چار دن سے مولوی صاحب نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک اور صاحب نمازیں پڑھا رہے تھے۔ پانچویں دن مؤذن صاحب سے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ مولانا کہاں ہیں؟ کیا چُھٹی پر ہیں؟ مؤذن صاحب نے بتایا کہ اُن کا تبادلہ ایک اور مسجد میں ہو گیا ہے۔ یہاں اُن کی مدت
(Tenure)
پوری ہو چکی تھی! اُس دن جمعہ تھا۔ نئے مولوی صاحب ہی نے خطبہ دیا۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا چودہ سال سے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سے وابستہ ہیں اور کچھ دیگر مساجد میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں!
اس وقت ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور بحریہ‘ دونوں کی رہائشی آبادیوں میں یہی سسٹم کارفرما ہے۔ کسی مسجد میں چندہ لیا جاتا ہے نہ محلے والوں کی کمیٹی ہے، مولانا جس کے ماتحت ہوں۔ تنخواہ انتظامیہ دیتی ہے۔ معقول رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ ڈیفنس ہائوسنگ میں خطیب اور مؤذن کو تین وقت کا تیار پکا پکایا کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے بحریہ میں بھی کھانے کا یہی انتظام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو رہائشی تنظیموں کے علاوہ بھی کچھ سیٹ اپ ایسے ہوں جہاں ایسا ہی یا اس سے ملتا جلتا انتظام چل رہا ہو!
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ کا بیٹا آٹھ دس سال لگا کر تعلیم سے فارغ ہوا ہو، امتحانات میں کامیابی حاصل کر چکا ہو‘ قرآن و حدیث اور فقہ پر اسے دسترس حاصل ہو اور پھر اسے روزگار ایسی جگہ ملے جہاں اس کا اور اس کے اہل و عیال کا انحصار محلے والوں کے چندے اور ملاقات و خیرات پر ہو؟ ایک مسجد کمیٹی ہو جس کے ارکان میں دو تین دکاندار ہوں‘ ایک دو افسر ٹائپ اشخاص ہوں‘ دو تین چٹے ان پڑھ ہوں‘ ایک دو جھگڑالو قسم کے بزرگ ہوں‘ یہ کمیٹی عملی طور پر آپ کے عالم فاضل صاحبزادے کی نگران ہو اور صاحبزادے کو ہر وقت یہ فکر لاحق ہو کہ ان میں سے کوئی ناراض نہ ہو جائے‘ تو کیا یہ بندوبست آپ کے لیے قابل قبول ہو گا؟
معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو علمائے دین مساجد اور مدارس میں کام کر رہے ہیں‘ انہیں دو خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ اکثریت خدا ترس اشخاص پر مشتمل ہے‘ جو سیاست میں پڑنا چاہتے ہیں‘ نہ کسی کا محتاج ہونا پسند کرتے ہیں، یہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ اسباق کی تیاری کرتے ہیں۔ پڑھانے میں خلوص اور درد مندی کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان حضرات کو یہ بندوبست قطعاً اچھا نہیں لگتا کہ وہ اپنی تنخواہ کے لیے اہل محلہ پر اور مسجد کمیٹی پر انحصار کریں۔ مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت بہت کم مشاہروں پر گزر بسر کر رہی ہے۔ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں کو زندہ رکھنے والوں کی زیادہ تعداد تنگ دستی اور عُسرت کا سامنا کر رہی ہے۔ چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں اور لوہے کی بنی چارپائیوں پر سوتے ہیں۔ پنشن ہے نہ ہی جی پی فنڈ‘ علاج معالجہ کی سہولیات ہیں‘ نہ رہائش کا معقول بندوبست! سالہا سال اسی طرح گزر جاتے ہیں ؎
گُھٹ گُھٹ کے رہے میرِؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم!
دوسری کیٹگری اُس قلیل تعداد کی ہے جو سیاست اور پی آر میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کچھ تو غیر معمولی صلاحیت کے مالک ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ قابل رشک تنظیمی قابلیت رکھتے ہیں۔ حکومت سے اور مخیر حضرات سے تعلقات پیدا کرنے اور نبھانے کا فن جانتے ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کا مستقبل بھی’’محفوظ‘‘ کر جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو او لیول اور اے لیول قسم کے انگریزی سکول کالج بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ کچھ جو بہت اوپر تک نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں‘ ہر سال‘ یا سال میں ایک سے زیادہ بار‘ امریکہ یورپ اور دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ ان دوروں کو تنظیمی اور تبلیغی دورے کہا جاتا ہے۔ کچھ خوش قسمت ایسے ہیں جنہیں امریکہ کے ارباب اقتدار و اختیار مدعو کرتے ہیں اور دوران سفر ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں!
ہم ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتے کہ مساجد سو فیصد ریاست کی تحویل میں آنی چاہئیں (اگر ایسا کرنا بھی ہو تو بتدریج کرنا چاہیے) مگر ہم یہ ضرور تجویز کریں گے کہ مساجد میں خدمات سرانجام دینے والے علمائے کرام سے حکومت یہ ضرور پوچھے کہ اگر ان کی مساجد کو حکومت کی تحویل میں لے لیا جائے، انہیں تنخواہ‘ پینشن‘ علاج معالجہ اور رہائش کی سہولیات دیگر سرکاری ملازموں کی طرح دی جائیں‘ جیسا کہ مسلح افواج میں ہو رہا ہے‘ تو کیا وہ اسے پسند کریں گے؟ یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ اکثریت کی رائے اس انتظام کے حق میں ہو گی!
جن علمائے کرام کو قدرت نے تنظیمی اور سیاسی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ ان کے لیے بھی میدان حاضر رہنا چاہیے۔ وہ مدارس اور تعلیمی ادارے ضرور چلاتے رہیں؛ تاہم حکومت کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ مدارس کے اساتذہ کے سکیل حقیقت پسندانہ بنوائے‘ منتظم اور مہتمم حضرات کو یا دوسرے الفاظ میں مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ سالانہ ترقی دیں گے‘ پنشن کا نظام وضع کریں گے‘ رہائش یا اس کے بدلے رہائشی الائونس دیں گے۔ اساتذہ اور ان کے اہل و عیال کے علاج کی ذمہ داری مدرسہ کی انتظامیہ پر ہو گی۔ ملازمت سے نکالے جانے کی صورت میں وہ ’’سروسز ٹربیونل‘‘ قسم کے کسی ادارے میں اپیل کرنے کا حق رکھیں گے! مدارس مالکان اگر اساتذہ کو یہ سب جائز حقوق دیتے ہیں تو ان مالکان کو پورا حق ہے کہ نجی شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور کرتے رہیں!
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مدارس میں پڑھانے والے علمائے کرام اور مساجد کے خطیب‘ امام اور مؤذن حضرات‘ عزت نفس رکھتے ہیں! انہیں دین کا علم سیکھنے اور سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ ایک قابل رشک ذمہ داری ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ مساجد اور مدارس کے وسیع و عریض نجی شعبے کو
Regulate
کرے۔ جو فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کے حقوق بھی ادا کیے جائیں! عوام کی غالب اکثریت ان علمائے کرام کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتی ہے۔ ان علمائے کرام کا اور ان کے اہل و عیال کا حق ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے اطمینان بخش زندگی گزاریں‘ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انہیں کمیٹیوں اور مقتدیوں کا مرہون احسان نہ ہونا پڑے۔
اگر مسلح افواج میں‘ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اور بحریہ کی ملک گیر رہائشی بستیوں میں مساجد کا انتظام قابل رشک انداز میں چلایا جا سکتا ہے تو اس انتظام کا اطلاق بتدریج پورے ملک پر کیا جائے!
مدارس میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبہ کے بھی حقوق ہیں جو کچھ حکومت نے ادا کرنے ہیں‘ کچھ مدارس کے مالکان نے اور کچھ معاشرے نے مگر یہ موضوع کسی آئندہ نشست میں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔