اے وقت گواہی دے ہم لوگ نہ تھے ایسے
تیوہار کا متبادل لفظ مجھے اردو یا انگریزی میں نہیں ملا
تیوہار مذہبی۔قومی یا تہزیبی ہو سکتے ہیں اور مختلف ممالک میں ان کی اہمیت کا انداز مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایک بات جو کسی بھی تہوار کو مقبول اور کامیاب کرتی ہے وہ ان کا غیر متنازعہ ہونا ہے۔جب میں یادوں کے در کھولتا ہوں تو دیکھتا ہوں ؎ گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
۔کل شب برات تھی جو غیر متنازعہ طور پر ہمارا مذہبی تہوار تھا۔۔اور اس کے مقابلے پر ہندووں کا تہوار تھا دیوالی۔ یہ 70 سال پہلے غیر منقسم ہندوستان کا عام تاثر تھا
شب برات کا غیر متنازعہ ہونا اس تہوار کی برصغیر ہند و پاک کے طول و عرض میں کامیابی کا سبب تھا۔یہ ممکن ہے کہ مختلف خاندانوں اور صوبوں میں شب برات منانے کا طریقہ تھوڑا بھت مختلف ہو لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت مسلماں کا مظلب صرف مسلمان لیا جاتا تھا اور کسی قسم کا فقہی گروہی یا نظریاتی اختلاف اس وحدت کی راہ میں حایل نھیں تھا۔نہ میں نے سنا نہ پڑھا کسی فرد۔عالم یا جماعت نے حلوہ پکانے پر سوال اٹھایا ہو۔فاتحہ خوانی کے طریق یو اعتراض کیا ہو۔قبرستان جانے کے شرعی حوالے پر بحث کی ہو،آتش بازی اور موم بتیاں روشن کرنے کے مسایل پر اختلاقی بحث یاقانونی جھگڑا کھڑا ہوا ہو۔۔نو سر۔۔میں قطعیت سے کہ سکتا ہوں کہ چودھویں شعبان کو شب براٹ ایسے ہی منایؑ جاےؑ گی اور منایؑ جاتی رہی۔اس اجتماعیت میں طاقت تھی،سماجی شتوں کی مضبوطی اور خاندانی روایات کا بندھن تھا
یہ ہو سکتا ہے کہ اب آپ کو یہ مضحکہ خیز لگے لیکن 1975 میں میرے والد کی وفات تک شہر ملک اور وقت سب بدل جانے کے باوجود میرا اپنا خاندان سوچ کی کیسی اکایؑ تھا۔ ۔میری ماں صبح سے حلوے تیار کرنے میں لگ جاتی تھی۔ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا نہیں لیکن کافر فرنگی کے دور میں مسلمانوں کو شب برات کے علاوہ شب معراج اور آخری چہار شنبہ (بدھ ) کی چھتی ملتی تھی چنانچہ والد حلوہ سازی کے اسباب کی فراہمی یقینی بناتے تھے۔سوجی کا عام حلوہ جو اج ناشتے میں پوریوں کے ساتھ ملتا ہے۔۔ہر گھر میں لازمی تھا، میری ماں کی خصوصی مہارت مونگ کی دال کا حلوہ تھا جو اس کے جیسا تو پھر کویؑ نہ بنا سکا لیکن میرے چھوٹے بھاٰیؑ کی بیوی نے مسلسل کوشش سے وہی زایقہ پیدا کر لیا ہے( وہ آلو گوشت بھی ویسا ہی بنا لیتی ہے)۔۔میری بیوی نے اپنے انداز میں بیسن کا قتلیوں والا حلوہ بنانے میں نام پیدا کیا ۔ہر گھر اور ہر ہاتھ کا ذایقہ منفرد تھا اورایک طرح کے مقابلے کی فضا نے شب برات کے حلوے کو بے حد اہم کر دیا تھا جو فاتحہ کے بعد ہر گھر سے آتا تھا اور ہر گھر میں جاتا تھا۔اس سے معشرتی قربت کا ماحول پڑوس اور محلے کی اہمیت کو بلا لحاظ مزہب و ملت بڑھاتا تھا،،اب حلوہ شرعی اور غیر شرعی کی بحث میؐں گھسیٹا جاتا ہے وہ ملا سے منسوب کر دیا گیا ھے آوٹ آف ڈیٹ ہوگیا ہے
فاتحہ خوانی کا انداز ملاحظہ ہو۔ والد اور خانداں کے سب لوگ مغرب سے پہلے سر ڈھانپ کر ایک دایرے میں بیٹھ جاتے تھے والدہ پیلے دو پرت والی روٹی اور سادہ حلوا سامنے کرتی تھیں ،دوسری فاتحہ کیلۓ روٹی سالن۔تمام حلوے اور ایک پانی کا گلاس رکھا جاتا تھا۔عام تاثر ماحول کا یہ بنتا تھا جیسے بزرگوں کی ارواح موجود ہیں۔پانی تھوڑا تھوڑا سب بچوں کو پلایا جاتا تھا،پھر حلوے پر یلغار مسجد اور محلے میں تقسیم۔۔۔مغرب کے بعد بڑے چھوٹے سب قبرستا ن۔۔تمام قبروں پر گل پاشی،اگربتی سلگانا چراغ جلانا اور فاتحہ خوانی کے بعد واپسی۔۔ہمارے لۓ آتش بازی کی سنسنی خیزی پٹاخوں کا شور۔آسمان تک بلند ہونے والی پھلجڑی کی ستارہ افشانی، گھر کی چھت کی منڈیروں۔چھجوں۔سایبانوں پر رنگ برنگی موم بتیوں کی روشنی جن کا موم صبح جمع کیا جاتا تھا۔۔بڑے ہمارے سونے کے بعد عبادت میں مصروف۔۔یہ تھی شب برات جو اب۔۔ ؎ ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ میرے جیسے ہر بوڑھے کا نوسٹیلجیا ہے
ایک بچے نے سب سے پہلے قبر پر اگر بتی سلگانے پر اعتراض کیا۔۔ پھر دوسرے نے پکی قبر پر۔۔ تیسرے نے سرہانے کھڑے ہونے پر تو چوتھے نے زیر لب دعا پر۔۔اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔۔غلط کون کس کو کہے ۔۔۔ سوال اور اختلاف سب کا حق ہے۔۔ہر چیز بدعت اور ہندووں کے ساتھ رہنے کی معاشرتی خرابی بنی۔۔اور انہی معترضین نے شادی بیاہ میں ھندوانہ رسوم کو اصراف کو اوردیگر ایک سوایک خرابیوں کو کلچر کے نام پر اپنالیا۔۔ مذہب اور عقیدے نے تو وہ تقسیم در تقسیم کی کہ مساجد مسلمانوں کی نہیں فرقوں کی ہو گییؑں۔عیدیں تین تین ہونے لگیں اور کفر کے فتوے دیکھے جاییں تو مسلمان بس وہی تھے جنہوں نے اسلام کے نام پر پاکستان بنایا تھا اور اس کے لۓ قربانیاں دی تھیں۔ بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں جو جھٹلانا محال ہے۔۔ پھلے قوم کو ملک کی آرزو تھی۔ اب ملک کو قوم کی آرزو ہے۔۔ گوروں کے ملک اور چین میں اسلام نہیں مگر مسمان ہیں ۔۔پاکستان میں اسلام ہے مگر مسلمان نہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ
میں جانتا ہوں ۔۔۔ کیونکہ تاریخ کا چشم دید گواہ ہوں۔۔ ؎ ہیں جیسے نظر آتےہم لوگ نہ تھے ایسے۔۔ مفاد پرستی کی سیاست نے ہمیں ایسا بنایا۔۔وہ سیاست جس میں عوام ہی نہیں حاکم بھی شطرنج کے مہرے تھے۔۔اور آج بھی ہیں
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس پوسٹ سے بحث منآظرے اوراختلاف کا پنڈورا کا باکس کھل سکتا ہے جو ہرگز میرا مقصود و مطلوب نہیں ۔۔ میں نہ سخن فہم نہ غالب کا طرفدار۔۔ نہ تیر الزام کا سزاوار ۔نہ سنگ دشنام کا حقدار۔۔ لیکن ۔ ؎ جو آۓ آۓ کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1023596291055722