(Last Updated On: )
1977 میں ناسا نے خلا میں نظامِ شمسی کی تحقیق اور تجزیے کے لیے ایک سپیس کرافٹ بھیجا جسکا نام تھا وائجر-1. یہ سپیس کرافٹ مشتری اور زحل کے پاس سے ہوتا ہوا اب نظامِ شمسی کے کناروں تک جا پہچا ہے جہاں سورج کی تابکاری شعاعوں کا اثر اور سورج سے نکلنے والے تابکار ذرات اور آئنز نہایت کم ہیں۔
وائجر -1 اس وقت زمین سے 24 ارب کلومیٹر دور ہے مگر یہ پھر بھی زمین سے رابطے میں ہے۔ 46 سال میں اس سپیس کرافٹ نے اپنے اندر نصب آلات جن میں کیمرا، سپیکٹرومیٹر، مقناطیست ، تابکاری اور درجہ حرارت کو ماپنے والے الات شامل تھے، سے ہم پر نظامِ شمسی کے کتنے راز آشکار کیے۔ مشتری کے چاند آئیو پر پھٹتے آتش فشاں ہوں یا زحل کے گرد وہ پتلے رِنگ جو عام طور پر نظر بھی نہیں آتے اس سپیس کرافٹ کے کیمروں نے انہیں ہمیں دکھایا۔
یہ سپیس کرافٹ ایک چھوٹے سے تھرموالیکٹرک پاور جنریٹر سے اب تک توانائی پیدا کر کے زمین سے رابطے میں ہے۔ اس جنریٹر میں موجود تابکار عناصر پلوٹونییم 238 کے ڈیکے سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور اس سے بجلی بنتی ہے جو اس سپیس کرافٹ کے کمیونیکیشن سسٹم اور سائنسی آلات کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ گو وقت کے ساتھ ساتھ اسکے کئی آلات کو بند کر دیا گیا یا وہ غیر فعال ہو گئے مگر اب بھی یہ تواتر سے نظامِ شمسی کے کناروں پر سے ہمیں ڈیٹا بھیج رہا ہے۔ زمین سے اس قدر دور ہونے کی وجہ سے اسکے بھیجے جانے والے سگنل نہایت کمزور ہوتے ہیں جنہیں ڈیٹیکٹ کرنے لیے طاقتور اور حساس اینٹیناز درکار ہوتے ہیں۔ یہ سپیس کرافٹ ہم سے اتنا دور ہے کہ اس کا سگنل روشنی کر رفتار سے سفر کرتا ہم تک ساڑھے بیس گھنٹے یعنی ایک دن سے کچھ کم عرصے میں پہنچتا ہے۔ مستقبل میں اس سپیس کرافٹ سے رابطہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہماری اینٹیناز کی ٹیکنالوجی کتنی ایڈوانس ہوتی ہے کہ وہ کمزور سے کمزور سگنل کو بھی پکڑ سکیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم مزید کئی دہائیوں تک اس سپیس کرافٹ سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔
ویسے اس سپیس کرافٹ میں ایک گولڈن ڈسک بھی موجود ہے جس میں زمین کا خلا میں پتہ، یہاں انسانوں کے بارے میں معلومات اور زمین کے حوالے سے دیگر کافی کچھ موجود ہے کہ بالفرض کسی دوسری خلائی مخلوق کا اگر اس سپیس کرافٹ سے رابطہ ہوا یا انہیں یہ ملے تو وہ ہم تک آسانی سے پہنچ سکیں اور جان سکیں کہ ہم کیسی زندگی اس سیارے زمین ہر بسر کرتے ہیں۔