اے وقت گواہی دے ہم لوگ نہ تھے ایسے
ہیں جیسے نظر آتے ہم لوگ نہ تھے ایسے
زبان کی گواہی اب تو بالکل ہی ناقابل اعتبار ہو چکی ہے بلکہ جعلی ڈاکٹریت کے دور میں کون سی دستا ویز مستند سمجھی جاۓ۔۔۔ پھر بھی۔۔؎ اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد۔۔ نہ میں مورخ نہ سرکاری گواہ۔۔بس اس ملک کے سب خاموش تماشایؑ کی حیثیت رکھنے والوں کی طرح وہی سنا یا بتا سکتا ہوں جو لوح ایام پروقت نے لکھا اورمٹایا نہیں جاسکتا۔۔حالنکہ سرکاری پریس ریلیزوں تحقیقاتی اداروں اور کمیشنوں کی ان گنت رپورٹوں اور چند زر خرید سرکاری تاریخ سازوں کی تحریروں میں اتنا جھوٹ لکھا گیا کہ سچ آٹے میں نمک کی طرح گم ہوگیا۔پھر بھی یہ ممکن نہ تھا کہ جو کھلی آنکھوں سے بقایمی ہوش و حواس سب دیکھ چکے ان سب کے حافظے میں واقعات کی اصل صورت یوں محفوظ ہے کہ اسے نوشتہؑ تقدیر کی طرح بدلنا ممکن ہی نہیں
میں دو قومی نظریےکا حوالہ دۓ بغیر۔۔۔۔ جس کے (موجود اور غیر موجود)۔۔ مثبت اور منفی پہلو پربحث کے لۓ کچھ لوگ آج 67 سال بعد بھی اپنی دانشوری کی دکان سجاۓ ہوۓ ہیں ۔۔ میں ایک دعوے پر قایم رہوں گا کہ۔۔ ہم لوگ نہ تھے ایسے ہیں جیسے نظر آتے۔۔ صرف ذاتی مفادات کی خود غرضانہ دکانداری کیلۓ ھمیں ایسا بنا کے پیش کیا گیااورہمارے سامنے وہ آیینہ رکھا گیا جس میں ہمیں اپنی مسخ شدہ صورت ویسی ہی نظر آۓ جیسی وہ کیتے تھے کہ ہے اور ہماری نظر ان کے جھوٹ کو سچ مانے اور اپنے سچ پر یقین سے محروم ہو جاۓ۔ اگلے مرحلے میں انہوں نے اپنی صناعی اورصورت گری کے ہنر سے ویسا ہی بنا بھی دیا۔۔۔جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتے تھے
اس خط کے مندرجات کو دیکھۓ۔ میں ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہوں چنانچہ انکار نہیں کروں گا کہ اس دور کے ان گنت پسماندگان کی طرح میں بھی اس شخص کی ذہانت قایدانہ صلاحیت اور سیاسی بصیرت کا قایل تھا اور ہوں۔۔لیکن یہ ثابت کرنے کے لۓ میں نے یہ جعلی دساویز بنایؑ نہیں۔۔ اس میں ایک سینیٹر کو مخاطب کیا گیا ہے (جس کا نام عمدا" حذف کیا گیا ہے ) کہ آُپ کے ذمے 2039۔71 روپے کا ٹیلی فون بل ہے اور کراۓ کی مد میں 71۔6039 روپے واجب الادا ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر کی حیثیت سے یہ ہرگز آپ کو زیب نہیں دیتا۔۔۔۔
ہا ہا ہا۔۔ پاناما لیکس کے تناظر میں دیکھۓ۔۔ بلوچستان کے سیکرتری خزانہ کے گھر سے برآمد ہونے والے 73 کروڑ کے نوٹوں کی تصویری خبر سے موازنہ کر کے پڑھۓؑ۔۔ سندھ کے برطانیہ بھاگ جانے والےایک وزیر کے گھر سے تین کروڑ نقد برآمد ہونے کی خبرسے ملاییۓ۔۔۔ ۔۔ بچاری مطلوم حسینہ ایان علی کے 5 لاکھ ڈالرکے ساتھ ؎ اڑنے نہ پاۓ تھے کہ گرفتا ہم ہوۓ ۔۔۔ والی خبر دیکھۓ۔۔یہ خط لظیفے سے کم تو نہیں ۔۔ لیکن اس پر اکتفا نہ کریں۔۔ اب کسی بھی اخبار کی پرانی فایل تک رسایؑ "ایک کلک" کی مسافت ہے۔ کویؑ خبر تلاش کیجۓ کہ فلاں وزیریا بیوروکریٹ کے فلاں ملک میں جایداد خریدنے یا کسی غیر ملکی بنک میں سرمایہ کاری کا پتا چلا ہے۔۔آپ کو مایوسی ہوگی۔1980تک آپ کو کچھ نہیں ملے گا
۔۔کچھ نام ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے بھی برطانیہ میں جایداد رکھتے تھے۔۔ وہ انگریز کے پٹھو کہلاتے تھے مثلا" پنجاب کے ٹوانے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے مقابلے پر یونینسٹ پارٹی بنا رکھی تھی اور یہ پاکستان مخالف تھے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے نہرو کا جس نے آزادی ملنے سے قبل ہی اعلان کردیا کہ بھارت میں جاگیر داری کا خاتمہ ہو جاۓ گا۔۔اور ہوا۔۔تب یہ گھبرا کے قاید اعظم کی طرف دوڑے۔سرحد میں کانگریس کی حکومت تھی جس نے پاکستان میں شمولیت کی مخالفت کی تھی،پاکستان بنا تو قاید اعظم نے بلا تاخیر ان دونو سوبوں کی حکومتوں کو بر طرف کیا۔۔یہ سچ تو کتابوں میں لکھا ہے کہ صرف سندھ اور بنگال کی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرار داد کی منظوری دی تھی
جو نہیں لکھا ہے یہ ہے کہ جب ایک پورا ملک ملا تو کچھ مفا پرستوں کا ایک "اتحاد ثلاثہ" وجود میں آیا جس نے قاید اعظم ۔ لیاقت علی اور ناظم الدین ( اس دور کا واحد حاجی) جیسوں کو ٹھکانے لگانے کی بہترین منصوبہ بندی کی۔۔(کچھ لوگ اسے " ملا۔۔ملٹری۔ جاگیردار اتحاد" بھی کہتے ہیں)۔اول الذکر 71 سال کا اور بیمار تھا ۔اسے غیر فعال کردیا گیا اور وہ زیارت میں مرگیا ( سوالیہ نشان اس پر بھی ہے ؎ اب یہ کہانی عام ہویؑ ہے سنتا جا شرماتا جا) دوسرا ذرا پھوں پھاں دکھاتا تھا کہ وزیر اؑعظم ہوں۔اسے لاکھوں گواہوں کی موجودگی میں شہادت کے منصب پر فایؑزکیا گیا۔۔تفتیش کی غیر سرکاری اور سرکاری رپورٹ میں وہی فرق ہے جو سیاہ اور سفید میں ہوتا ہے لیکن یہ الگ سنسنی خیزکرایم اسٹوری ناول ہے۔ یس،،کہانی نہیں ۔۔ ناول
تیسرے کو اسپیکر کی کرسی سے اٹھا کے باہر پھینکا گیا اور وہ جان کے خوف سے برقعہ پوش ہو کے اپیل کرنے سپریم کورٹ گیا (لال مسجد کے مولانا کی برقعہ پوشی ہماری ' تاریک '۔۔۔ میرا مطلب ہے تاریخ کا پہلا واقعہ نہ تھا) ۔۔ مگر ہونا کیا تھا۔۔جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔۔تو سپریم کورٹ میں جہاں چیف جسٹس کارنیلیس کا نام روشنی کا مینار ہے وہاں دوسرے کا نام "نظریہ ضرورت" کی ایجاد پر دور ظلمت کے بانی کی طرح ہے۔پہلا غیر مسلم تھا ۔لاہور کے فلیٹی ہوٹل میں جیا اور مرا مگر اس جگہ کی حیثیت اب قومی یادگار کی ہے اور اس کی پرانی گاڑی سپریم کورٹ میں انصاف کی علامت بنی کھڑی ہے،لاہور میں ایک انڈر پاس سے گزرو ؎ تو نام اس کا فروزاں دکھایؑ دیتا ہے۔۔۔۔ دوسرا مسلمان تھا اور اس کے دامن پر یوم حشر بھی ؎ جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔۔ کہ جناح کے پاکستان کا یہ بھی ایک قاتل ہے
تو صاحبو۔۔ کہانیوں کو سچ ماننے والے معصوم لوگو۔۔ خوش رہو۔۔ ناچ گانے میں مگن رہو۔۔ کتاب کے چکر میں پڑ کے زندگی کو روگ بنانے کا حاصل؟؛؛اسے سچ جانو کہ پہلے 7 سال میں قتل/ بر طرف کۓ جانے والے 7 وزیر اعظم نا اہل اور کرپٹ تھے۔۔جیسے کہ اب ہیں،بھٹو ۔قزافی۔صدام حسین ۔ حسنی مبارک سب کرپٹ تھے اور اسی انجام کے مستحق۔۔ ان سے نجات ملی تو سب کتنا اچھا ہوگیا۔۔سب ملک جنت کا نمونہ بن گۓ
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1024082887673729