یہ جو ہم پانچ فروری کو ہر سال یومِ کشمیر مناتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ دنیا کو باورکرایا جا سکے۔ ہم تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ کوہالہ، منگلا اور جانے کہاں کہاں انسانی ہاتھوںکی زنجیریں بناتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔ جلوس نکالتے ہیں، بین الاقوامی اداروں کویادداشتیں پیش کرتے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کو مسئلے کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں اوربھارت کو پیغام دیتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر پاکستان کا ہے اوریہ کہ ہم جلد یا بدیر، کشمیر لے کر رہیں گے۔ یہ سب کچھ جو ہم پانچ فروری کوکرتے ہیں‘ علامتی سرگرمیاں ہیں۔ یہ دن اس عہدِ وفا کی علامت ہے جس کی ہم تجدید کرتےہیں، اپنے ساتھ اور اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ!
تاہم اصل تیاری جو ہم کر رہے ہیں اُس کا دنیا اور اہلِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم ملک کےحالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جب کشمیر پاکستان میں شامل ہو تو ہمفخر کے ساتھ اہلِ کشمیر کو ان کا نیا وطن پیش کر سکیں۔ ہم اکثر و بیشتر اس المناکحقیقت کا رونا روتے ہیں کہ بھارتی ملازمتوں میں بھارتی مسلمانوں کا حصّہ برائے نام ہے۔ انکے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور ان کی آبادی کے مقابلے میں نوکریوں کی تعداد کچھبھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم پاکستان میں میرٹ کا بول بالا کر رہے ہیں۔ کلجب کشمیر کے نوجوان غلامی کی زنجیریں کاٹ کر اس وطن کو گلے لگائیں گے تو یہدیکھ کر پھولے نہیں سمائیں گے کہ ان کے نئے ملک میں سفارش کی ضرورت ہے نہکوئی انہیں ان کے حق سے محروم رکھ سکتا ہے۔
بیرون ملک تعیناتیوں ہی کو لے لیجیے، یہ سب مکمل ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔اصل میرٹ تک پہنچنے کے لیے پارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوں میں بیرون ملک پوسٹیںتقسیم کی جا رہی ہیں۔ یوں تو ماشاء اللہ جب سے یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے،بیرون ملک تعیناتیاں صرف اور صرف ’’میرٹ‘‘ پر ہو رہی ہیں؛ تاہم موجودہ حکومت نے اسسلسلے میں ماضی کی شفافیت کو مات کر دیا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہکشمیری بھائی آئیں تو بھارتی ناانصافیوں سے نجات پانے پر سجدۂ شکر ادا کریں۔حکومت نے بیرونِ ملک تعینات چالیس سے زیادہ کمرشل کونسلروں کو اچانک واپس بلا لیاہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ آسامیاں وفاداروں میں تقسیم کی جائیں گی۔ ان آسامیوں کوپُر کرنے کے لیے امتحان لیا گیا تھا۔ یہ امتحان لاہور کی ایک بین الاقوامی شہرت کیحامل یونیورسٹی نے منعقد کیا۔ پہلے یونیورسٹی کو بتایا گیا کہ ساٹھ فیصد یا اس سےزیادہ نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دیا جائے لیکن اس معیار سے میرٹکا حق نہیں ادا ہو رہا تھا۔ میرٹ کا بول بالا کرنے کے لیے اور قابل ترین امیدواروں کوموقع دینے کے لیے معیار ساٹھ فیصد سے کم کرکے چالیس فیصد کر دیا گیا یعنی چالیسفیصد نمبر حاصل کرنے والے بھی تعیناتی کے اہل ہوں گے! سونے پر سہاگہ یہ کہیونیورسٹی کو حکومت کی طرف سے ہدایت دی گئی کہ کامیاب امیدواروں کے نمبر صیغۂراز میں رکھے جائیں حالانکہ اس سے پہلے اسی قسم کے امتحانات کے نمبر بتا دیے جاتےتھے۔ یہ نمبر صرف وزیرِ تجارت کے علم میں ہیں جو انٹرویو بورڈ کے صدر ہیں۔ یہاں یہذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ وزیرِ تجارت ٹیکس ریٹرن ہی نہیں فائل کرتے۔
میرٹ کی اس کہانی کا دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب اخباری نمائندے نے وزارتِ تجارت کےترجمان افسر سے پوچھا کہ کیا کمرشل کونسلروں کے انتخاب میں سیاسی اثر و رسوخ کاعمل دخل بھی ہو رہا ہے؟ افسر کا جواب لاجواب تھا۔ آپ نے فرمایا… ’’سلیکشن کمیٹی کےصدر وزیرِ تجارت ہیں جو سیاست دان ہیں۔ سیاست کوئی بُری چیز نہیں…‘‘۔ تعجب ہے کہاس تاریخی جواب پر ابھی تک وزارت کے ترجمان کو کوئی تمغہ‘ کوئی انعام نہیں دیا گیا۔خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پارٹی کے بڑوں میں سخت کھینچا تانی ہو رہی ہے کہکس بڑے کو کتنی تعیناتیاں ’’الاٹ‘‘ ہوں گی!
ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمان نوجوانوں کو مبارک دیتے ہیں کہ جس پاکستان سے الحاق کےلیے وہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے ہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں اس پر خالص میرٹ کی حکمرانیہے۔
فخر کے اسباب اور بھی ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی ترقی نےاپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں سے ان کی ٹیکس چوری کےبارے میں کُھل کر دو ٹوک بات کی جائے۔ کمیٹی کے سربراہ سر میلکام برُوس نے بینالاقوامی ترقی کی برطانوی وزیر جسٹین گریننگ سے کہا ہے کہ تم پاکستانی سیاستدانوںکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیوں نہیں کہتیں کہ ’’میں برطانیہ میں ٹیکس ادا کرتی ہوںکیا تم پاکستان میں ٹیکس دے رہے ہو…‘‘؟ کمیٹی کے سربراہ کو جب
معلوم ہوا کہ پاکستان کے ستّر فیصد عوامی نمائندے ٹیکس نہیں دیتے تو ان پر سکتہ طاریہو گیا۔ وزیر بین الاقوامی ترقی نے یقین دلایا کہ وہ اپنے دورۂ پاکستان میں یہ مسئلہ اٹھائیںگی۔ اس پر کمیٹی کے سربراہ نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا کہ… ہم توقع کرتے ہیں کہیہ دورہ اس حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ کمیٹی کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہپاکستانی حکومت مدد چاہتی ہے۔ ’’یہ لوگ ہمارے ٹیکس کھا رہے ہیں لیکن خود ٹیکس نہیں اداکرتے۔ بنکوں میں ان کے اربوں پائونڈ پڑے ہیں اور پیسہ آئی ایم ایف سے مانگتے پھر رہےہیں…‘‘ کمیٹی کی ایک اور رکن (فیانا ڈونل) نے اپنے گزشتہ دورۂ پاکستان کے حوالے سےکہا… ’’میں نے عام پاکستانیوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ حکومت اسقدر بدعنوان ہے کہ اس سے کسی اچھے کام کی توقع ہی نہیں۔ ہم یہی رقم کسی خیراتیادارے کو دینا پسند کریں گے…‘‘
انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنانے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا یا نہیں؟ یہ تو نہیں معلوملیکن یہ امر یقینی ہے کہ پاکستان سے الحاق کے بعد کشمیری نوجوان اُن ناانصافیوں کوبھول جائیں گے جو بدبخت بھارتی ہندو اُن سے روا رکھے ہوئے ہیں!
پاکستان ایک باغ ہے۔ سرسبز و شاداب باغ۔ پُرامن باغ۔ جس میں ہر طرف میرٹ کے چشمےبہہ رہے ہیں۔ اے اہلِ کشمیر! خوش آمدید! ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔