اے سازش کرم‘ شکریہ ‘ مہربانی!
میں نے بیٹھتے ہی پروفیسر صاحب سے پہلا سوال کیا''کیا اہل مغرب ہمارے خلاف سازشیں نہیں کر رہے؟‘‘
پروفیسر صاحب نے نہایت مختصر سا جواب دیا''نہیں‘‘۔ اور میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ پروفیسر صاحب مجھے شروع دن سے ہی ملک دشمن لگتے ہیں۔ ہربندہ جانتا ہے کہ ہمارے ملک کے خلاف بیرونی دنیا کیا کیا سازشیں کررہی ہے لیکن پروفیسر صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔میں نے تو کبھی ان کے بالوں میں بھی جوں نہیں رینگتی دیکھی…بال ہوں تو جوں رینگے۔میں نے طنزیہ لہجے میں پوچھا''یہ ہمارے ملک میں دنگے‘ فساد‘ مسلکی لڑائیاں‘ سیاسی رنجشیں…ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟‘‘پروفیسر صاحب نے پائپ سلگایا‘ ایک لمبا ساکش لگایا اور دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولے''تم چَوّل ہو‘‘۔
میں اچھل پڑا‘ یقینا پروفیسر کو یہ بات میرے دوست ندیم نے بتائی ہوگی کیونکہ یہ راز صرف اُسی کو پتا تھا۔میں نے قہر آلود نظروں سے پروفیسر صاحب کی طرف دیکھا اور غُرایا''آپ کے پاس دلیل نہیں تو بحث بند کردیتے ہیں لیکن آپ کو میری بے عزتی کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
پروفیسر صاحب مسکرائے''تم کیا سمجھے ہو کہ ''تم ‘‘ سے مراد تم ہو؟
میں چونکا اور ہکلاتے ہوئے کہا ''سمجھا تو یہی ہوں‘‘۔
پروفیسر صاحب نے اطمینان سے سرہلایا''بالکل ٹھیک سمجھے ہو‘‘۔
میرے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ایک ایسا شخص جس کا علم صرف کتابی تھا وہ مجھ جیسے دانشور کو چَوّل کہہ رہا تھا۔کاش پروفیسر صاحب کو اندازہ ہوسکتا کہ آج تک جتنے بھی لوگوں نے مجھے یہ جملہ کہا ان سب سے میں قطع تعلق کرچکا ہوں۔میں چلایا''پروفیسر صاحب!سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ آپ لاجواب ہوچکے ہیں‘‘۔
پروفیسر صاحب نے پھر ایک کش لیا اور مجھے گھورا''انٹرنیٹ استعمال کرتے ہو؟
میں گڑبڑا گیا''جی کرتاہوں‘‘
''بجلی‘ اے سی‘ موبائل‘ گاڑی‘ فریج‘ ٹی وی ‘ واشنگ مشین‘ پنکھا…وغیرہ وغیرہ‘‘۔
''ہاں جی سب استعمال کرتا ہوں لیکن ان چیزوں کا میرے سوال سے کیا تعلق؟‘‘ میںنے حیرت سے پوچھا۔
''بہت گہرا تعلق ہے…یہ چیزیں ان لوگوں کی ایجاد ہیں جنہیں تم سازشی کہہ رہے ہو‘ انٹرنیٹ کھولو اور دیکھو کہ ''سازشی ممالک ‘‘میں ایک دن میں کتنی نئی ایجادات رجسٹرڈ ہوتی ہیں‘ کبھی ان کی یونیورسٹیز میں جاکر دیکھو کہ کیا پڑھایا جارہا ہے‘ کبھی ان کی فلمیں دیکھو کن موضوعات پر ہوتی ہیں۔کیا یہ لوگ ہر وقت تمہارے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں؟ بائی دی وے اِنہیں تم سے خطرہ کیا ہے ؟؟؟‘‘۔ پروفیسر صاحب کی بات سن کر بے اختیار مجھے ان کی ناقص عقل پر ترس آگیا۔''حضور خطرہ اس بات کا ہے کہ کہیں ہم پوری دنیا پر غلبہ نہ حاصل کرلیں‘‘۔پروفیسر صاحب نے بے اختیار قہقہہ لگایا''یہی خوابوں کی دنیا تمہیں تمہارے عیب نہیں دیکھنے دیتی۔ دنیا کو تم سے اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ کہیں تم اپنی عادتوں کی وجہ سے ساری دنیا برباد نہ کردو‘اس کے علاوہ وہ تمہیں کسی خطرے کے قابل نہیں سمجھتے‘ اپنے تئیں چیتا بننا چھوڑو اور وہاں غلبہ حاصل کروجہاں تم رہتے ہو‘ ‘۔
''لاحول ولاقوۃ…جہاں میں رہتا ہوں وہاں مجھے غلبہ حاصل کرنے کی کیا ضرورت ؟‘‘
''وہیں تو سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ ہر وقت فتوحات کے چکر میں رہنا چھوڑو اور دُنیا کو اپنے علم سے فتح کرو۔علم کو جہاں جہاں فتح نصیب ہوتی ہے وہ وہاں اپنے جھنڈے گاڑتا چلا جاتاہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ دیکھ لو‘ ترقی یافتہ اقوام کے لباس تک فیشن کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں۔کسی دن اپنے گھر میں موجود تمام اشیاء کی ایک لسٹ بنائو‘ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی۔ پھر ان کے سامنے لکھو کہ کون سی چیز کس کی بنائی ہوئی ہے۔تمہیں حیرت ہوگی کہ تمہارے گھر کی 90 فیصد چیزیں یا ترقی یافتہ ممالک کی بنی ہوئی ہوں گی یا اُن کے اصل موجد ترقی یافتہ ممالک ہوں گے۔یہ ہوتا ہے علم کا وار۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جن کو تم گالیاں دیتے ہوزندگی بھی ان کی بنائی ہوئی چیزوں پر بسر کرتے ہو۔آج اگر تمہاری زندگی سے اِن ''سازشیوں‘‘ کی بنائی ہوئی ایجادات نکال دی جائیں تو تمہارے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ ذرا سوچو! تم سے لکھنے کے لیے پین چھین لیا جائے‘ گھر کی بجلی کاٹ دی جائے‘ نہانے والا صابن لے لیا جائے‘ شیمپوکا نام و نشان مٹا دیا جائے‘ گاڑی‘ موٹر سائیکل ‘ ویگنیں‘ بسیں ‘ سائیکلیں سب ختم کردی جائیں‘ ٹرینیں اور جہاز بھی روک دیے جائیں‘ انٹرنیٹ کنکشن ختم کردیا جائے‘ موبائل فون ناکارہ کردیے جائیں تو کیسا رہے گا؟‘‘
میں چلایا''آ پ مسلمان سائنسدانوں کو بھول رہے ہیں‘ ان میں سے کئی چیزوں کے بنیادی آئیڈیاز انہوں نے ہی دیے تھے‘‘۔
''بالکل دیے تھے‘ لیکن تم تو اتنے بدنصیب ہو کہ اپنے سائنسدانوں کی کتابیں بھی محفوظ نہ رکھ سکے‘ یہ کتابیں بھی ''سازشیوں‘‘ نے محفوظ کیں اور تمہارے لیے عام کردیں کہ آئو انٹرنیٹ کھولو اور اپنے ہی عظیم سائنسدانوں کی کتابیں پڑھ لو۔ چلو تمہارا امتحان لیتا ہوں‘ تم کسی مسلمان سائنسدان کا پورا نام بتائو۔‘‘
میں بوکھلا گیا…''کک…کئی ہیں لیکن مجھے اس وقت ذہن میں نہیں آرہے‘ آپ میرا امتحان لینے کی بجائے بات جاری رکھیں‘‘
پروفیسر صاحب مسکرائے''میری بات جاری ہے‘ تم بھی اپنا ذہن جاری کرو۔اپنی ہر ناکامی ''سازشیوں‘‘ پر نہ ڈالتے جائو۔ جن کو تم سازشی کہتے ہو انہوں نے تو علم کا ساراجہان تمہاری مٹھی میں تھما دیا ہے۔انہوں نے موبائل فون بنایا ‘ تم نے کیا بنایا؟‘‘
''ہم نے اس کی ڈبل سم جیکٹ بنائی‘ پلاسٹک کور بنایا‘گلاس پروٹیکٹر بنایا‘ بالکل اصلی جیسا دو نمبر چارجر بنایا۔‘ ‘ میں نے فخر سے کہا!!پروفیسر صاحب کے چہرے پر زخمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی‘کش لگایا اور قدرے آہستہ آواز میں بولے''یہ سب بھی تم نے تب بنایا جب اُنہوں نے موبائل بنایا۔وہ اصل چیزبناتے ہیں‘ تم اسیسریز بنانے لگ جاتے ہو۔تمہارے سائنسدان کتابوں میں ہیں‘ اُن کے جیتے جاگتے سب کے سامنے چمتکار کررہے ہیں۔‘‘ میں نے اپنا سر پکڑ لیا‘ ہمیشہ کی طرح آج بھی پروفیسرصاحب کی باتیں جہالت سے لبریز تھیں‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن پھر یہ سوچ کر اٹھ گیا کہ ان سے کیا بحث کرنی‘ جب انہوں نے طے کرہی لیا ہے کہ عقل کی کوئی بات نہ سننی ہے نہ کرنی ہے تو بلاوجہ وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔ !!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔