۔ اپنے کسی کالم میں استعاراتی طور پہ ذکر کیا ہو تو کیا ہو مگر کسی سیمنار یا اجتماع میں اس طرح نہیں کہا۔
سوال یہ ہے کہ کل اس سیمنار میں کیوں کہا۔ جس کے مہمان عمران تھے۔
وہ اس لیے کہ اس سمینار میں ایاز میر بطور صحافی اور بطور دا نشور نہیں وہ اس میں سابقہ فوجیوں کے اس گروپ کے ایک نمایندہ کے طور پیش ہوئے تھے جو فوج کی موجودہ قیادت کے اس فیصلے کے خلاف ہیں کہ فوج کی موجودہ قیادت نے عمران خان کو چھوڑ دیا ہے۔
ہم پچھلی حکومتوں کو چھوڑتے ہیں بے نظیر سے شروع کرتے ہیں۔ اپ بتائیں فوج سے پینشن یافتہ گروپ نے کبھی کھل کر اس وقت کی فوجی برسراقتدار قیادت کی مخالفت کی تھی؟ جنہوں نے بے ںظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کو برطرف کیا تھا۔ پھر کیا وجہ اس دفعہ اس گروپ نے موجودہ فوجی برسر اقتدار قیادت کی مخالفت کی ہے۔ سابق فوجی اپنی ویڈیو بنا کر راز کھول رہے ہیں۔
کیونکہ فوج میں ایک رینک کا ایک آدمی ہے جو عمران خان کے ساتھ مل کر فوج کی ایک لمبی اونچائی کا جھولا جھولنے کا پروگرام بنائے بیٹھا تھا۔
ایاز میر نے کل کی تقریر میں نا صرف کھل کو فوج کی موجودہ قیادت کے اس فیصلے کے خلاف کھل کر بات کی بلکہ ساتھ ساتھ اپنے سیاسی نظریات کا بھی اظہار کر دیا اور کھل کرکہا
ہم شہباز شریف ۔ حمزہ شہباز آصف زرداری اور بلاول کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ آپ اٹھیں آپ چے گواریہ بنیں۔۔ بھی ۔
بندہ پوچھے آپ کون ہوتے یہ فیصلہ کرنے والے کہ آپ کسی کو دیکھنا ہسند نہیں کرتے۔ لہذا وہ اس کائنات میں نظر نہیں آنا چاہیے ۔
اس تمام باتوں کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یر آدمی کو اپنے نظریات رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ اگر اس پہ حملہ اس کے سیاسی نظریات کی وجہ سے کیا ہے تو میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں اور اگر ایک عام شہری کے طور پر کسی مجرموں نے ایاز میر پہ حملہ کیا ہے تو میں اور زیادہ اس کی مذمت کرتا ہوں اور تمام صاحب ضمیر لوگوں سے التجاہ کرتا ہوں کہ وہ اس غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...