ءTales of Mystic Meaning: Pages 1-12
اِک غزالِ دشت، گھڑسوار بادشاہ کے عین سامنے، قلانچیں بھرتی ہوئی صحرائی ٹیلوں کے پیچھے کہیں روپوش ہو گئی۔ کچھ اُس کا بدن بھی ایسا تھا جو صحرا میں آسانی سے نظر نہ آتا تھا۔ بادشاہ دیکھتا رہ گیا۔
بادشاہ نوح بِن منصور دارالحکومت بخارا سے اپنے خاص درباریوں کے ہمراہ شکار پر نکلا کرتا تھا۔ مگر جب وہ صحرا میں غزالِ دشت کو قلانچیں بھرتا دیکھتا تو غزال کے حُسن میں ڈوب کر تِیر مارنا بھول جاتا۔ یوں غزال ہمیشہ فرار ہو جاتی۔ درباریوں کو شروع سے معلوم ہوتا تھا کہ ہم شکار کے نام پر نکل تو رہے ہیں مگر یہ شکار نہیں، محض دیدار کی مہم ہے۔ کئی بار درباریوں نے مشورہ دیا کہ ہم چند غزال پکڑ کر محل میں لے آتے ہیں مگر بادشاہ کہتا تھا کہ غزالِ دشت کو دشت میں ہی رہنا چاہیے۔ جو غزال دشت میں نہ ہو، وہ غزال نہیں رہتا۔
اُس دِن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ غزالِ دشت کے دیدار کے بعد بادشاہ واپس آ رہا تھا۔ تب ایک غیرمعمولی واقعہ پیش آ گیا۔ شہر کی حدود میں داخل ہو کر اُس نے ایک نوجوان عورت دیکھی۔ اُس عورت کی آنکھیں بالکل غزالِ دشت جیسی سحرانگیز تھیں۔ بادشاہ کی رُوح گویا قفسِ عنصری میں پھڑپھڑانے لگ گئی، وہ اُس پر فریفتہ ہو گیا۔ اُسے معلوم پڑا کہ وہ عورت کسی کی لونڈی ہے۔ چناچہ اُس نے لونڈی خرید لی اور اپنے گھوڑے پر آگے بٹھا کر چل پڑا۔
گھوڑا چلتا رہا۔ بادشاہ کو لونڈی کی مہک آتی رہی۔ سرمست ہو کر اُس نے پوچھا ”تیرا نام کیا ہے غزالِ دشت کی آنکھوں والی؟“ لونڈی نے ہلکی آواز میں جواب دیا ”غزل…“، بادشاہ اُس کے نام کی وجہ سے مزید خُمار میں آ گیا۔ آخرکار وہ محل پہنچ گئے۔
چند دِن تک بادشاہ نوح بِن منصور نے غزل کے ساتھ اپنی زندگی کا خوشگوار ترین دَور گزارا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ غزل بیمار ہو گئی۔ بادشاہ کو محسوس ہوا جیسے اُس نے پہلی بار کسی غزالِ دشت کو دشت بدر کر دیا تھا، اِسی لیے ایسا ہوا۔
بادشاہ نے اپنی سلطنت کے تمام قابل ترین طبیبوں کو بلوا کر کہا ”اب غزل اور میری زندگی تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ غزل تندرست ہو گی تب ہی مجھے قرار آئے گا۔ اِس کے بنا میری زندگی کچھ نہیں۔ جو کوئی بھی غزل کو تندرست کر دے، اُس کے لیے ہر قسم کے انعام و اکرام کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔“
طبیبوں نے کہا ”آپ بے فکر رہیں۔ ہم اپنی پوری طاقت اور قابلیت استعمال کریں گے۔ ہم مسیح کی مانند ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں ہر بیماری اور درد کی شفا ہے۔“
اے دوست، اُن طبیبوں نے تکبر کیا تھا۔ شفا کو اپنی جانب منسوب کر لیا تھا۔ تب خدا نے اُن کو اوقات دکھلا دی۔ جتنی دوا کی، غزل اُتنی ہی مزید بیمار ہوتی چلی گئی۔ کسی کو سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ کیسی بیماری ہے۔ اِس دوران بادشاہ خُوں کے آنسُو روتا رہا۔ بے شک عشق نہ ذات دیکھتا ہے اور نہ ہی حالات۔
ایک رات بادشاہ نے بحالتِ سجدہ شدید کرب کے عالم میں خدا سے دعا کی ”اے خدا، تُو ہی حقیقی بادشاہ ہے۔ ہم تیرے غلام ہیں۔ صرف تُو میری غزل کو شفا عطا کر سکتا ہے۔ مدد فرما۔“ جامنی رنگ جائے نماز اُس کے آنسوؤں سے تر ہو کر سیاہی دکھلانے لگی۔
جب اِک وسیع سلطنت کے بادشاہ نے خدا کے حضور سرِ خم تسلیم کر لیا، تب رحمتِ کائنات جوش میں آ گئی۔ وہ جائے نماز پر بحالتِ سجدہ ہی نیند کی وادی میں جا پڑا۔
خواب میں دیکھا کہ صحرا مخاطب تھا ”اے بادشاہ، خدا نے تیری دعا قبول کر لی۔ کل ایک اجنبی شخص تیرے محل میں آئے گا، وہ خدا کی جانب سے ہو گا۔ اُس کو پہچان لینا اور اُس کی بات توجہ سے سُننا۔“
اے دوست، مظاہرِ فطرت کو تُم بے جان خیال کرتے ہو گے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بے حد باشعور ہوتے ہیں۔ چونکہ بحالتِ خواب تمہارے حواس زیادہ بیدار ہوتے ہیں اِس لیے تُم اُن کی گفتگو جان لیتے ہو۔ بحالتِ بیداری اُن کی گفتگو جاننے کے لیے شدید تربیت چاہیے جو ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اپنے اردگرد طاری مظاہرِ فطرت پر توجہ رکھا کرو، وہ تمہیں تُم سے بہتر جانتے ہیں۔
اگلی صبح بادشاہ اپنے دربار میں معمول کی کاروائیاں نمٹاتا رہا مگر وہ محوِ انتظار بھی رہا کہ دیکھیے کونسے خاص مانوس اجنبی کا ظہور ہوتا ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
کچھ دیر میں وہاں ایک ایسا اجنبی آ گیا جس کے چہرے سے بہت پُراسراریت ٹپک رہی تھی۔ اجنبی نے کہا ”اے بادشاہ، مَیں بھی دوسروں جیسا ایک طبیب ہوں۔ اگر اجازت عنایت ہو تو مَیں مریضہ کو دیکھنا چاہوں گا۔ لیکن شفا دینا خدا کا کام ہے۔ مجھے انعام و اکرام کا کوئی شوق نہیں۔ اگر مریضہ تندرست ہو گئی تو وہ منجانبِ خدا تندرست ہو گی۔“
بادشاہ نے جیسے ہی ”منجانبِ خدا“ الفاظ سُنے، وہ اجنبی کو پہچان گیا اور تخت سے اُتر کر اجنبی کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہاتھ پر بوسا دیا۔ درباری حیران رہ گئے کہ بادشاہِ وقت ایک اجنبی یا معمولی طبیب پر قبل از وقت عزت و احترام کی بارش کیوں برسا رہا ہے، خصوصاً ایسا طبیب جو اپنی قابلیت کے ڈونگرے بھی نہیں برسا رہا۔
اے دوست، دو لوگ ایسے ہیں جو اگر دِل کی گہرائی سے دعا مانگیں تو کائناتی طاقتیں مدد کو ضرور آتی ہیں۔ ایک تو مظلوم اور دوسرا بادشاہِ وقت۔ مظلوم عموماً مایوس ہو جاتا ہے، مگر اُس کی طاقت اُمید قائم رکھنے میں ہے۔ اور بادشاہ خود کو سب سے قوت آور سمجھتا ہے، مگر اُس کی طاقت کائنات کے حضور عاجزی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات نے بادشاہ نوح بن منصور کی دعا بہت جلد قبول کر لی تھی۔
چناچہ بادشاہ اُس اجنبی کو اپنی محبوب مریضہ غزل کی خواب گاہ میں لے گیا۔ راہ میں اُس نے غزل کی حالت اور دوسرے طبیبوں کے معمولات کے متعلق آگاہ کر دیا۔
طبیب نے غزل کا چہرا دیکھا اور نبض پر ہاتھ رکھا۔ چند لمحات کے بعد بولا ”یہ بیرونی بیماری نہیں، اندرونی بیماری ہے۔ جسم بظاہر تندرست ہے مگر اِسے توانائی دینے والی رُوح بیمار ہے۔ گزشتہ طبیبوں نے روح پر توجہ نہ دی تھی حالانکہ رُوح اللہ ہونے کے دعوے دار تھے۔ ایسی لاپروائی سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔“
جیسے دھواں کی خوشبُو سے لکڑی کی قِسم کا اندازہ ہو جاتا ہے، اِسی طرح طبیب نے مرض تشخیص کر لیا تھا مگر اُس نے بادشاہ کو نہیں بتایا۔ وہ کوئی عام مرض نہ تھا۔ غزل کو مرضِ عشق لاحق تھا۔
اے میرے دوست، عشق وہ اسطرلاب ہے جس میں کائنات کے گہرے راز آشکار ہو جاتے ہیں۔ جانتے ہو اسطرلاب کیا ہے؟ اسطرلاب ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جس میں اجرامِ فلکی کے اوقات اُن کے نظر آنے سے بھی پہلے معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ اِسی سے سطح زمین کے مخصوص خدوخال بھی واضح ہوتے ہیں۔ اسطرلاب کی بنیاد پر تُم خلا و بحر و بَر میں سفر کر سکتے ہو اور منزلوں پر پہنچ سکتے ہو۔ عشق ایسا اسطرلاب ہے۔
لیکن دوست، عشق ناآسودہ رہ جائے تو وہ تمام امراض پر بھاری ہو جاتا ہے۔ مرضِ عشق میں مبتلا مریض کے لیے دنیا ختم ہو جاتی ہے، صرف محبوب کا چہرا باقی رہ جاتا ہے۔ ایسا مریض محبوب کی ایک جھلک کی خاطر پوری کائنات قربان کر سکتا ہے۔ اور جب محبوب نظر نہ آئے تو؟.. تب مرضِ عشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اے دوست، مرضِ عشق کا علاج صرف اور صرف محبوب ہے۔ نسخہ میں چہرائے محبوب کے علاوہ اگر کچھ اور درج ہو تو وہ نسخہ جلا دو۔
طبیب نے بادشاہ سے کہا ”حضور، مجھے مریضہ سے کچھ ایسے سوالات کرنے ہیں جس کے لیے ہم دونوں کا تنہا ہونا ضروری ہے۔ مہربانی فرما کر محل کے اِس حصے میں تخلیہ قائم کر دیجیے۔ یہاں کوئی بھی ایسا نہ ہو جو ہماری گفتگو سُن سکے۔“
بادشاہ نے تخلیہ کا حکم دیا اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔ اب خواب گاہ میں صرف غزل اور طبیب رہ گئے۔
طبیب نے اطمینان پا کر غزل سے کہا ”ہر علاقے میں وہاں کے خاص طبیب ہوتے ہیں جو مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج کرتے ہیں۔ مجھے بتاؤ کہ تُم کِس علاقے سے تعلق رکھتی ہو؟ کہاں کہاں رہی ہو؟ ممکن ہے ہمیں اِسی مناسبت سے علاج شروع کرنا پڑے۔“
غزل نے طبیب کو اپنی جنم بھومی سے شروع ہو کر تمام قصبوں شہروں کا بتایا۔ اپنے گزشتہ آقاؤں کے متعلق بھی معلومات دی۔
اِس دوران طبیب نے غزل کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور محوِ انتظار تھا کہ کِس قصبہ یا شہر یا شخص کے نام پر غزل کی دھڑکن تیز رفتار ہوتی ہے یا سِرے سے دھڑکنا ہی بھول جاتی ہے۔
کسی بھی موقع پر دھڑکن بے اعتدال نہیں ہوئی۔ اچانک طبیب نے پوچھا ”تُم نے ثمرقند کا ذکر نہیں کیا۔ کیا تُم وہاں بھی رہی ہو؟“ اُسی لمحہ دھڑکن میں تغیر آ گیا۔ غزل نے بتایا کہ وہ ثمرقند میں ایک سنار کی غلامی میں بھی رہی ہے۔ اِس دوران غزل کے چہرے پر سُرخ اور زرد رنگ آتے جاتے رہے۔
طبیب نے پوچھا ”ثمرقند میں کِس جگہ سُنار کا گھر تھا؟“ غزل نے بتایا ”سرائے پُل کے قریب شاہراہِ غتافر پر۔“
بالآخر طبیب نے کہا ”میری بچی۔ تُو فکر نہ کر۔ مجھے تمہاری بیماری کا معلوم ہو چکا ہے۔ مَیں تمہیں طِب کے ایسے طلسم دکھاؤں گا کہ تُم حیران رہ جاؤ گی۔ خوش ہو جاؤ اور اب غم نہ کرو، مَیں تمہارے ساتھ وہ کرنے والا ہوں جو بارش ایک چراگاہ میں کرتی ہے۔ اب تُم اپنے تمام غم اور امراض مجھے سونپ کر فکروں سے آزاد ہو جاؤ۔ مَیں شفقت میں تمہارے سو والدوں سے بڑھ کر ہُوں۔ ہماری جو گفتگو ہوئی ہے، اِسے راز رکھنا، بادشاہ کو بھی نہ بتانا۔ بِیج تبھی کارآمد درخت بنتا ہے جب اُسے زمین کے سینے میں دفن کر دیا جائے۔ اِس راز کو بھی دفن کر دو۔ چل میری بچی، اب آرام کرو۔“
طبیب اِس ملاقات کے بعد بادشاہ کے پاس چلا گیا اور کہا ”ثمرقند میں فلاں جگہ اِس نام کا سُنار رہتا ہے۔ غزل کے علاج میں اُس کا اہم کردار ہو گا۔ اُسے عزت و احترام کے ساتھ یہاں بلوا لیجیے اور کچھ عرصہ یہیں رکھنے کا بندوبست کر دیجیے۔“
بادشاہ نے انعام و اکرام کے ہمراہ اپنے دو قاصد ثمرقند روانہ کر دیے۔ قاصدین نے بہت شاہی رکھ رکھاؤ کے ساتھ سُنار کو بادشاہ کا پیغام پہنچایا کہ آپ کے ہُنر کے چرچے ہیں، بادشاہ کے بہت سے جواہرات کو درست کرنا ہے۔ چلیے ہمارے ساتھ۔ آپ کی واپسی کچھ ماہ بعد ہو گی۔
سُنار اِس غیرمتوقع پذیرائی پر بہت خوش ہوا اور قاصدین کے ہمراہ شاہی لباس میں روانہ ہو گیا۔ شہر کی گلیوں میں، عربی النسل قیمتی گھوڑے پر بیٹھے سُنار کو دیکھتے ہوئے، ہر کوئی محوِ حیرت و حسرت تھا۔
آخرکار اُسے بادشاہ کے حضور پیش کر دیا گیا۔ بادشاہ بہت تکریم سے پیش آیا اور اُسے قیمتی ترین طلائی زیورات کی نگہبانی کا شعبہ تفویض کر دیا۔
اگلے دن طبیب نے بادشاہ سے کہا ”حضور، غزل کی شادی سُنار سے کر دیجیے۔“ بادشاہ حیرت زدہ رہ گیا مگر اُسے طبیب پر اعتماد تھا۔
غزل کو معلوم ہوا کہ اُس کی شادی کسی اجنبی سے ہونے لگی ہے۔ اُسے زیادہ دُکھ اِس لیے نہیں ہوا کیونکہ بار بار اُس کے آقا بدلتے رہے تھے۔ لونڈیوں کی شادیاں بھی آقا بدلنے والا معاملہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے آقا نرم دل ہو، ممکن ہے شوہر ظالم ہو۔ بات لونڈی یا زوجہ کی نہیں، حُسنِ معاملات کی ہے۔
چوہدویں کی رات جب چاندنی اور قندیل کی روشنی میں غزل نے اپنے شوہر کا چہرا دیکھا تو اُسے یقین نہ آیا۔ یہ تو وہی چہرا ہے جو پوری کائنات میں اُسے نظر آیا کرتا ہے۔ اُدھر سُنار کو بھی حیرت کا جھٹکا لگا۔ دونوں گلے لگ کر روتے رہے.. اُنہیں تو حقِ زوجیت ادا کرنے کا خیال بھی نہ آیا، اتنا روئے.. روتے چلے گئے.. روتے گئے۔
اے دوست، سُنار کی حالت جانتے ہو؟ جب ثمرقند میں غزل اُس سے بچھڑ گئی تھی تب سُنار نے زیادہ دِل پر نہیں لیا تھا۔ لیکن جدائی میں عاشق کی شعائیں محبوب کو حصار میں رکھتی ہیں۔ غزل نے اتنا شدید عشق کیا تھا کہ دُور پار سُنار کا لوہا دِل مقناطیس میں بدل گیا تھا۔ وہ بھی غزل کے چلے جانے کے بعد اُس کے عشق میں مبتلا ہو چکا تھا۔ سُنو، عاشق محبوب سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ محبوب کی شان میں تعریفوں کے پُل باندھنے والو! محبوب کا مقام اپنی جگہ مگر محبوب کچھ بھی نہیں اگر عاشق کی طاقت اُسے پرواز نہ دے۔
غزل اور سُنار نے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ چہرائے محبوب دیکھ دیکھ کر، جامِ محبت کے جام نوش کر کر کے، اگلے چھ ماہ میں غزل پوری طرح صحت یاب ہو گئی۔ مرضِ عشق کی بس یہی دوا ہے۔
خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ سُنار آب و ہوا کی تبدیلی اور ضرورت سے زیادہ آسائشوں کی آسان فراہمی کے باعث بیمار ہو گیا اور ہوتا ہی چلا گیا۔ اُس کی رنگت پھیکی پڑ گئی اور وہ چلنے پھرنے کا قابل نہ رہا۔
غزل نے سُنار کی بیماری سے پہلے اُس کے ساتھ اتنا وقت گزار لیا تھا کہ وہ اپنے طویل زمانہء فراق کو بھول چکی تھی۔ سُنار اُس کی دسترس میں تھا۔
اے دوست، اِس کے بعد وہ ہوا جو اُس وقت ہوتا ہے جب پیاس باقی نہ رہے۔ ایک بار دل بھر کے مشروب پی لیا جائے تب مزید مشروب پینا ممکن نہیں رہتا۔ مشروب سے محبت قائم رکھنے کے لیے پیاس ضروری ہے۔ محبوب دسترس میں آ جائے تو وہ محبوب نہیں رہتا۔
چناچہ سُنار کو اپاہج اور لاغر حالت میں دیکھ دیکھ کر غزل کے دل سے سُنار کا عشق رفوچکر ہونے لگا۔ اگر سُنار اُسے محل میں پہلے دِن ہی لاغر حالت میں ملتا تو پھر بھی عشق کم نہ ہوتا بلکہ مامتا میں بدل کر محبوب کی رکھوالی کرتا۔ مگر شروع کے اچھے دنوں نے رفتہ رفتہ عشق کو عامی کر دیا تھا۔
سُنار سال بھر اِسی حالت میں رہا اور پھر انتقال کر گیا۔ غزل کو صدمہ ضرور ہوا مگر وہ بیمار نہ ہوئی۔
بادشاہ کو غزل سے نکاح کی ضرورت نہ تھی، وہ خودکار طریقے سے دوبارہ لونڈی بن گئی تھی۔
اے دوست، اِس کہانی میں عشق کی ناقدری ملاحظہ کی؟ یہی وجہ ہے کہ یہ کائنات اہلِ عشق کو ملنے نہیں دیتی۔ عشق بہت قیمتی شے ہے اِس لیے اسے برقرار رکھنے کے لیے کائنات ہر حد پر جاتی ہے۔ اِسی لیے شبِ فراق شدید کائناتی شے ہے، کائنات کے خزانوں میں سے ہے۔ اور عشق اپنی ذات میں الگ سے زرخیز دنیا ہے۔
جب کبھی تمہیں محسوس ہو کہ تمہیں محبوب ملنے لگا ہے، بخارا میں سُنار کی قبر کے قریب اپنے عشق کی قبر بھی کھود لو۔
اے دوست، خدا وہی زندہ و جاوید ابدی و اذلی عشق ہے جسے زوال نہیں۔ اِسی لیے وہ نظر نہیں آتا۔
••
From English book "Tales of Mystic Meaning"
Excerpts of Masnavi Rum
by R.A.Nicholson