ہم چند دوستوں نے کویت میں احمد فراز کے ساتھ ایک شام منانے کا فیصلہ کیا۔ تقریب کا چیف آرگنائزر میں تھا اور مجھے اس تقریب میں احمد فراز پر ایک مضمون پڑھنا تھا۔ مضمون پڑھا گیا تو احمد فراز نے مائیک پر آکر کہا کہ دنیا بھر، اور پاکستان میں بھی مجھ پر مضامین لکھے اور پڑھے جاتے رہے ہیں لیکن جیسا مضمون آج پڑھا گیا میں نے اس سے پہلے نہیں سنا۔
پبلک پلیٹفارم پر اس طرح کے خود ستائشی جملے بہت معیوب معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ ٹرافیاں ، میڈل ، شیلڈز اور اسناد دکھانے کی چیزیں ہوتی ہیں اسی رعایت پر واقعہ بیان کر دیا۔ احمد فراز پر اُس تقریب میں جو مضمون پڑھا اُس کا عنوان " اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ پوچھے " تھا۔ اس گروپ میں اسے پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں لیکن اس گروپ سے زیادہ مستند پڑھنے والے مجھے کہیں دستیاب نہیں ہو سکے۔ اگرچہ کہ گروپ کے حسابوں یہ غیر متعلقہ مضمون ہے لیکن احمد فراز کے حوالے سے گوارہ کیا جاسکتا ہے۔
*****
احمد فراز کو میں اُس روز سے جانتا ہوں جس روز میں نے اپنی آٹھویں جماعت کی اردو کی کاپی پر اُن کا ایک شعر نقل کر کے اپنی پیٹھ والدِ بزرگوار کو مشقِ ستم کے لئے پیش کی تھی۔ شعر تھا
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
تب میں اچھا خاصہ منیر احمد ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں کراچی کے این جے وی ہائی اسکول میں سر انور ہمیں اُردو پڑھایا کرتے تھے۔ کلاس روم میں وہ اکثر ہمیں کوئی مضمون لکھنے کو دیتے ، ہم مضمون لکھنے میں مگن ہوجاتے اور وہ اپنی کرسی پر نیم دراز ہو کر مطالعہ میں گم ہو جاتے۔ اپنی کتابوں کو وہ اکثر اخباری کوور میں رکھتے تھے۔ اسکول کے پرنسپل کلاس کے معائنہ کے لئے ادھر آ نکلتے تو وہ کتاب میز پر رکھ کر ہماری جانب متوجہ ہو جاتے۔ اُن کے اس فعل سے ہم چند نالائق لڑکوں میں وسوسہ پیدا ہوتا کہ وہ یقیناً کسی غیر نصابی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک روز موقع پا کر ہم نے کتاب سے اخباری کاغذ ہٹایا ، یہ احمد فراز کا شعری مجموعہ "تنہا تنہا" تھا ، جس کا ایک شعر اپنی کاپی پر نقل کر گے ہم نے والدِ بزرگوار سے اپنی پیٹھ پر منظوم خراجِ عقیدت حاصل کیا تھا۔
ماہریںِ نفسیات بتاتے ہیں کہ بچے کو جس چیز سے منع کیا جائے وہ فطرتاً اس جانب زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ آٹھویں جماعت میں مَیں بھی بچہ ہی تھا چنانچہ میں احمد فراز کی جانب متوجہ ہو گیا عالم یہ تھا کہ جماعت نہم تک میں نے جملہ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ فراز کے دونوں مجموعہ ہائے کلام ، جاناں جاناں اور تنہا تنہا از بر کر لئے تھے جس کی رعایت سے میں اپنے اسکول ، اور بعد ازاں گلی محلہ میں بخارِ فراز کے نام سے پکارا جانے لگا۔ بات کیونکہ شاعری کی تھی اس لئے بخار کے قافیہ پر کالج میں پُرستارِ فراز ہو گیا، والدہ مرحومہ نے مشورہ دیا ، اِس سے پہلے کہ گرفتارِ فراز کے نام سے پکارے جانے لگو ، خود کو منیر فراز کیوں نہیں کہلوا لیتے۔ چنانچہ اُن دنوں میرے لئے سب سے پُر مسرت وہ لمحہ تھا جب پہلی بار اپنے شناختی کارڈ پر اپنے نام کے ساتھ فراز کا لاحقہ دیکھا ، کئی دنوں تک دوستوں کو شناختی کارڈ دکھاتے رہے ، خوشی ایسی گویا راہی کو منزل مل گئی ہو۔ منیر احمد اردو کالج کی گلیوں میں گم ہو گیا اور اِس کی جگہ منیر فراز نے لے لی۔ پھر منیرفراز بھی اپنے سر انور کی طرح اخباری کاغذ چڑھا کر احمد فراز کا ایک مجموعہ اپنے نصاب کی کتابوں میں رکھنے لگا۔ اس کا فائدہ ہمیں یہ ہوتا کہ ہوم ورک کے دوران والدِ محترم میرے شوقِ مطالعہ سے خوش ہوتے کہ بچہ کس لگن سے اسکول کا کام کر رہا ہے ، جبکہ یہ بچہ
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
پڑھ رہا ہوتا۔ اُس زمانے میں ہم چند لڑکوں کا گروپ کلامِ فراز ہی میں روز مرہ کی گفتگو کرتا تھا۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ بقول یوسفی ، ہم پر کوئی بات نثر میں نہیں اُترتی تھی ، سر میں درد بھی ہوتا تو دوستوں کو اس کی منظوم اطلاع دیتے ، کوئی دوست ناراض ہو کر چُپ سادھ لیتا تو ہم پر احمد فراز کا شعر وارد ہوتا
انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چُپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چُپ ہیں
اِس کا جواب بھی ہمیں شعر ہی کی صورت ملتا
کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
صرف یہی نہیں ، کوئی پری چہرہ سال چھ ماہ بعد حال پوچھنے کی غلطی کر بیٹھتا تو کبھی سیدھے منہ اپنی خیریت سے مطلع نہیں کیا ، ہمیشہ فراز کی زبانی اپنی عدم خیریت کی اطلاع دیتے
تیری باتیں بھی دلآویز ہیں تری صورت کی طرح
میری سوچیں بھی پریشاں میرے بالوں جیسی
خود کو احمد فراز کے اس مصرعہ پر پورا اتارنے کے لئے ، قبول صورت ہونے کے باوجود بڑی کوشش کر کے ہم اپنے بالوں کو پریشان رکھا کرتے تھے۔
اُن دنوں یہ رویہ کسی ایک کالج کے کسی ایک گروپ کے لڑکوں کا نہیں تھا ، احمد فراز کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ، سماجی حلقوں میں فرازِ کے مصرعے زبانِ زد عام تھے ، ملک کے بڑے بڑے کالم نگار اپنے کالموں کا عنوان فراز کے مصرعوں پر رکھ کر داد پاتے ، فراز کے اشعار جذبات کی ترجمانی کے لئے خطوط میں لکھے جانے لگے ، عید کارڈز کی زینت بن گئے۔ ریڈیو آن کرتے تو مہدی حسن ، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ ، گا رہے ہوتے۔ ٹیلی وژن دیکھتے تو فلمسٹار ندیم بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ کبھی کسی درخت اور اکثر فلمسٹار شبنم سے ٹیک لگائے ، اب کے ہم بچھڑے ، گا رہے ہوتے۔ مختصر یہ کہ فراز کی شاعری کا مجموعی تاثر ہمارے سماجی رویوں میں اس قدر سرایت کر گیا تھا کہ ہم اپنے کسی کیمسٹری کے طالبعلم سے بھی اردو کے چند شعراء کا نام پوچھتے تو وہ اگر قوم پرست ہوتا تو پہلے اقبال اور پھر فراز کا نام لیتا اور اگر حسن پرست ہوتا تو پھر صرف فراز کا نام لیتا۔
قلم کاغذ کے حوالے سے فراز میرا نقطہء آغاز تھا۔ فراز نے اولین مجھے اپنے عشق میں مبتلا کیا ، بعدازاں اس کی شاعری نے مجھے درد کے معنی سمجھائے، فراز کا یہی طریقہء واردات ہے ، اُس کی شاعری پہلے محبت پیدا کرتی ہے اور پھر
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
کہہ کر غمِ دوراں سے آشنا کرتی ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ پڑھنے والے جو فراز کے دام میں نہیں آتے اور چپ چاپ اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ایک طرف لگتے ہیں۔ لیکن فراز کے ہڑھنے والوں میں کم نصیب بھی شامل ہیں جو درد کی منزلوں تک اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ میں بہت سوں کی طرح فراز کے دام میں آگیا ، حیرت کی بات نہیں ، فراز کو پڑھنے والے اس کے دام میں آ ہی جاتے ہیں۔ اسکے مصرعوں کی بُنت و روانی ، ساحرانہ ترکیب اور لفظوں کا انتخاب ہے ہی اتنا دلکش کہ جس قاری نے اس کا ایک شعر پڑھ لیا وہ مزید پڑھنے کی جستجو ضرور کرتا ہے اور پھر جوں جوں دوا کی جاتی ہے یہ مرض بڑھتا ہی رہتا ہے۔ محبت کے گیت اور غمِ دوراں سے آشنائی تک تو بات سمجھ میں آتی ہے ، کہ اردو شاعری اِن دو کیفیات سے بھری پڑی ہے لیکن فراز کی شاعری کا ایک مرحلہ اور بھی ہے اور وہ ہے لذتِ درد کا مرحلہ
آج جی کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فراز
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
ہم کے ہیں لذتِ آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
کوئی فراز سے پوچھے ، جی کھول کے رونے میں بھلا خوش ہونے کی کونسی بات ہے اور چارہ گروں سے زخم چھپانے میں کیا حکمت ہے ؟ لیکن محبت کے گیت گانے اور درد سے آشنائی کے بعد جس ہڑھنے والے نے فراز کے لذتِ درد کو پا لیا اور ہھر اس کے تناظر میں یہ بھی جان لیا کہ غالب نے کیوں کہا تھا کہ ، درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ، تو وہ خود سمجھتا ہے کہ جی کھول کے رونے میں کیا راحت ہے۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنے مضمون کو تنقیدی رنگ دے رہا ہوں جبکہ میں نے ابتدا میں عرض کی تھی کہ یہ مضمون فراز کی شاعری کے حوالے سے میرے ذاتی تاثرات پر مبنی ہے چنانچہ میں ہھر سے اپنی بات کرنے لگا ہوں
جس طرح ایک سائیکل سوار روزانہ اپنے سائیکل پر ریت کی بوری رکھے سرحد پار کیا کرتا تھا اور سرحدی عملہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ریت کی آڑ میں سائیکلیں اسمگل کیا کرتا تھا ، بعینہ فراز کے چند رومانوی شعر یاد کر کے میں سمجھا تھا کہ وہ انہی ریت کی بوریوں کا سوداگر ہے لیکن ، نایافت ، دردِ آشوب ، بے آواز گلی کوچوں میں ، اور ، پس انداز موسم ، کے بعد مجھ پر کھلا کہ اپنے رومانوی اشعار کی آڑ میں وہ ریت کی بوریاں نہیں ، درد کی سائیکلیں اسمگل کرتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے اس عمل میں وہ سرحد پر کھڑے عملہ کو کیموفلاژ نہیں کرتا ، اُن کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکتا ، صاف صاف کہہ دیتا ہے
خیر تم شوق سے دیکھو میرا سب رختِ سفر
یہ کتابیں ہیں ، یہ تحفے ہیں ، یہ کپڑے میرے
مہر کو ثبت کرو اور مجھے راہداری دو
اُن دنوں احمد فراز نے کتابوں کے بڑھتے ہوئے نرخ پر اُٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جب ہمارا نوجوان پچاس روپے کی ٹائی خرید سکتا ہے تو وہ تیس روپے کی کتاب کیوں نہیں خرید سکتا فراز کی اس بات نے مجھے عہد حاضر تو کیا، ماضی کے کئی مرحومین کی کتابیں بھی پڑھوا دیں ، حتی کہ مجھ میں شعور پیدا ہوا کہ کتاب بہرحال نیک ٹائی سے زیادہ ضروری ہے۔ مَیں پھر کتابیں جمع کرنے لگا اور میں بڑی مسرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنی الماری اور صندوق کتابوں سے بھر دئیے ، اور پھر ایک وقت آیا کہ میرے شفیق والدِ مرحوم نے جس پیٹھ پر فراز کا شعر نقل کرنے کی پاداشت میں مشقِ سخن فرمائی تھی ، اسے تھپتھپانے لگے۔ چنانچہ میری یہ کتابیں ، جن پر اب کوئی اخباری کوور نہیں ہے ،میری جان کے دشمن ، فراز ہی کے شعر کی ترجمانی کے ساتھ میری لائبریری میں رکھی ہیں ، کہ
دیکھو یہ میرے خواب تھے ، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
مَیں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا
زمانہ بدل گیا لیکن کلامِ فراز کی زبان میں بات کرنے کی عادت نہیں بدلی
اے میری جان کے دشمن تجھے اللہ پوچھے