اے عمران
اِس وقت تم کرکٹ کے کھلاڑی نہیں , گلیڈی ایٹر ہو۔
میدان کے دروازے بند ہو چکے ہیں ۔ حریف نہایت سفاک اور کہنہ مشق ہے۔ تم اِس میدان سے حتمی فصلے کے بغیر نہیں نکل سکتے ۔ یا اپنے حریف کو مارنا ہے یا خود مرنا ہے ،تیسرا کوئی آپشن نہیں ۔ الیٹ اور اپر مڈل کلاس کے مقتدر اور نان مقتدر حلقے تیری ذلت آمیز شکست دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں، لڑتے ہوئے تیری سانس پھول جائے ۔ ہاتھ پاوں شل ہو جائیں ،دماغ بجھ جائے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جائے ۔ تب ترے مقابل کا وار ترے سر پر پڑے ۔ یہ لوگ تیرا خون میدان کے بیچوں بیچ منہ اور نتھنوں کی راہ بہتا دیکھنا چاہتے ہیں ،پھر اُس کے بعد اتنے زور سے تالیاں بجانا چاہتے ہیں کہ جن سے اُن خواب دیکھنے والوں کا سینہ چاک ہو جائے جو تجھ پر آس لگائے بیٹھے ہیں ۔
اے عمران یاد رکھ تجھے داو پیچ سمجھانے والے کچھ ایسے ماہرین تیرے ارد گرد جمع ہو چکے ہیں جو دراصل تیرے نہیں ہیں ۔ اُن کے داو تیری کمر دوہری کر دیں گے ، اُن کا شور تجھے سوچنے اور غور و فکر کرنے نہیں دے گا ۔ اُن کی طمع تجھے ناک آوٹ کروائے گی ۔ وہ تیری شکست کے بعد تیرے حریفوں ہی کے دستر خوانوں پر بیٹھے ہوں گے ۔ اے عمران ، یہ ڈاکٹر عشرت حسین ، یہ زبیدہ جلال ، یہ فہمیدہ مرزا وغیرہ تیری گردن کا خون بیچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔
اے عمران
یہ تیری پشت پہ بیٹھے مولوی مُلا اسلام کے چوہے بلیاں ، سمیع الحق قسم کے لونڈے تیری زرہ کتر دیں گے تاکہ دشمن کا وار بغیر رکاوٹ کے تیرا سینہ چیر دے ۔
مگر افسوس میرا کلمہ تجھ تک پہنچ نہیں سکے گا ، نہ میری آواز تیری سماعت کا رستہ تلاش کر پائے گی جو تجھے نصیحت کی ڈھال کے ساتھ مرنے سے بچا لے جائے کیونکہ تیرے اور میرے درمیان وہ دیوار بہت مضبوط ہے جس کے اندر تُو ہے اور جس کے باہر مَیں ہوں اور ہمارے درمیان اشرافیہ کا ایک ہجوم ہے۔
اے عمران یاد رکھ ۔ تو ایک وزیر اعظم نہیں، گلیڈی ایٹر ہے اور گلیڈی ایٹر کے پاس تیسرا رستہ نہیں ہوتا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔