دس محرم سن 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام نےاپنے اصحاب و انصار سمیت دفاع اسلام میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی اور کشتی نجات کا حقیقی مفہوم بتا گئے۔ اس سانحہ کو ہوئے تیرہ صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی محرم کی آمد پر واقعہ کربلا کی یاد اپنے مخصوص جذبہ و ولولہ سے تازہ کی جاتی ہے۔ یہ ایک زندہ معجزہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی شہدائے کربلا کے تذکروں پر زمانے کی ضعیفی نہ آئی، اس کی وجہ، اس کا جاویدانہ کرداراور 'فاذکرونی اذکرکم' کی تفسیر ہے۔
ذکر کربلا، انسانیت کی پکار ہے، اسی لیے، عزائے حسین محور اتحاد بنا ہوا ہے۔
در حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے
برصغیر کی تاریخ میں بہتیرے ایسے محبان حسین علیہ السلام کا وجود ملتا ہے، جنہوں نے مذہب و ملت کی ڈیڑھ اینٹ دیوار سے بلند ہوکر حسین کا غم منایا ہے۔فی زمانہ، مختلف مقامات پر ہندو عزادار اور سنی المذہب حسینی دستے اپنے اپنے انداز میں محسن انسانیت کو خراج محبت پیش کرتے ہیں اور تعزیہ داری و نوحہ و سلام کا نذرانہ مودت پیش کر کے دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ در حسین پر آؤ یہاں انسانیت وجود پاتی ہے۔حر کی صورت آؤ، سردار جناں تمہار چشم براہ منتظر ہے، شہزادی کونین شفاعت کریں گی، یہاں قوم و ملت کا امتیاز نہیں، قدم بڑھاؤ، وہب کلبی بنو اور پیغام انسانیت و ہمدردی بکھیرتے جاؤ۔
یہ روشن حقیقت ہے کہ کربلا انسانیت کی معراج ہے جہاں اصحاب خود کو تاریکی میں بھی تلاش لیتے ہیں، جب تاریکی کا ہرسو قبضہ ہوگیا تو ہیرے چمک اٹھے اور اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرنے لگے۔ سعید بن عبداللہ عرض کرتے ہیں:
'خدا کی قسم! ہم (ہرگز بھی) آپ کو تنہا نہ چھوڑیں گے تاآنکہ اللہ جان لے کہ ہم نے پیغمبر خدا کی عدم موجودگی میں اس کی حرمت یعنی آپ کا پاس کیا۔بقسم خدا! اگر مجھے علم ہوجائے کہ (اس راہ میں) میں قتل کیا جاؤں گا،پھر زندہ کیا جاؤں گا، پھر جلادیا جاؤں گا اور پھر میرے وجود کے ذروں کو ہوا کے حوالہ کردیا جائے گا، اگر ستر دفعہ یہی عمل تکرار کیا جائے پھر بھی میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ آپ کی رکاب میں قتل کردیا جاؤں۔
(طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۱۸۔ خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیہالسلام، ج۱، ص۳۵۰۔ ابن طاووس، علی بن موسی، الملہوف، ج۱، ص۱۵۳۔ سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین، ج۱، ص۲۱۷۔ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ج۳، ص۷۷۔ موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہالسلام، ج۱، ص۲۱۳- ۲۱۴۔ ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۱۰۷۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۸۵۔)
ایسے ہی اصحاب با وفا کے لیے امام نے فرمایا تھا:’فانی لااعلم اصحابا اوفی ولا خیرا من اصحابی‘
بے شک! میں اپنے اصحاب سے باوفا اور بہتر کسی اصحاب کو نہیں جانتا۔(الارشاد ج 2 ص 91)
شہدائے کربلا اگر چہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے مگرذات حسین نے انہیں اتحاد کی تسبیح میں یوں پرودیا تھا کہ پھر کسی قسم کے اختلافات کا وجود ہی عدم ہوچلا۔ انہوں نے بتلاتا ہے کہ حسین مرکز اتحاد ہے، گذشتہ چند برسوں سے کربلا میں اربعین حسینی کے بین الاقوامی مجمع میں’الحسین یوحدنا‘اور’حب الحسین یجمعنا‘کا ہیش ٹیگ چار دانگ عالم میں پیغام انسانیت پہونچا رہا ہے اور یوں محبان حسین متواتر پیغام کربلا اور مقصد حسینی کی نشر و اشاعت میں کوشاں ہیں۔
آپس میں جوڑے جانے کے لیے کیا کیا تدابیر اور حکمت عملی اپنائی جاتی ہے پھر بھی ایک خلش سی رہ جاتی ہے، ہمارے درمیان، بر صغیر ہند و پاک میں۔مدرسہ امام خمینی، قم میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی تین اہم جماعت کا اجلاس طے پایا۔ مجلس وحدت مسلمین(ایم۔ڈبلیو۔ایم) بھی اس میں شامل تھی، یہ اتحاد کی جانب ایک اچھا قدم ہوتا مگر نتائج نے کچھ اور ہی ثابت کیا۔ ہوا یہ کہ یہ الگ الگ دنوں میں منعقدہ جلسہ آپسی خلش کی نذر ہوگیا، اس میں ہر کوئی صرف اپنے ہی جلسہ میں حاضر رہا جبکہ دوسرے کی میٹنگ میں غیرحاضر ۔اب اتحاد کجا۔۔۔!؟
کم و بیش یہی صورت حال ہمارے یہاں بھی ہے، ماہ محرم سے قبل آپسی حالات معمول پر رواں رہتے ہیں مگر ایام عزا آتے ہی مجالس و انجمن میں اختلاف کو جگا دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات پیدا کرنے میں دشمن کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ہمارا سب سے بڑا اور کھلا دشمن شیطان ہے۔ارشاد الہی ہوتا ہے:’ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا‘
بے شک ! شیطان تمہار ادشمن ہے سو اسے دشمن ہی سمجھو ۔ (سورہ فاطر ؍ ۶)
شیطان تن تنہا کب تک اور کہاں تک یہ سب کچھ کرتا سو اس نے اپنے کچھ شریک کار پیدا کرلیے۔’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جنات و انسان کے شیاطین کو ان کا دشمن قراردے دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کے لئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں ۔ ‘(سورہ انعام )
در حقیقت، ہمارے گردوپیش،انسانی شکل میں شیطان کی ترجمانی کرنے والے گشت کرتے رہتے ہیں تعجب یہ کہ ان کا رسوخ منبر تلک ہوچلا ہے۔مولانا کلب صادق صاحب کا بیان ہے:’اگر منبر سدھر جائے تو معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا۔‘ مگر مشکل تو یہی ہے کہ اب تو وہاں سے بھی فسادات اگلے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہمارے آپسی تعلقات فاصلے پر فاصلے پیدا کئے جارہے ہیں۔ اب وہ ماضی جیسا بین الاقوامی ماحول نہیں رہا، ان زہر آلود بیانات نے دیگر مذاہب تو دور خود شیعہ کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔لہذا علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے مطالب پیش کرنے سے احتیاط برتنی چاہیے جو دوریاں ایجاد کرتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ فاصلوں کو قربتوں میں تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
“