بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ ایک امیر گھر میں ایک لڑکی اپنے باپ سے کہتی ہے: بابا دعا کریں بارش ہو تاکہ ہم پکوڑوں اور پکوان سے لطف اندوز ہوں۔ اسکا باپ اُسے کہتا ہے: بیٹا تمہارے پکوڑے کھانے کے چکر میں کسی غریب کا گھر نہ ڈوب جائے۔
پاکستان اور بھارت میں اس وقت مون سون کا سیزن ہے۔ مون سون کب آتا ہے؟ جب اپریل کے اختتام پر گرمی کا زور پڑتا ہے تو خشک علاقے جیسے کہ راجھستان، تھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں جبکہ بحیرہ ہند میں درجہ حرارت ان خشک علاقوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ ہوا میں موجود گیسوں کی خاصیت ہے کہ زیادہ درجہ حرارت پر انکی کےکثافت کم ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ گیس کے مالیکول ایک دوسرے سے حرارت کی صورت میں زیادہ فاصلے پر ہوتے ہیں۔ یوں گرم ہوا اوپر کو اٹھتی ہے اور خشک اور گرم علاقوں میں ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے جبکہ بحیرہ ہند میں گرمیوں میں ہوا کا دباؤ خشک علاقوں کی نسبت زیادہ۔ اب فزکس یہ کہتی ہے کہ ہوا زیادہ دباؤ کے علاقے سے تیزی سے کم دباؤ کے علاقوں میں جاتی یے۔ آپ نے کبھی دیکھا ہو کہ ٹھنڈے اے سی کے کمرے میں جیسے ہی گھسیں، ہوا کا ایک زبردست جھونکا آپکے منہ پر لگتا ہے۔
بالکل ایسے ہی بحیرہ ہند سے نم ہوائیں جنوبی ایشیا کے میدانی علاقوں میں آتی ہیں اور جون سے ستمبر تک مون سون کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
پاکستان میں بھی ہر سال مون سون سے بارشیں ہوتی ہیں۔مگر چونکہ ہمارا ملک کسی فی البدیہ مشاعرے کیطرح پچھلے پچھتر سالوں سے چل رہا ہے جس میں کبھی کسی نے پلاننگ نام کی کوئی شے نہیں سنی،۔لہذا معمول سے زرا بارشیں زیادہ ہو جائیں تو سیلاب کی صورت بن جاتی ہے۔
پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جنکا بود باش کھیتی باڑی اور مال مویشی ہے ۔ سو بارشوں کی صورت میں امیر تو کھاتے ہیں پکوڑے جبکہ غریب کو پڑ جاتے ہیں جان کے لالے۔
اس سال مون سون کی بارشوں کا 60 فیصد ہی ایک ماہ سے کم عرصے میں برس پڑا۔ نتیجہ ؟ پاکستان کے جنوبی اور خشک علاقے، سرائیکی، بلوچستان اور سندھ سیلاب میں ڈوب گئے۔
اب تک اطلاعات کے مطابق اس وقت سیلاب سے 18 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ 3.5 لاکھ افراد امدادی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں، 60 ہزار سے زائد گھر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ کل اموات ایک ہزار کے قریب ہیں۔
پاکستانی معیشت پہلے ہی دگردوں ہے جبکہ سیاست میں مرغے میں لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں عوام ہی عوام کے کام آئے گی۔ لہذا جس سے جتنا ہو سکے ہر ممکنا طور پر مدد کیجئے ۔ آپکی ذرا سی امداد بہت سے لوگوں کی جان بچا سکتی ہے۔ اُنہیں دوبارہ سے گھر دے سکتی ہے۔جان لیجئے کہ انسانیت کی خدمت سے بڑھ کر زندگی کا مقصد اور کچھ نہیں۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...