یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے جدہ ائرپورٹ پر سپرمارکیٹ کے ساتھ' ہال کے ایک گوشے میں مسجد نما جگہ بنی ہوئی ہے میں وہاں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک عرب آیا سب سے اگلی صف میں اکیلا' بلند آواز سے نماز پڑھنے لگا۔ یوں جیسے نماز باجماعت کی امامت کرا رہا تھا پوری ایک رکعت اس نے اکیلے ادا کی جہری قرأت کیساتھ دوسری رکعت کے وسط میں ایک اور عرب آ کر اسکے ساتھ شریک ہوا۔ پھر ایک اور' جب اس نے سلام پھیرا تو پچھلی صف بھر چکی تھی۔
سعودیوں کی دو باتیں بھلی لگتی ہیں اور اپنے ہاں کے حوالے سے شدید احساسِ محرومی دیتی ہیں۔ انہوں نے نماز کو اپنی زندگیوں میں اس طرح رچا لیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہماری طرح مسئلہ نہیں بنایا۔ جوتے صاف ہوں تو انکے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ جرابیں ہوں تو ان پر مسح کر لیتے ہیں۔ گاڑی پر ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ جا رہے ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو روکتے ہیں۔ اترتے ہیں اور کار کیساتھ کھڑے ہو کر پڑھ لیتے ہیں۔ دو ہوں تو کبھی اکیلے نہیں پڑھتے۔ جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ مسجد جائیں تو تحیتہ المسجد نہ ادا کریں۔ مجھے یاد نہیں کہ جمعہ کے خطبوں میں ہمارے ''علمائ'' نے ان پہلوؤں کی بھی تلقین کبھی کی ہو۔ ہاں جھگڑے بے شمار ہیں۔ ذکر کیا تو شکایتیں ہوں گی۔ ایک غیر ملکی مسلمان تعجب کا اظہار کر رہا تھا کہ راولپنڈی سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر سفر کریں۔ یا پشاور سے اسلام آباد آئیں' خواتین کے نماز پڑھنے کا کوئی انتظام تو کیا تصور تک نہیں! کیا کسی عالمِ دین نے اس طرف توجہ دی ہے؟ یہاں ترجیحات ہی اور ہیں اور پھر بھی دعویٰ ہے کہ یہ اسلام کا قلعہ ہے!
آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے!
مکہ سے مدینۃ النبی کا سفر حسرتوں اور آرزوؤں کا سفر ہے۔ یادیں ہیں اور آنیوالے زمانوں کے خواب! کیسے کیسے کچے راستے اور پگڈنڈیاں ہونگی جن پر قافلے چلے ہونگے اور اللہ کے رسول کی سواری نے قدم رکھے ہوں گے۔ جو عقل مند تھے انہوںنے آنکھوں سے بینائی باہر نکال پھینکی اور رسول کی سواری نے جو گرد اڑائی تھی اسے آنکھوں میں بھر لیا۔ بے آب و گیاہ خشک پہاڑ آج تک بخت پر ناز کرتے ہیں۔ انہوں نے ان قدموں کی چاپ سنی تھی جن کے نشان آج تک سینوں پر موجود ہیں۔ اللہ کے رسولؐ کے ساتھی انکے قدم زمین پر پڑنے ہی کہاں دیتے تھے۔ یہ قدم تو وہ اپنی پلکوں پر اور سینوں کے اندر اتارتے تھے۔
لمبائی ستر ہاتھ' چوڑائی ساٹھ ہاتھ' چھت کی بلندی پانچ ہاتھ' پتھر کی بنیادیں کچی دیواریں کھجور کے تنے ستونوں کے طور پر اور چھت کھجور کی ٹہنیوں سے' یہ تھی وہ مسجد جو مدینہ میں آپؐ کی تشریف آوری کے بعد بنی اور کیا ہی خوش بخت عمارت تھی جس کی تعمیر میں اللہ کے رسولؐ خود شریک تھے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے گارا' اینٹیں اور پتھر اٹھاتے تھے!
کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی مسجدِ نبوی کیا مسجد تھی کہ اسکی اتباع میں آج پورے کرۂ ارض پر کروڑوں اربوں مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لیکر چلی' پیرو' فوجی اور ہوائی کے جزیروں تک شہروں' قصبوں' بستیوں اور قریوں میں شاہراہوں' ہوٹلوں سکولوں' کارخانوں' کھیتوں' دفتروں اور ہوائی اڈوں پر لاتعداد' ان گنت' مسجدیں کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی اس مسجد کی شان ہی کچھ اور ہے۔
اور کیا وسعت ہے جو مسجدِ نبوی میں ہے۔ یہ وسعت صرف جگہ اور مسجد کی لمبائی اور چوڑائی کے حوالے سے نہیں' ایک اور حوالے سے بھی ہے' اللہ کے رسولؐ کی مسجد ہر شخص' ہر مسلک' ہر لباس' ہر رنگ اور ہر حلئے کیلئے اپنا دروازہ کھولے ہوئے ہے' میں نے ایک سفید فام مسلمان دیکھا جس نے چٹیا (پونی) رکھی ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول کا دروازہ ہر شخص کیلئے کھلا تھا۔ کچھ نے لنگیاں پہنی ہوئی تھیں۔ کچھ نے چغے' کچھ پتلونوں میں ملبوس تھے۔ سوٹ اور نکٹائیوں والے بھی تھے اور وہ بھی جن کی شلواریں اور پاجامے صرف آدھی پنڈلیاں ڈھانکے ہوئے تھے۔ کاش دل کی یہ وسعت یہ برداشت یہ عالی ظرفی' یہ محبت اور یہ رواداری' مملکتِ خداداد کی مسجدوں میں بھی آ جائے اور انہیں بھی ہدایت نصیب ہو جو اللہ کے رسول کے اسلام کو اپنے علاقے کے مخصوص لباس میں قید کر دینا چاہتے ہیں۔
مدینہ بھی کیا شہر ہے اور کیا اس کی آب و ہوا ہے۔ اس شہر کی گلیوں میں خدا کا آخری رسولؐ چلتا پھرتا تھا۔ جدھر اسکی نظر اٹھتی تھی۔ ستارے چاند سورج اور کائنات کی تمام روشنیاں اسی طرف لپکتی تھیں۔ جدھر اسکے قدم اٹھتے تھے۔ فرشتے پر بچھاتے تھے۔ وہ سوتا تھا تو زمانے آنکھیں بند کر لیتے تھے۔ جاگ کر اٹھتا تھا تو وقت انگڑائی لیتا تھا! جن سے مخاطب ہوتا تھا ان کے اندر چاند ستارے کاشت کرتا جاتا جنہیں بلایا ان کی نسلیں بھی لبیک یا رسول اللہ کہہ کر اسکی طرف رواں ہیں! وہ خزانے لٹاتا لیکن اپنے ایک کمرے کے گھر میں صرف پانی کا پیالہ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ اور امت کا درد رکھتا۔ کھردری چٹائی پر سو جاتا۔ پاک جسم پر نشان پڑ جاتے لیکن مٹھی میں کرنیں ہوتیں! تاریخ اللہ کے رسول کی دربان تھی۔ کائنات اسکی چوبدار تھی۔ تقویم اس سے پوچھ کر ہفتے مہینے سال اور دن بناتی تھی۔ قیامت تک آنیوالے شہنشاہ اسکی جوتیاں اٹھانے کی حسرت دل میں پالتے رہیں گے۔ اللہ کے رسول کے مدینہ میں عجیب سحر ہے۔ اس سحر کا کوئی توڑ نہیں۔ اس شہر کی ہوا سرد ہے نہ گرم۔ مرطوب ہے نہ خشک' انسان کو جو ہوا سب سے زیادہ پسند ہو سکتی ہے اور انسانی زندگی کیلئے جو ہوا سب سے زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ یہی ہے' کیونکہ اسی ہوا میں خدا کے آخری رسولؐ کی سانسیں جذب ہوئیں۔ اسی شہر کی مٹی آنکھوں کیلئے سرمے سے بڑھ کر ہے' کیونکہ اسی مٹی پر نعلین مبارک پڑتے تھے' یہی تو وہ شہر ہے جس نے اللہ کے رسولؐ کیلئے اس وقت اپنی آغوش وا کی جب اس کا اپنا شہر اس کے خون کا پیاسا تھا اور جب اسی شہر کے لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس نہ چلے جائیں تو آپ نے انہیں یہ کہہ کر تسلی دی تھی… ''نہیں! تمہارا خون میرا خون ہے اور تم میرے اور میں تمہارا ہوں'' پھر جب آپ مکہ سے روانہ ہوئے تو یہی شہر ہے جس کے مکین ہر روز صبح سویرے شہر کے باہر جمع ہوتے۔ اپنی آنکھیں مکہ سے آنیوالے راستے پر ٹانک دیتے اور شام تک انتظار کر کے حسرت و یاس کیساتھ واپس لوٹ جاتے اسی شہر کی بچیوں نے دف بجا بجا کر طلع البدر علینا کا گیت گایا تھا۔ وہ گیت جو آج زمانوں اور جہانوں میں گونج رہا ہے۔ ذرا سوچئے مدینہ کا یہ گیت پندرہ صدیوں میں کتنے مردوں عورتوں بچوں اور بچیوں نے گایا ہو گا اور تصور کیجئے کہ اسرافیل کے صور پھونکنے تک یہ گیت گایا جاتا رہے گا! مسلسل ہر وقت' ہر موسم اور زمین کے ہر حصے میں' گویا آج تک اللہ کے رسول کا استقبال ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
مدینہ ہی کے باشندے تھے جنہوں نے مہاجرین اس شہر کے سنگریزے زمرد نیلم یاقوت مروارید' لوا کو اپنا بھائی بنایا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ ہمارے کھجور کے باغات ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجئے! پھر جب آپؐ نے مسجد بنانے کیلئے جگہ پسند فرمائی اور جگہ کی قیمت ادا کرنا چاہی تو اسی شہر کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم اسکی قیمت صرف خدائے بزرگ و برتر سے وصول کرینگے۔ آج بھی اس شہر کے رہنے والوں کے ماتھے کشادہ چہرے چمکدار اور طبیعتیں نرم ہیں۔ دل چاہتا ہے ساکنان مدینہ کے ہاتھ چومے جائیں اور انکے پیروں کے تلوے سہلائے جائیں' اور دل کیوں نہ چاہے' یہی تو اللہ کے رسولؐ کے شہر میں بستے ہیں! خدا کے رسولؐ کو مہمان بنانے والے آج بھی مہمان نوازی میں آسمان سے بلند تر ہیں جس نے اس مہمان نوازی کی جھلک دیکھنا ہو' رمضان کی ایک افطاری ہی مسجدِ نبوی میں کر کے دیکھ لے۔ وہ جو منظر دیکھے گا آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کہیں اور نہیں دیکھ سکے گا۔ خشکی پر بنے ہوئے راستے سمندروں میں چلتی رویں' فضاؤں میں تیرتے بادل' خلاؤں میں پر مارتے فرشتے سب اس شہر کی طرف رواں ہیں۔ اس شہر کی زمین کے اوپر کا تو ذکر ہی کیا' اسکی زمین کے نیچے دفن ہونا بھی خوش بختی ہے۔ لاکھوں کروڑوں اربوں دلوں میں اسکی ایک جھلک دیکھنے کی حسرت ہے۔ کھرب ہا کھرب انسانوں نے وہ بھی جو مر گئے اور وہ بھی جو زندہ ہیں۔ اس شہر کی طرف جانے میں اور واپس آ کر دوبارہ جانے میں اور بار بار جانے میں زندگیاں صرف کر دیں۔
طیبہ جاؤں اور آؤں' پھر جاؤں
عمر کٹ جائے آنے جانے میں
(حافظ محمد ظہور الحق ظہور)
اور وہ جو پیدا ہوں گے وہ بھی ایسا ہی کریں گے' اسی شہر میں ازل ہے' اسی میں ابد ہے' ہمارے جسموں کی مٹی اسی میں گوندھی گئی۔ روشنی' نیکی' توانائی اور محبت کے سارے چشمے اسی شہر کی مٹی سے پھوٹتے ہیں…؎
اے خوشا شہرے کہ آنجا دلبر است
http://columns.izharulhaq.net/2009_04_01_archive.html
“