ہم پر رحم کر اے پروردگار! تُورحمن ہے۔ رحیم ہے۔ تیری رحمت کا کوئی کنارا نہیں!
اے اللہ! ہم گنہگار ہیں! خطا کار ہیں! ہم مانتے ہیں کہ ہماری بھاری اکثریت جھوٹ بولتی ہے۔ وعدہ خلافی کرتی ہے۔ مگر اے خدائے برتر! ہمارے معصوم بچوں پر رحم فرما! ہمارے گناہوں کی سزا ہمارے بچوں کو نہ دے!
تیری قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں! تُو انہونی کو ہونی کر سکتا ہے۔ تُو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ تونے اپنے پیغمبر عیسیٰؑ کو بن باپ کے پیدا کیا! یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ گھپ اندھیروں میں انہوں نے پکارا، تو نے سنا اور رہائی دی! یعقوب علیہ السلام کو بیٹے سے ملایا۔ ایوب علیہ السلام کو دردناک بیماری سے شفا بخشی! اے خدائے عزوجل! تو نے نارِ ابراہیم کو باغ میں تبدیل کر دیا! اے پتھر میں کیڑے کو رزق پہنچانے والے خدا! اے ایک بیج سے ہزاروں دانے نکالنے والے رازق! اے بنجر زمین کو سرسبز کر دینے والے مالک! ہم گنہگاروں پر بھی رحم فرما! ہم بدبختُوں کو اس مصیبت سے نکال! ہم پہلے دن سے جس بدقسمتی میں پھنسے ہوئے ہیں‘ ہمیں اس سے نجات دے!
اے کائنات کے رب! تُو سمندروں کو خشک کر سکتا ہے! تُو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ تُو بادلوں سے پانی برسا سکتا ہے! تُو سمندروں کو باہم ملا سکتا ہے! تُو ستاروں کی گردش روک سکتا ہے۔ تُو سیاروں کا راستہ بدل سکتا ہے۔ زمین تیری مٹھی میں ہے‘ آسمان تیرے دستِ قدرت میں لپٹے ہوئے ہیں۔ تُو قوموں کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ تُو ملکوں کا جغرافیہ تبدیل کر سکتا ہے۔ تُو سب کچھ کر سکتا ہے۔
اے ربّ کعبہ! ہم تجھے تیرے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کا واسطہ دیتے ہیں! ہم پر کرم فرما! ہماری جان اِس افغان بارڈر سے چھڑا!
اے پروردگار! اے ہر لحظہ پھیلتی کائنات کے رب ! ایک صبح ہم اُٹھیں تو افغانستان ہمارے پڑوس میں نہ ہو! اس کی جگہ کوئی ایسا ملک ہو جو مہذب ہو‘ امن پسند ہو! جس کے باشندے ناشتے میں انسان نہ کھاتے ہوں۔ جس کے کھیتوں میں بارود نہ اُگتا ہو! جس کے باغوں میں گولیاں نہ کِھلتی ہوں۔ جس کے درختوں پر کلاشنکوفیں نہ لگتی ہوں! جس کا مقبول ترین کھلونا راکٹ نہ ہو۔ جس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بارودی جیکٹ نہ ہو! اے جہانوں کے خالق! اے زمانوں کے مالک! اس خطۂ زمین پر اپنے دستِ غیب سے کوئی ایسا ملک رکھ دے جس کے رہنے والے پڑھے لکھے ہوں! جہاں یونیورسٹیاں اور کالج ہوں! کارخانے اور کھیت ہوں! جہاں مسافروں کے پاس سفری دستاویزات ہوں! جہاں کے حکمران بین الاقوامی قوانین کو گھاس ڈالتے ہوں! جہاں کے رہنے والے پڑوسیوں کو انسان سمجھتے ہوں۔ جہاں ماں باپ بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں نہ دیں، بستے اور تختیاں دیں۔ جہاں عورتوں کو گائیں بھینسیں اور بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے۔
اے انصاف کرنے والے خدا! ہم انصاف کی بھیک مانگتے ہیں! ہمارے کسان ٹھٹھرتے جاڑوں اور چلچلاتی دھوپ میں خون پسینہ ایک کر کے جو غلّہ اگاتے ہیں، ہمارے کارخانوں میں جو گھی بنتا ہے، ہماری فیکٹریوں میں جو کپڑا بُنا جاتا ہے‘ وہ سب افغانستان چلا جاتا ہے! یا اللہ! ہم کب تک اس بھوکے ننگے ملک کی پرورش کرتے رہیں گے؟ ہماری ادویات‘ ہمارا فرنیچر‘ ہمارا سیمنٹ‘ ہماری اینٹیں‘ ہمارا سٹیل‘ ہمارے مویشی‘ ہماری گاڑیاں‘ یہاں تک کہ ہماری پکی پکائی روٹیاں سب کچھ اس بارڈر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اے رب العالمین! ہمیں اس بارڈر سے نجات دے! یہ بارڈر ہمارے شناختی کارڈوں کو کھائے جا رہا ہے۔ یہ ہمارے پاسپورٹوں کو نگل رہا ہے۔ پچاس ہزار افراد ہر روز اس بارڈر کو پار کر کے آتے اور جاتے ہیں۔ نہ جانے کتنے علی حیدر‘ نہ جانے کتنے شہباز تاثیر اغواء کر کے اسے بارڈر کے پار لے جائے جاتے ہیں!
کرنل شجاع خانزادہ کو شہید کرنے والا سہیل اس بارڈر سے آیا اور واردات کر کے اس بارڈر کے پار اتر گیا! ہم کب تک اپنے بچے اغواء کراتے رہیں گے؟ ہمارے شجاع خانزادے کب تک افغانستان کی مردم خوری کی نذر ہوتے رہیں گے؟ فضل اللہ کب تک اس سفّاک ملک کی آغوش میں پناہ لیتے رہیں گے؟ قاتلوں کا یہ ملک کب تک ہماری زمین پر آگ اور خون کی ہولی کھیلتا رہے گا؟ اس ملک کی تین نسلوں کو پاکستان نے پالا! خوراک‘ لباس‘ پانی‘ ہوا‘ دھوپ‘ چاندنی سب کچھ دیا مگر ان لاکھوں مہاجروں میں سے کوئی بھی پاکستان کا وفادار نہ ہوا۔ ہمیں پھولوں کے بدلے زخم ملے۔ ہم نے پناہ دی، ہمارے گلے کاٹے گئے! ہم نے ان کے بچوں اور عورتوں کو سر چھپانے کا ٹھکانہ دیا‘ ہمارے سفارت خانے کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہی! خیبر پختونخوا کی معیشت اجڑ گئی۔ مزدور بیروزگار ہو گئے‘ ٹرانسپورٹر برباد ہو گئے۔ مگر ہمیں کیا صلہ ملا؟ اغواء‘ قتل‘ تباہی اور گالیاں!!
اے پروردگار! ہمیں اس ملک نے منشیات کے اندھیروں میں دھکیل دیا! ہمارے نوجوان نشے کا شکار ہو گئے! ہم سمگلروں کے رحم و کرم پر ڈال دیئے گئے۔ ہمارا ملک اسلحہ خانہ بن گیا۔ اس پڑوس کی وجہ سے ہم خوار اور رسوا ہو گئے۔ ہم پوری دنیا میں بدنام ہو گئے۔ ان احسان فراموشوں نے ہمارے چہرے پر کالک ملی! آسٹریلیا کا وہ پاکستانی لڑکا نہیں بھولتا جس نے روتے ہوئے بتایا: ’’انکل! میرے دفتر میں ایک افغان ہے جو پاکستان کو گالیاں دیتا ہے!‘‘ کہا‘ بیٹے! بے شک چیک کر لو! وہ پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آ کر پناہ گزین ہوا ہو گا اور اسی بنیاد پر شہریت لی ہو گی! دوسرے دن پاکستانی نوجوان نے آ کر بتایا کہ بالکل ایسا ہی ہے!!
اے خالق کائنات! ہم تجھ سے اس بارڈر سے نجات دلانے کی دعا نہ کرتے‘ مگر ہم کیا کریں! ہمارے حکمران بے نیاز ہیں! اس لیے کہ ان کے قلعہ نما محل اس بارڈر سے سینکڑوں میل دور ہیں! ان کی ترجیحات اور ہیں! انہوں نے تو اپنے ڈیروں کے نام ہی دوسرے ملکوں کی بستیوں پر رکھے ہیں‘ انہیں اس ملک کے عوام کا دکھ درد کیسے ہو سکتا ہے! یہاں تو ایسے ایسے محب وطن بیٹھے ہیں اور بلند مسندوں پر بیٹھے ہیں جو دوسرے ملکوں میں کارخانے لگاتے ہیں تو ملازمتیں اپنے ہم وطنوں کے بجائے دشمن ملکوں کے باشندوں کو دیتے ہیں!
اے قَہّار و جَبّار! ہمارے حکمرانوں کو امن و امان سے کوئی غرض نہیں! ان کی پیشانیوں پر تو کبھی ندامت کے دو قطرے بھی اس اعتراف سے نہیں چمکے کہ ملک میں ڈاکوئوں کا راج ہے! اغواء برائے تاوان انڈسٹری بن چکا ہے‘ بھتہ خوری عام ہے! یااللہ! ہمیں اُن زمانوں میں پیدا کیا ہوتا جب حکمران قاتل پکڑنے سے پہلے اپنے اُوپر پانی اور روٹی حرام کر لیتے تھے‘ اور اغواء کاروں کو ٹھکانے لگانے سے پہلے بستر پر نہیں سوتے تھے! ہمارے تو اپنے محکمے ہمارے ساتھ نہیں! ہمارے نادرا میں افغان ملازم پائے گئے، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنانے والے اہلکار دشمنوں کی خدمت کر رہے ہیں! بارڈر پر مامور ہمارے تنخواہ دار ملازم ہماری پیٹھ میں چُھرا گھونپ رہے ہیں۔
اے براعظموں کے نقشے تبدیل کرنے والے قیوم و بصیر خدا! ہماری طرف سے بے شک افغانستان کو جنوبی ہند میں فکس کر دے۔ اسے کیرالہ، تامل ناڈو کے پڑوس میں منتقل کر دے۔ اسے نیویارک اور واشنگٹن کے درمیان ڈال دے تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں! اسے بہاما منتقل کر دے یا ہوائی یا جزائر فجی میں! اے قادر و قُدّوس! ہم پر رحم فرما! اس مصیبت کا اور کوئی حل نہیں! تُو گواہ ہے کہ ہمارے اس پڑوسی ملک کے رہنے والے صدیوں سے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں کر رہے! دنیا بھر کے بازار چھان مارے جائیں تب بھی اس ملک کا بنا ہوا کوئی برتن‘ کوئی کپڑا‘ کوئی جوراب‘ کوئی پنسل‘ کوئی جوتا کہیں نہیں نظر آتا۔ کبھی نہیں دکھائی دیا! اے خبیر و علیم! تُو یہ بھی جانتا ہے کہ سینکڑوں سال مستقبل میں بھی اس ملک نے یہی کچھ کرنا ہے! ہمیں اس ڈَز ڈَز سے‘ اس مستقل چاند ماری سے نجات دلوا! اے حافظ و حفیظ! ہمارے بچوں کے مستقبل پر رحم فرما! اس بارڈر سے، خون کی اس لکیر سے ہمیں محفوظ فرما دے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“