(It’s impossible to live in a country as wild where the people are assassinated over political questions (Montiel’s widow)
کسی ایسے جنگلی ملک میں رہنا ناممکن ہے جہاں عوام کو سیاسی وجوہات کی بنا پر قتل کر دیا جاتا ہو۔
_گابریٹل گارسیا مارخیزد
توہمات، مفروضے، حقیقت
یہ ایک نیا اور نادیدہ تصور تھا کہ میں ان کھنڈرات میں ان آوازوں کو سن سکتا ہوں جو صدیوں کی قید مسلسل کا شکار ہو کر باہر آنے کو بیتاب ہیں۔ آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران زندگی میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی کوئی کمی نہیں تھی، جہاں اچانک خوفزدہ کرنے والے احساس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ مبادا اس صورت میں تجسّس اور نئی دریافت سے نکلنے والے عجائب کا خیال نہ ہو تو غیر مرئی پیکر اور آواز یں آپ کو بیمار کر سکتی ہیں۔ میرے نوجوان راہب دوست کا خیال تھا کہ آواز ایک ارتعاش ہے۔ اس کی رفتار تغیر پذیر اور صدیوں پر محیط۔ وقت کے کسی بھی حصے میں آوازیں کبھی گم نہیں ہوتیں، بلکہ آہستہ آہستہ ویرانے اور کھنڈرات میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ ‘
’ کیا ایسا ممکن ہے ؟‘
مجھے یاد ہے، اس موقع پر میرا سوال سننے کے بعد نوجوان راہب کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ وہ ہنسا۔ میری طرف دیکھا پھر کہنا شروع کیا۔ ’’ روس کا معروف علاقہ وادی قاف تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کھدائی کر رہے تھے۔ اچانک انہیں احساس ہوا، کچھ عجیب و غریب آوازیں انہیں اپنی طرف بلا رہی ہیں۔ وہ جب اس مقام پر گئے تو لکڑی کے کچھ بوسیدہ ٹکرے ملے جو کشتی نوح کے جدا شدہ ٹکروں میں سے ایک تھے۔ ۔ ۔ ‘‘
راہب ایک بار پھر مسکرایا۔ ’’ ابھی حال میں چین کے پہلے خلا باز کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ خلائی سفر میں اچانک خلائی جہاز کو کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ خلائی سفر سے واپس لوٹنے کے بعد بھی چین کے خلا باز پر اس آواز کا جادو برقرار رہا۔ یہ آوازیں ہیں جو خلا میں بھی تیرتی رہتی ہیں۔ ‘‘
میں ادھر کچھ دنوں سے جن حقائق اور تجربوں سے گزر رہا تھا، وہ میرے لئے خوفزدہ اور ناقابل یقین حد تک چونکانے والے تھے۔ کھدائی سے قبل محکمہ نے تفتیش و تحقیق کا سارا کام مکمل کر لیا تھا۔ تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ یہاں صدیوں پرانی نشانیاں آج بھی محفوظ ہیں۔ اراضی کے اطراف میں کچھ میل کے فاصلے پر اس سے قبل بھی جو باقیات ملے تھے، ان کا تعلق قدیم تہذیب و ثقافت سے تھا۔ اس لئے گمان غالب تھا کہ اس بار بھی باقیات سے عہد قدیم کی کوئی نہ کوئی نشانی تاریخ کے ساتھ تہذیب و ثقافت کے باب میں اضافہ ضرور کرے گی۔ سات آٹھ مہینوں کی مسلسل کھدائی کے بعد کچھ بوسیدہ لکڑی اور پتھر کے ٹکرے برآمد ہوئے تھے، جن کو محکمہ میں وقت کا تعین کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد ناقابل یقین حد تک چونکا دینے والی کچھ ایسی باتیں سامنے آئی تھیں، جس کی وضاحت کے لئے مجھے اپنے راہب دوست کو بلانا پڑا۔ ان میں سب سے اہم بات کا تعلق آوازوں سے تھا۔ نوجوان راہب نے اس تعلق سے کئی اہم انکشافات کئے۔
’ آسمان کی فضاؤں سے آنے والی پُراسرار آوازیں کبھی کبھی محفوظ رہ جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں حیرت انگیز اور پُر اسرار آوازیں سنی ہیں۔ بلکہ کچھ سال قبل ہی بیلا روس کے ایک سنیما فوٹو گرافر نے ان آوازوں کو ریکارڈ کیا تھا، اس وقت تک یہ جدید ٹکنالوجی بھی نہیں آئی تھی۔ ابھی حال میں کنیڈا کی ایک خاتون نے بھی ان آوازوں کو ریکارڈ کیا۔ پھر اسے پتہ چلا کہ آواز ایک عورت کی ہے، جس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ ماہر ارضیات بھی بتاتے ہیں کہ ان آوازوں کو آسانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ‘
نوجوان راہب نے میری طرف دیکھا۔ ’ تم کبھیSchizophrenia کے مریضوں سے ملے ہو ؟‘
’ نہیں۔ ‘
’ میں ایسے کئی مریضوں سے ملا۔ یہ مرض ایک ناکارہ کر دینے والی ذہنی کیفیت ہے۔ مریض کے لئے حقیقی اور خیالی دنیا میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں ایک بشپ سے ملا تھا۔ وہ غیر موجود کو دیکھ سکتا تھا۔ غیر مرئی آوازوں کو سن سکتا تھا۔ بلکہ وہ اکثر ایسی طاقتوں سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ ‘
’ ہاں میں نے ایسا سنا ہے۔ ‘ میں ذرا توقف کے لئے ٹھہرا۔ ’’ چاند پر جانے والے خلا بازوں نے بھی ایسی آوازیں ریکارڈ کی تھیں۔ یہ سیٹی بجنے جیسی آواز تھی۔ ‘ میں نے اپنی فکر کا خلاصہ کیا۔ ۔ ۔ لیکن کیا ان آوازوں کو واقعی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے ؟‘‘
’ ہاں۔ کیوں نہیں۔ ‘راہب کا مختصر جواب تھا۔
میں اس جواب سے مطمئن نہیں تھا۔ لیکن مزدوروں، انجینئر اور اطراف میں رہنے والوں کی طرح مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ آثار قدیمہ کی کھدائی سے کچھ ایسے باقیات ضرور حاصل ہوں گے، جو ہمارے لئے تاریخی اعتبار سے اہم ہوں گے۔
٭٭
کھدائی کا کام پچھلے سال بھر سے چل رہا تھا۔ یہاں سے ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر آج سے پانچ برس قبل کچھ ایسے باقیات حاصل ہوئے تھے، جن سے اس بات کی امید پیدا ہوئی تھی کہ یہاں ہزاروں سال پیشتر کسی بسے بسائے شہر کے ہونے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کافی گہری کھدائی ہو جانے کے بعد مزدور یہ دیکھ کر چونک گئے کہ مٹی کا رنگ بادامی سے سیاہ ہو گیا تھا۔ اس مٹی میں پودے کے ٹکرے بھی شامل تھے۔
یہ بھی اشارہ ملا کہ ہزاروں برس قبل یہاں کاشتکاری ہوتی ہو گی۔ تحقیق سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہاں کی آبادی پانچ سے دس ہزار نفوس کے درمیان ہو گی۔ کچھ قدیم پتھروں کے زیورات ملے تھے جو اس بات کا اشارہ کرتے تھے کہ عورت کی عبادت ہوتی ہو گی۔ اور یہاں کے شہر باضابطہ گلیوں سے منسلک ہوں گے۔ آس پاس ندی ہونے کے بھی امکانات تھے۔ اسی کی بنیاد پر تحقیق کا کام مزید آگے بڑھا تو اس طرف کھدائی کا عمل شروع ہو گیا۔
کھدائی کا عمل شروع ہونے کے بعد ہی جیساکہ مزدور اور آس پاس کی بستیوں کے کچھ پرانے لوگ، گھر میں کام کرنے والی کچھ عورتیں اور علی الصباح خچروں پر سامان لاد کر لے جانے والے گجروں کے منہ سے جو کچھ بھی سننے میں آیا، وہ نہ صرف حیرت انگیز بلکہ انسانی کھال کے اندر خون کو منجمد کرنے والے واقعات تھے اور یہ سلسلے جو شروع ہوئے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ صبح ادھر سے گجروں اور کچھ تاجر پیشہ لوگوں کا قافلہ گزرتا تھا، جو خچروں پر اور گھوڑوں پر سامان لادے دور بستیوں میں تجارت کے سامان فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک صبح حیرت انگیز طور پر ان کے گھوڑے اور خچر رک گئے۔ آسمان میں بدلیاں چھائی تھیں۔ دور تک پھیلی ہوئی دھندلی سیاہ روشنی میں سامنے جو منظر تھا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ دھند میں ہزاروں گھوڑوں کی تعداد تھی اور ان سواروں کے چہرے صاف نہیں تھے لیکن گھوڑوں کو ایڑ لگاتے ہوئے یہ برابر چیخ رہے تھے اور حملہ کرنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ آواز میں ارتعاش اور گھوڑوں کی ٹاپ سے اڑنے والی مٹی کا رنگ سفید تھا۔ گجر برادری کے کچھ تاجر پیشہ حضرات اس قدر خائف ہوئے کہ خچروں گھوڑوں کے ساتھ واپس لوٹنے میں ہی بھلائی سمجھی۔ ان میں سے کچھ بخار میں مبتلا ہوئے اور کچھ ہفتوں تک اس طرف آنے میں خوف محسوس کرتے رہے۔ اس کے بعد نہ وہ گھوڑوں کا ہجوم نظر آیا نہ گھوڑ سوار مگر چشم دید گواہوں کے مطابق فاصلہ چند قدموں کا تھا اور ایسا لگتا تھا گویا وہ شب خون مارنے کی تیاری سے آئے ہوں۔ اس اطراف میں جنگوں کی خونچکاں تاریخ کے قصے بھی عام ہیں۔ اس لئے بستی کے پرانے لوگوں نے جنگجو سواروں کے بارے میں وہی قصہ دہرایا کہ دراصل یہ وہ لوگ تھے جو جنگوں میں ہلاک ہوئے مگر ان کی چیخیں ابھی بھی سیاہ رات کے سینے کو چیرتی ہوئی کبھی کبھی سنائی دے جاتی ہیں۔
اسی طرح گھروں میں کام کرنے والی کچھ عورتوں کو عقب میں کچھ سائے نظر آئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر وہ سائے غائب ہو جاتے تھے۔ ایک عورت کے مطابق غیر مرئی سائے گھر جلدی سے جلدی خالی کرنے کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ ایک سفید عورت اچانک سامنے آ گئی۔ اس عورت کے چہرے پر خوفزدہ کرنے والی کیفیت تھی وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ اب یہاں سے تم لوگ بھی بھاگ چلو۔
ان آسیبی کہانیوں کے درمیان کھدائی کرنے والے مزدوروں کے بیانات بھی تھے جو اکثر دوپہر کے بعد کچھ عجیب عجیب آوازوں کو سن کر چونک جاتے تھے۔ ان آوازوں میں بچوں اور عورتوں تک کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا تھا کہ یہاں گمشدہ آوازوں کا ایک شہر آباد ہے۔ بستی کے زندہ لوگوں کے علاوہ ایک بستی اور بھی ہے۔ یہاں جنگجو گھوڑ سوار ہیں اور خوفزدہ عورتیں، مرد، بچے۔ یہ لوگ دن رات سائے کی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ اور بات کہ روحیں نظر نہیں آتیں۔ ہاں کبھی کبھی کسی کو دکھائی ضرور دے جاتی ہیں۔
کچھ دن اور اسی طرح گزارے۔ دوپہر کا سورج جب آسمان سے آگ برسا رہا تھا، کچھ مزدور بھاگتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ اس وقت میں انجینئر اور کچھ لوگوں سے گھرا ہوا تھا اور اسی بات پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا کہ اکثر جن باتوں کو ہم واہمہ قرار دیتے ہیں، کیا حقیقت سے ان کا تعلق نہیں ہوتا؟ توہمات کی جڑوں کو حتمی اور کلی حد تک ذہن و دل سے ختم کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ میرے قابل انجینئر دوست کا خیال تھا کہ دراصل جسے ہم واہمہ کہتے ہیں، وہ علم نفسیات کی زبان میں تسلی ہے۔ یہ حقیقت ہم خود بھی جانتے ہیں کہ ان گنت ارواح ہمارے ساتھ چلتی پھرتی ہوتی ہیں۔ اس نے مردہ تہذیبوں کے ستارہ شناسوں اور کاہنوں کی پیشین گوئیوں کی ان گنت کہانیوں کو سناتے ہوئے بتایا کہ سائنس بھلے ان مشاہدات و نظریات کو رد کر دے، مگر ان کاہنوں کا خیال تھا کہ ہم مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے اور تمہارے آس پاس ہی ’ چرتے ‘ اور سیر کرتے رہیں گے۔ ٹھیک یہی ساعت تھی جب بھاگتے ہوئے مزدوروں نے تیز سانسوں کے درمیان رُک رُک کر اور خوفزدہ انداز میں بتایا کہ وہ آوازیں صاف ہیں۔ اور آپ بھی سن سکتے ہیں۔ مزدوروں کے مطابق ایک سخت دیوار ہے۔ دیوار کے پیچھے یقیناً لوہے کا ایک دروازہ ہو گا۔ کیونکہ آوازوں کے ساتھ کبھی کبھی دروازے کو پیٹنے کی صدا بھی سنائی دے جاتی ہے۔ گہری سرنگ کے باوجود ہوا کا زور ہے۔ اور آوازیں ہوا میں لہرا رہی ہیں۔ خوفزدہ کرنے والے الفاظ میں مزدوروں نے بتایا کہ آگے کھدائی کا کام دشوار ہے۔ وہ اپنی جان نہیں دے سکتے۔ وہ بضد تھے اور اس وقت انہوں نے کام روک دیا تھا۔
یقیناً یہ واہمہ نہیں تھا۔ آوازیں تھیں بلکہ آوازوں کا ہجوم تھا۔ ایک شور تھا جہاں بہت سی آوازیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئی تھیں۔ آنکھیں بند کر کے بھی ان آوازوں کو سمجھنا مشکل تھا۔ کہیں کوئی چیخ، کسی کے رونے کی صدا، کتوں کے بھونکنے کی آوازیں، بوٹوں کی ٹاپ، گھوڑوں کے ہنہنانے اور سناٹی رات میں کہیں دور جنگل سے آنے والی بھیڑیوں کی خوفناک آوازیں۔ ٹھہر ٹھہر کر کسی عورت کے رونے کی آواز۔ پھر تیز تیز بھاگنے کی آوازیں۔ اور یہ آوازیں اس دیوار سے بلند ہو رہی تھیں جو اس وقت نظروں کے سامنے تھی۔ ذرا ٹھہر کر میں نے وہ آواز بھی سنی، جس کے بارے میں مزدوروں کا بیان تھا کہ پس دیوار لوہے کا ایک دروازہ ہے۔ لوہے کے دروازے پر پڑنے والی تھاپ مختلف ہوتی ہے۔ ایسالگتا تھا کہ کچھ لوگ باہر آنے کے لئے دروازہ پر دستک دے رہے ہوں۔ اس دن سب اتنے خوفزدہ تھے کہ مزدوروں کو چھٹی دے دی گئی تاہم انہیں یہ ضرور کہا گیا کہ خوفزدہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ کھدائی ضرور ہو گی۔ مگر اس موقع پر ان کی زندگی اور تحفظ کا خیال رکھتے ہوئے سیکورٹی بحال کر دی جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ اس موقع پر ہم سب لوگ بھی موجود ہوں گے۔ ضرورت پڑی تو حفاظتی دستہ بھی بلا لیا جائے گا۔
بعض توہمات، مفروضے وقت کا طویل سفر طئے کر کے حقیقت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس رات کھانے کی میز پر میری بیوی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور بتا یا کہ وہ پچھلی تین راتوں سے خواب میں نوح کی کشتی کو دیکھ رہی ہے۔ کوئی اسے آواز دے رہا ہے کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ کشتی میں آ جائے۔
’ میرا خیال ہے تمہیں کشتی پر بیٹھ جانا چاہئے تھا۔ گو جملے کی ادائیگی میں نے مسکراتے ہوئی کی تھی۔ مگر بیوی اس عمل سے ناراض ہو گئی۔ اس نے پھر میری طرف دیکھا۔
’ بہت کچھ ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں ہے۔ ‘
’ شاید‘
’ کبھی کبھی لگتا ہے ہم چلتے پھرتے مردوں کے درمیان ہیں۔ ‘
’یہ سب واہمہ ہے۔ ‘ کہتے ہوئے میں ٹھہر گیا۔ دراصل میں بیوی کو کھدائی کے دوران پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات کی تفصیلات بتانے والا تھا۔ وہ واہمے میں گھر چکی تھی۔ اس لئے میں نے ارادہ بدل لیا۔ کھانے کی میز سے اٹھتے ہوئے بیوی نے بتایا کہ کل بیٹا کسی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ وہ اکثر کسی کے ساتھ کھیلتا ہے جو نظر نہیں آتا۔ ‘
’یہ اس فلم کا اثر ہے جو اس نے کچھ دن پہلے دیکھی تھی۔ بیٹے کو زیادہ انکریج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اسے بتایا کرو کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘
’ کیا تم واقعی تسلیم کرتے ہو کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ؟ ‘
وہ میرے جواب کے لئے رکی نہیں۔ آگے بڑھ گئی۔ میں اب سلسلہ وار ان بکھری ہوئی کڑیوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیوی کی بات کسی حد تک درست تھی۔ کہ ہم چلتے پھرتے مردوں کے درمیان ہیں۔ کاہن اور ستارہ شناسوں کی پیشین گوئیوں کے حوالہ سے یہی بات مجھے میرے انجینئر دوست نے بتائی تھی۔ کھدائی کے دوران پیش آنے والے واقعات اسی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ موجود سے زیادہ بڑی بستی نا موجود کی ہے اور خوفزدہ مزدوروں کے بیانات سننے کے بعد گمشدہ آوازوں کے نرغے میں، میں خود بھی شامل تھا۔
دوسرے روز صبح سویرے جب میں نے اپنے نوجوان راہب دوست کو تازہ تفصیلات سے آگاہ کیا، تو وہ بغیر کسی حیرانی کے، مجھ سے مخاطب ہوا۔
’ تم چاہو تو ان آوازوں کو ریکارڈ کر سکتے ہو۔ ‘
’ مگر کیسے ؟‘
جیسے آوازیں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ ‘کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’مگر، تاریخ کی تہہ تک جانا چاہتے ہو تو پھر ان آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ کرنی ہو گی۔ ‘‘
’ مطلب ایڈیٹنگ؟‘
’ ہاں۔ ‘ نوجوان راہب کی آنکھیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ’یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی آواز کس صدی کی ہے ؟ وقت کے کس فریم میں کب کس وقت کونسا حادثہ پیش آیا؟ کبھی کبھی یہ آوازیں مل جاتی ہیں تو ایک تاریخ دوسری تاریخ میں گم ہو جاتی ہے۔ ‘ وہ مسکرایا۔ ’ ’ ایسا ہوتا بھی ہے تو پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ قابیل بن آدم کی تاریخ سے لے کر اب تک صرف زمانہ بدلا ہے۔ تاریخ کی حیثیت ایک جیسی رہی ہے۔ ‘‘
’ مطلب؟‘
نوجوان راہب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ’’کبھی کبھی قدیم تاریخ کی کٹنگ پیسٹنگ سے قابیل بن آدم کے قبیلے کے بش، اوباما، ٹرمپ اور ٹانی بلیئرجیسے لوگ بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ اس نے چیخ کر کہا۔ ’’ میں ایسے کچھ اور نام بھی لے سکتا ہوں مگر ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں یہ سفر تمہارے لئے دلچسپ ہو گا۔ ‘‘
نوجوان راہب نے امیتو گھوش نام کے ایک بنگالی ساؤنڈ ریکارڈسٹ کا حوالہ دیا، جو ایسے کاموں میں ماہر ہے۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ بنگال کے لوگ ایسے کاموں کے ماہر ہوتے ہیں۔ امیتو کو اس کام میں دلچسپی تھی۔ اس نے بتایا کہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے طور پر وہ بنگال کی کئی فلموں میں اپنی خدمات دے چکا ہے۔ پیسوں سے زیادہ دلچسپی اسے اس کام میں تھی۔ گمشدہ آوازوں کو ریکارڈ کرنے کا تجربہ اس کے لئے بھی پہلا تھا۔ وہ متجسّس بھی تھا اور خائف بھی۔
اس دن میری بیوی نے بیٹے کی دوبارہ شکایت کی۔ اس نے بتایا کہ بیٹا اپنے دوست کے ساتھ باہر جانا چاہتا ہے۔
‘ باہر؟‘
’بیوی اس بار زور سے چیخی۔ ’’تم سمجھ نہیں رہے ہو۔ بیٹے کو وقت دو۔ اسے سمجھاؤ کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بات تم نے ہی کہی تھی۔
’ کیا تم بھی ایسا مانتی ہو؟‘
’ میرے ماننے یا نا ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ لیکن اسے سمجھاؤ۔ اب میں اس کی باتوں سے ڈرنے لگی ہوں۔ ‘
ایک خوفزدہ لکیر میرے چہرے کو چھوتی ہوئی گزر گئی تھی۔
گمشدہ آوازیں
یہ کھدائی کا آخری مرحلہ تھا۔ نوجوان راہب اور بنگالی ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے علاوہ آرکیالوجیکل سروے کے اسٹاف، فوٹو گرافر اور مزدوروں کا عملہ بھی اس وقت ہمارے ساتھ تھا۔ سامنے ایک وسیع و عریض ملبہ نما دیوار تھی۔ قیاس لگائے جا رہے تھے کہ عمارت کے اندر چٹان کو کاٹ کر کمرے بنائے گئے ہوں گے۔ اندرون غار نما کمرے اور اندھیری گلیاں بھی ہوں گی۔ مزدوروں کے پھاوڑے آواز کر رہے تھے۔ آوازوں کا ارتعاش اس قدر خوفناک تھا کہ جو بھی چہرے تھے، سہمے ہوئے تھے۔ مزدوروں پر بھی خوف کا اثر غالب تھا۔ اس خوفناک ماحول کو امیتو گھوش کے جملے نے راحت پہنچانے کا کام کیا۔ ۔ ۔ ۔
’ بندھو۔ ۔ ۔ ہماری دنیا ان آوازوں سے زیادہ پھوفناک ہے۔ ڈرنا کیا ہے۔ ‘
‘ خوفناک‘۔ راؤ نے اصلاح کرتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’پھوفناک نہیں ‘
میں نے دیکھا۔ ۔ ۔ ’ خوف سے اس کے دانت اب بھی کٹکٹا کر بج رہے تھے۔ انجینئر نے ٹھہاکا لگایا۔ ایک زور کی آواز کے ساتھ بھر بھری مٹی کی پرت تیزی سے زمین پر گری۔ سامنے لوہے جیسی کسی دھات کا بنا قوی ہیکل دروازہ نظر آنے لگا تھا۔ دو تین گھنٹوں کی زور آزمائش کے بعد اب سارا منظر صاف تھا۔ قوی ہیکل دروازے پر مٹی کی موٹی پرت جمی تھی اور ایک عجیب سا بہت بڑا تالا جھول رہا تھا۔ آرکیا لوجیکل سروے کے ایک نمائندے نے قیاس لگایا کہ کوئی بہت بڑی بلا یا آسمانی آفت نازل ہوئی ہو گی اور بستی کے لوگ یہاں سے فرار ہوئے ہوں گے۔ آفات کا شکار وہ باہر کی دنیا میں نہ ہوں، اس لئے یہاں آسیبی شکل کا بنا ہوا تالا لگا دیا گیا۔ دروازہ کی حیثیت شہر میں داخل ہونے کی ہو گی۔ یہیں سے تجارت اور دوسرے کاموں سے باہر کے لوگ بھی آتے ہوں گے۔ یقیناً یہ صدر دروازہ رہا ہو گا۔ ایک عجیب سی بدبو یا گیس غار نما فصیل کے اندر پھیلی ہوئی تھی۔ ہمارے ساتھ حفاظتی دستہ اور ڈاکٹر بھی تھے۔ اس وقت سب نے ماسک سے اپنے چہروں ک حفاظت کی ہوئی تھی۔ ہمارے پاس ٹارچ کے علاوہ بھی روشنی کا انتظام تھا۔ یقیناً محکمہ آثار قدیمہ سے وابستہ عملوں کو ایک بڑی کامیابی ملنے کی امید تھی۔
اب ہم خوفناک آوازوں کی دنیا میں تھے۔ عجیب عجیب آوازیں۔ جیسے کوئی رو رہا ہو۔ ۔ چیخ رہا ہو۔ ۔ پھر آوازیں یکسر تبدیل ہو جاتیں۔ جیسے جنگ کا ماحول ہو۔ توپیں داغی جا رہی ہوں۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ کے ساتھ ہاتھیوں اور دوسرے جانوروں کی خوفناک آوازیں بھی تھیں۔ جیسے ہاتھیوں کی فوج انسانوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہو۔ اندر داخل ہوتے ہی مکڑیوں کے بے شمار جالے نظر آئے۔ زمین پر کائی جمی تھی۔ آگے کچھ خندق بنے ہوئے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ مشعل رکھنے کے لئے خانے بنے ہوئے تھے۔ چھپکلیوں اور رینگنے والے سانپوں کی سرسراہٹ کے شور بھی آوازوں کا حصہ تھے۔ گھوش نے اپنا سسٹم کھول لیا۔ فوٹو گرافر تصویریں اتارنے لگے۔ آرکیالوجیکل سروے والے اپنی تحقیق میں مصروف ہو گئے۔ میں اب بھی چاروں طرف نظر ڈال رہا تھا۔ قدیم شہر کی شکست خوردہ فصیل کے صدر دروازے سے اندر کا حصہ اس قدر آسیبی اور ڈراؤنا تھا کہ پسینے نکل آئے تھے۔ ایک عظیم کھنڈر جس کے حصار شکستہ اور چاروں طرف ویرانی اور بربادی کے آثار۔ خدا معلوم کسی بڑے حادثہ یا آفت کا ظہور یہاں ہوا ہو۔ دائیں طرف ایک ٹوٹا ہوا مجسمہ تھا۔ ایک بت کے سینے پر سرطان نما پھوڑے نظر آئے۔ پھر ایسا ہوا کہ مجھے اس شکستہ بت میں تھوڑی سی ہلچل نظر آئی۔ شاید ہم واہموں کے درمیان گھر گئے تھے۔ چاروں طرف مٹی کے تودے یا ملبے۔ حد فصیل سے آگے بے ہنگم چٹانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ کیا آسمان سے عذاب نازل ہوا ہو گا؟ اب ایسی آوازوں کا شور تھا جیسے کچھ لوگوں کا قتل کیا جا رہا ہو۔ ان میں بچوں کی آوازیں سب زیادہ نمایاں تھیں۔ اچانک یہ آوازیں گم ہو گئیں۔ اب موسلا دھار بارش کی آواز تھی۔ سیلاب اور تیز اٹھتی ہوئی لہروں کا شور تھا۔ ۔ ۔ جیسا شور عام طور پر سونامییاسمندر میں آنے والے جوار بھاٹا سے پیدا ہوتا ہے۔ اس شور میں انسانی آوازیں بھی تھیں۔ ۔ ۔ میں بنگالی ساؤنڈ ریکارڈسٹ اور اس کے ساتھی کو انہماک سے اپنے کام میں مصروف دیکھ رہا تھا۔
قصہ مختصر، ان کھنڈرات سے جو باقیات و نوادرات حاصل ہوئے وہ شعبۂ تحقیق کے حوالہ کر دئے گئے۔ ایک ہفتہ کی مسلسل تحقیق کے دوران آوازوں کے شور میں غیر معمولی گراوٹ آئی۔ اور آہستہ آہستہ آوازیں گم ہو گئیں۔ ممکن ہے، جیسا قیاس لگایا گیا کہ دروازہ کھلنے کے عمل کے دوران آہستہ آہستہ یہ آوازیں فضا میں تحلیل ہوتی چلی گئیں۔ مجسمے، لکڑی کے کندے، برتن، اوزار جیسی تمام اشیا پر اب شعبۂ تحقیق کا حق تھا۔ امیتو گھوش نے گھنٹوں کے حساب سے ریکارڈنگ کی تھی۔ اور اب مسئلہ ایڈیٹنگ اور کٹنگ پیسٹنگ کا تھا۔ میں ابھی بھی اس شک میں مبتلا تھا کہ ان غیر مرئی پُر اسرارآوازوں کی ریکارڈنگ ہوئی بھی ہو گی یا نہیں۔ مگر بقول امیتو، جدید صوتی آلات خلائی دھڑکنوں کو بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔
سو گھنٹے سے زائد کی فُٹیج کو دوبارہ سننے کا خیال ہی رونگٹے کھڑے کرنے والا تھا۔ ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ ، کبھی کبھی کھنڈرات سے ملنے والے باقیات کی تحقیق میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ جب تک تحقیق سے وقت اور صحیح حالات و واقعات کی تفصیلات سامنے نہ آئیں، کیا ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی تشویش میں مبتلا کرنے والا تھا۔ ایڈیٹنگ کے عملے میں ایسے بھی لوگ تھے جو ایک زمانے سے قدیم زبانوں پر کام کر رہے تھے۔ ساتھ دینے کے لئے نوجوان راہب بھی اب اس عملہ کا حصہ تھا۔ امیتو کا خیال تھا کہ غیر مرئی آوازوں کا رشتہ مختلف تہذیب، ادوار اور واقعات سے ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اب یہ ریکارڈنگ مختلف ادوار اور حادثات کا ایک کولاژ ہے۔ ممکن ہے، مختلف مواقع پر کائنات کی پرتوں میں بکھری قدیم، صدیوں پرانی آوازوں نے ایک جگہ بسیرا کر لیا ہو۔ اس لئے تاریخ کی روشنی میں سلسلہ وار ان آوازوں کو الگ کرنا ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ تاہم ناممکن ہرگز نہیں۔ اس کی صلاح تھی کہ پہلے اکیلے اس کو اوراس کی ٹیم کو کام کرنے کا موقع دیا جائے کہ اپنی صلاحیت اور بصیرت کے مطابق ان غیر مرئی آوازوں کی ایڈیٹنگ کر کے الگ الگ خانوں میں ڈالا جا سکے۔ اسطرح یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس صوتی کولاژ میں کتنے حادثات و واقعات کی تفصیلات درج ہیں۔ امیتو کے لفظوں میں، صرف زمانہ بدلتا ہے۔ ظلم کے طریقے بدلتے ہیں۔ مرنے کا عمل ایک جیسا ہوتا ہے۔
٭٭
ایک ماہ کی غیر معمولی محنت اور مشقت کے بعد امیتو نے غیر مرئی آوازوں کو کولاژ سے نکال کر الگ الگ کہانیوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسٹر راؤ جولنگوئسٹک کے استاد تھے اور اردو شاعری کا ذوق رکھتے تھے، ان کا خیال تھا، یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے۔ اس لئے لامحدود وقت کے فریم میں کون سی آواز کہاں کی ہے، اس کو سمجھنا مشکل ہے۔
سمندر کی طغیانی اور شور کے ساتھ شروعات میں کچھ ایسی آوازیں تھیں جو جنگ کے ماحول کو پیش کر رہی تھیں۔ وہ اچانک ٹھہرے۔
’ غور سے سنئے۔ یہ لشکر کی آوازیں ہیں۔ ممکن ہے معرکہ کا دن آ گیا ہو۔ یہ نقارے کی چوٹ پڑی اور یہ چیخیں۔ یہ چیخیں بتاتی ہیں کہ فوجیں ایک دوسرے سے صف آرا ہیں۔ گھمسان کا رن پڑا ہے۔ بچے رو رہے ہیں اور عورتوں کے رونے کی آوازوں میں ہاتھیوں اور گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ اچانک یہ آوازیں قتل عام کے شور میں تبدیل ہو گئیں۔ اس شور ہنگامے کے دوران ایک ایسی آواز ابھری کہ نوجوان راہب ٹھہر گیا۔
’یہ آواز۔ ۔ ۔ ۔ ؟
’ ہاں یہ آواز کچھ جانی پہچانی سی ہے۔ ‘
’ مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ لنگوئسٹک کے ماہر راؤ نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ۔ ۔
’ آہ، ہر دور میں یہ آوازیں ایک جیسی رہی ہیں۔ ‘ نوجوان راہب کی آنکھیں بند تھیں۔ کچھ توقف کے بعد اس نے آنکھیں کھول دی۔ امیتو گھوش کو کہا کہ وہ ریکارڈنگ کو ذرا پیچھے لے جائے۔ آواز اب صاف تھی۔ شاید یہ جشن کا ماحول تھا۔ جنگوں کے بعد کے جشن کا ماحول۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ آواز صاف تھی۔ امیتو نے ایک بار پھر ریکارڈنگ کا یہ حصہ دوبارہ سنایا۔ ۔ ۔
’یقینی طور پر یہ ہمارے یہاں لڑی جانے والی جنگیں نہیں ہو سکتیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘ راؤ کا خیال تھا۔
کیوں نہیں ہو سکتیں ؟ نوجوان راہب کی نظریں جھکی تھیں۔
’ ممکن ہے یہ قدیم جنگوں کی آوازیں ہوں۔ صلیبی جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔ منگول حکمراں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ حکمراں جن شہروں میں پہنچے، وہاں ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ ۔ ۔ ۔ ‘
’ مگر ٹھہرو۔ ۔ ۔ یہ لہروں کی آوازیں۔ ۔ ۔ کیا یہ آوازیں دریائے سندھ کی ہیں۔ ۔ ۔ ‘
مجھے خیال آیا، کچھ روز قبل میری بیوی نے حضرت نوح کی کشتی کو لے کر ایک خواب دیکھا تھا۔ کیا ہزاروں سال پرانی آوازیں۔ ۔ ۔ ؟
نوجوان راہب نے میرے دل کی بات پڑھ لی تھی۔ وہ مسکرایا۔ ۔ ۔ ۔ ’ آوازیں کبھی نہیں مرتیں۔ وہ افق میں، خلا میں، کائنات میں تیرتی رہتی ہیں۔ ‘
’ پھر تو ہم ان آوازوں کا سراغ نہیں لگا سکتے۔ ۔ ۔ ‘ میں نے پرتجسس نظروں سے راؤ کو دیکھا۔ راؤ نے میری طرف دیکھا۔ ’ ایک بات جان لیجئے۔ آثار قدیمہ سے حاصل ہونے والے باقیات اور گمشدہ آوازوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ جو باقیات ملے وہ کسی ایک عہد کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان آوازوں میں بیک وقت بہت سی آوازیں شامل ہیں۔ ‘
امیتو گھوش نے قہقہہ لگایا۔ اور کوئی ضروری نہیں کہ آواز میچنگ کے ساتھ میں نے سلسلہ وار جو کچھ بھی ایڈٹ کیا ہے، وہ صحیح ہو۔ ہم ساؤنڈ سسٹم میں صرف آواز میچ کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر یقین کر لیتے ہیں کہ یہ آوازیں کسی مخصوص عہد سے وابستہ ہیں۔ اکثر و بیشتر بڑا سے بڑا ساؤنڈ ریکارڈسٹ اس عمل میں دھوکہ کھا جاتا ہے۔ ۔ ۔
’ ٹھہرو۔ ۔ ۔ ‘ نوجوان راہب نے روکا۔ ۔ ۔ جیسے یہ آواز۔ ۔ ۔ یہ جانی پہچانی آواز۔ ۔ ۔ ‘ وہ مسکرایا۔ ۔ ۔ پھر یہ آواز دریائے سندھ کی موجوں میں غوطہ کیوں لگا رہی ہے ؟ ذرا فاروڈ تو کرو۔ ۔ ۔
میتھیو نے حکم کی تعمیل کی۔ اب منظر بدل گیا۔ بدلی بدلی ہوئی آوازیں تھیں۔ ان آوازوں میں گرجا گھر کے گھنٹوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ اس کے بعد تیز دوڑنے بھاگنے کی آوازیں۔ ۔ ۔ زنجیریں توڑنے ہلانے کے دوران کچھ خفیف سی آوازیں تھیں جن کے بارے میں راؤ کا خیال تھا کہ یہ فرانسیسی لوگ ہیں۔ ممکن ہے خونی انقلاب فرانس کے وقت کی آوازیں ہوں۔ جب پورے فرانس میں فسادات پھوٹ پڑے۔ چرچ مسمار ہوئے۔ محلات لوٹ لئے گئے۔ مشتعل عوام نے حکمرانوں نے خلاف بغاوت کر دی۔ ‘
نوجوان راہب مسکرایا۔ ۔ ۔ ’ کچھ برسوں تک فرانس ری پبلک رہا۔ پھر نپولین نے تخت سنبھال لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز تک نیپولین زیادہ تر یوروپ پر قبضہ کر چکا تھا۔ ۔ ۔ اب ان آوازوں کو سنیئے۔ ۔ ۔ ‘ وہ مسکرایا۔ یہ موسیقی کی آواز ہے۔ جنگ اور دل دہلا دینے والی چیخوں کے درمیان بانسری کی آواز۔ کیا یہ نیرو ہے جو بانسری بجا رہا ہے۔ ؟ اور ابھی جو نسوانی چیخیں تھیں، وہ ممکن ہے، نیرو کی ماں کی آواز ہو جس کا اس نے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ یا اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب بیوی کی، جس پر وہ تشدد کے پہاڑ توڑ تا تھا۔ ۔ ۔ اب یہ آوازیں سنیئے۔ یہ جلتے ہوئے روم کی بھی ہو سکتی ہیں۔ انقلاب فرانس کی بھی۔ ۔ ۔ بلکہ میں کہہتا ہوں۔ ۔ ۔ بغاوتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ حکمراں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اب یہ آواز سنیئے۔ ‘
’یہ تو وہی آواز ہے۔ ‘ راؤ چونک گئے تھے۔ ۔ ۔
’ جان پہچانی آواز۔ ۔ ۔ ‘
نوجوان راہب نے کہا۔ ۔ ۔ اور ایسا لگتا ہے یہ آواز ابھی کی ہے۔ پھر یہ آواز عہد گم گشتہ تک کیسے پہنچی۔ ۔ ۔ ؟‘
٭٭
اس روز دیر رات تک ہم اس پُر اسرار آواز کے تعاقب میں رہے جو وقت کے ہر فریم میں موجود تھی۔ کیا وہ شخص ہنس رہا تھا؟ کیا وہ آواز کسی حکمراں کی تھی جو ہر ظلم، زیادتی اور بربریت کے بعد کبھی ٹھہاکا لگانے اور بانسری بجانے پر مجبور تھا۔ ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی آواز صدیوں پر محیط وقت کے ہر فریم میں رقص کرتی پھر رہی ہو؟ گھر آنے کے بعد میں نے سب سے پہلے لباس اتارا۔ غسل کیا۔ غسل سے فارغ ہو کر آیا تو بیوی نے ڈنر لگا دیا تھا۔ وہ میرے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ ۔ ۔ بیٹا اس درمیان سوگیا تھا۔ بیوی نے بتایا کہ بیٹے کا دوست ناراض ہو کر چلا گیا۔
’ چلا گیا، مطلب؟‘ کھاتے ہوئے میں اچانک چونک گیا۔
’ تمہیں بتایا تھا نا۔ وہ بیٹے کو باہر لے جانے کی ضد کر رہا تھا۔ ‘
’ ہاں۔ ‘
’ بیٹا ساتھ نہیں گیا تو وہ ناراض ہو کر چلا گیا۔ ‘
’ اس کا مطلب اب وہ اس گھر میں نہیں ہے ؟‘
کیا تم بیٹے کی بات کا یقین کرتے ہو؟ بیوی مسکرائی۔ ’ پہلے مجھے بھی ڈر کا احساس ہوا تھا۔ پھر لگا، وہ کہانیاں بناتا ہے۔ ‘
’ اگر یہ کہانی نہ ہوئی تو؟‘
میں واقعی خوفزدہ تھا۔ وقت کے فریم میں اگر غیر مرئی آوازیں رہ سکتی ہیں تو گمشدہ غیر مرئی چہرے کیوں نہیں ؟ میں محسوس کر رہا تھا کہ کوئی ہے، جو اس وقت بھی ہماری باتیں سن رہا ہے۔ جیسے وہ آواز، جو وقت کے ہر فریم میں موجود تھی اور ایک جیسی تھی۔
٭٭
دوسرے دن ایڈیٹنگ روم میں پستہ قد راؤ لوبان اور پوجا کے سامان لے کر پہنچے تھے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ گمشدہ خوفناک آوازوں نے کسی حد تک راؤ کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ راؤ کو پوجا کرتے ہوئے دیکھ کر امیتو گھوش کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ فلم انڈسٹری میں کیمرے کی پوجا کے بغیر شوٹنگ کا آغاز ہی نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے ناریل پھوڑے جاتے ہیں۔ نوجوان راہب ان باتوں سے قطع نظر اب بھی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ گیارہ بجے سے کام شروع ہو گیا۔ ہم اس بار کچھ الگ طرح کی آوازوں کے نرغے میں تھے۔ جیسے شور کرتا ہوا باغیوں کا ایک ہجوم ہو۔ بلوہ ہو گیا ہو۔ ڈری سہمی انگریز عورتوں کی چیخیں تھیں۔ دوڑتے بھاگتے قدموں کی تیز آوازیں ان میں شامل ہو گئی تھیں، اب جو آوازیں تھیں ان کو سن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے جیل یا قید خانے کی دوسری دیواروں کو توڑا جا رہا ہو۔ پھر کچھ انگریز افسران کی چیخیں تھیں۔ جیسے انہیں قتل کیا جا رہا ہو۔ اس کے بعد توپیں داغنے کی آوازیں تھیں ایسی آوازیں جیسے بے رحمی سے انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہو۔ چاروں طرف سے چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔
راؤ نے ہماری طرف دیکھا۔ لیکن بولے کچھ نہیں۔
نوجوان راہب نے گہرا سانس لیا۔ ’ دلی کی تباہی کا منظر۔ اٹھارہ سو ستاون کا غدر۔ ۔ ۔ راؤ نے سراثبات میں ہلایا۔ ۔ پہلی آواز میرٹھ سے آنے والے باغیوں کی تھی۔ ان میں پیادہ اور سوار دونوں تھے۔ سپاہیوں نے کپتان کے ساتھ کئی انگریزوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ فوجیں جمع ہو کر قلعہ میں پہنچیں۔ افسوس، اس میں بزرگ بادشاہ کی آواز قید ہونے سے رہ گئی۔ بادشاہ کو احساس تھا کہ انگریز آسانی سے اس بغاوت کو کچل ڈالیں گے۔ ۔ ۔ ‘
راؤ نے راہب کی طرف دیکھا۔ اور اس کے بعد کی آوازیں انگریزوں کی طرف سے لئے گئے انتقام کی آوازیں ہیں۔ بادشاہ گرفتار کئے گئے۔ شہزادوں کو گولیاں ماری گئیں۔ انگریزی فوجیں دلی میں داخل ہوئیں تو شہر کے باشندوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔
’ بھیانک۔ ‘ مسٹر راؤ نے آہستہ سے کہا۔ ۔ ۔ اس کے بعد اچانک جو آواز ابھری، اسے سن کر وہ گھبرا گئے تھے۔
’ وہ یہاں بھی ہے۔ ‘
وہی مانوس سی آواز۔ ۔ ۔ نوجوان راہب نے گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ ۔ ۔ امیتو نے آواز کو ایک مقام پر روک دیا۔ اب وہ آواز لگاتار دھمک کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہی تھی۔ اس آواز میں ایک مخصوص تھرتھراہٹ تھی۔ ۔ ۔ گولیوں کے شور، توپ کی آوازوں، انسانی چیخ اور مرنے والوں کی دلخراش آوازوں نے بھی ہمیں اتنا متاثر نہیں کیا تھا، جس قدر یہ آواز ہمیں پریشان کر رہی تھی۔
یہ چائے کا وقفہ تھا۔ کمرے میں خاموشی چھائی تھی۔ نوجوان راہب اب بھی اپنی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھا۔ جبکہ راؤ کے چہرے پر خوف کی لکیر ابھر کر سامنے آ گئی تھی۔ وہ آہستہ سے بولا۔ ’ یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ ‘
نوجوان راہب نے آنکھیں کھول کر راؤ کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ’پہلے فریم سے آخری فریم تک دیکھ لیجئے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر عوام کا قتل۔ ۔ ۔ ‘
میرے سامنے مارخیز کی کہانی روشن تھی۔ ۔ ۔ ’وہ سوال جو مونیٹل کی بیوی سے اس کی بیٹی نے اپنے خط میں کیا تھا۔ ۔ کیا ایسے ملک میں رہنا ممکن ہے ؟‘
’ ریوائنڈ کرو۔ ‘ راؤ نے امیتو کی طرف دیکھا۔ ۔ ویری گڈ۔ اب فاسٹ فاروڈ کرو۔ ہم آوازوں کے ہجوم میں گم تھے۔ ۔ ۔ اب روک دو۔ راؤ نے ایک بار پھر ہمارے چہرے کا جائزہ لیا۔
’ ملک کی آزادی سے پہلے کی ایک خوفناک ریہرسل۔ لیکن ملا کیا؟ بغاوت کچل دی گئی۔ لاشیں بچھ گئیں۔ ‘
’ لیکن ان ڈیڈ باڈی سے گزرنے کے بعد ہمیں آزادی تو ملی؟ ‘ امیتو نے راؤ کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔
نوجوان راہب نے دونوں کی طرف غور سے دیکھا۔ تانا شاہی سے جمہوری نظام اور حکومت تک کیا سچ مچ کوئی تبدیلی آئی ہے ؟‘ راہب نے قہقہہ لگایا۔ ہمیں آپ وقت کے کسی بھی فریم میں کھڑا کر دیجئے۔ ہم عوام ہیں تو ہماری اصلیت زیرو ہے۔ ‘
قہقہہ لگاتے ہوئے امیتو نے مخصوص بنگالی لب و لہجہ میں کہا۔ اور ہم پر یہ آوازیں سو بار ہیں۔ ‘
’سوبار نہیں سوار۔ ‘ راؤ نے آہستگی سے کہا۔
٭٭
اچانک آوازیں بدل گئی تھیں۔ کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آواز تھی، جس کو سننے کا حوصلہ ہم میں سے کسی کو نہ تھا۔ امیتو کے فاسٹ فارورڈ کرنے کے باوجود ہم دہلا دینے والی آوازوں کی زد میں تھے۔ چائے کے مختصر وقفہ کے بعد جب دوبارہ ہم یکسوئی کے ساتھ بیٹھے تو خوفناک شور اور دھماکے کی آواز نے ہمیں اپنی جگہ منجمد کر دیا۔ دھماکہ کی آواز رکتے ہی ایک ساتھ لاکھوں افراد کے چیخنے، چلّانے، کراہنے کی آوازوں نے ہم سب کو اپنی جگہ خوفزدہ کر دیا۔ ۔ ۔
راؤ نے خوفزدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ اس وقت آئن اسٹائن کے الفاظ یاد آ رہے ہیں۔
I fear the day that technology will surpass our human interaction. The world will have a generation of idiots
میں نے راؤ کی طرف دیکھا۔ ’ جب ایک بڑی دنیا جنگ جنگ چلا رہی تھی، وہ امن کی باتیں کر رہا تھا۔ ‘
نوجوان راہب نے ہماری طرف دیکھا۔ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آوازیں تاریخ کی دو تباہ کن جنگوں کی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم جب ایک کروڑ سے زیادہ ہلاکتیں سامنے آئیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست پر ہٹلر کو افسوس تھا۔ لیکن ایک حکمراں کی طاقت کا انجام کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟‘
ہم ایک بار پھر خوفناک آوازوں کی زد میں تھے۔ چیخ، کراہوں کا بازار گرم تھا۔
راؤ نے بلند آواز میں کہا۔ بے وقوفوں کی نسل۔ ۔ ۔ انجام کیا ہوا۔ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ کر دیا۔ ان آوازوں میں جنگیں قید ہیں یا انسانی تباہی۔ ‘
نوجوان راہب مسکرایا۔ ’ اس بے رحم تاریخ کے ایک صفحے پر مسولینی کو پھانسی دیئے جانے کا واقعہ درج ہے تو دوسرے صفحے پر ہٹلر کی خود کشی کی داستان۔ حکمراں کبھی عبرت نہیں لیتے۔ ہاں ایک بات اور ہوئی۔ ‘
راہب نے راؤ کی طرف دیکھا۔ ’ ان جنگوں سے ہندوستان کو فائدہ ہوا۔ برطانیہ کمزور ہوا اور ہندوستان کی آزادی کا راستہ صاف ہو گیا۔ ‘
’ ڈو ایڈیڈ انڈیا۔ ‘ امیتو پر مذاق لہجے میں بولا۔ ہم کو کیا ملا۔ آزادی کی پچھل،
’ پچھل نہیں۔ پونچھ۔ ‘ راؤ مسکرایا ضرور لیکن اس کی آنکھیں ابھی بھی فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ’ ایک بات محسوس کیا؟ ان خوفناک آوازوں میں محبت کہیں نہیں ہے۔ محبت دلوں میں رہتی ہے۔ ‘
’ ممکن ہے۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ محبت کم ہو گئی ہو۔ اتنی کم کہ نہ وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے نہ سنائی۔ وہ ہمارے ساتھ ہی مر جاتی ہے جبکہ بدی نہیں مرتی۔ وہ تیرتی رہتی ہے۔ ‘ نوجوان راہب بولتے بولتے اچانک رک گیا۔ راؤ نے چونک کر میری طرف دیکھا۔
پھر وہی مانوس سی آواز۔ راؤ اس بار غصّے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
’ آج بس یہیں تک۔ یہ آواز ہمیں پاگل کر دے گی۔ ‘
٭٭
مانوس مگر پُراسرار آواز دیر رات تک مجھے پریشان کرتی رہی۔ ایڈیٹنگ سے فارغ ہو کر میں گھر آیا تو میرا بارہ برس کا بیٹا پڑھائی میں مشغول تھا۔ میں نے اسے پیار کیا۔ اور کچھ سوچ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ کچھ جاننے کے لئے میں نے اس کی کتابوں میں دلچسپی دکھائی۔ اس کی ہینڈ رائٹنگ کی تعریف کی۔ وہ خوش ہو کر بتانے لگا کہ میم بھی اس کی ہینڈ رائٹنگ کی تعریف کرتی ہیں۔ میں نے اچانک بات کا رخ اس کے نئے دوست کی طرف موڑ دیا۔ اچانک اس کے چہرے کی مسکراہٹ گم ہو گئی۔ اس نے، جہاں میں بیٹھا تھا، اس کے بائیں طرف اشارہ کیا۔ میں سرعت سے گھوما مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
بیٹا مطمئن تھا۔ ’ وہ نظر نہیں آئے گا۔ ‘
’ کیوں ؟‘
’ وہ سب کو دکھائی نہیں دیتا۔ مجھے دکھائی دیتا ہے۔ اور اس وقت وہ کمرے میں ہے۔ ‘
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ایسا نہیں ہوتا بیٹے۔ یہ تمہارا وہم ہے۔ بلکہ میں اسے ایڈیٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد نفسیاتی معالج سے دکھانے کے بارے میں غور کر چکا تھا۔
بیٹے نے اپنی بات جاری رکھی۔ وہ ہے۔ اور کبھی کبھی مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہتا ہے میں نہیں جاتا ہوں تو وہ غصّہ ہو کر کچھ دنوں کے لئے گم ہو جاتا ہے۔ ‘
میں نے پلٹ کر بیوی کے چہرے کو دیکھا تو وہ خوفزدہ نظر آئی۔ مجھے نوجوان راہب کی بات یاد آ رہی تھی۔ محبت اتنی کم ہو گئی ہے کہ نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی۔ محبت کے ناکارہ کل پرزوں میں تقسیم ہو کر بیٹا، میں اور بیوی صرف رسم بن کر رہ گئے تھے۔
٭٭
ہم آہستہ آہستہ اس مکمل کہانی یا غیر مرئی آوازوں کے انجام تک پہنچ رہے تھے۔ کئی سوال تھے جنہوں نے مجھے پریشان کر رکھا تھا۔ کیا یہ الگ الگ کہانیاں غیر مرئی آوازوں کے ذریعہ کوئی پیغام دینا چاہتی ہیں۔ ؟امیتو گھوش نے اتنی ہشیاری سے آوازوں کے ہر فریم کو ایک کہانی میں کیسے تبدیل کر لیا۔ ؟ کیا ہم کہانیوں کی حقیقت کاسراغ لگا پانے میں کامیاب ہیں ؟ ممکن ہے کٹنگ پیسٹنگ میں امیتو سے کوئی غلطی ہوئی ہو اور اس نے ایک آواز کا سرا دوسرے سے جوڑ دیا ہو۔ میں مطمئن تھا اگر ایسا ہے بھی تو ان تمام رونگٹے کھڑے کرنے والی کہانیوں میں کوئی تفریق نہیں۔ وقت کے لامحدود فریم میں ہر کہانی کہیں نہ کہیں ایک دوسری سے ٹکرا رہی ہے۔ شاید اسی لئے یہ کہاوت بھی سامنے آئی کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرایا کرتی ہے۔
اس بار بہت کچھ پہلے کی آوازوں سے مختلف تھا۔ اس بار بارود کے دھماکے نہیں تھے۔ ہم اس وقت چوک گئے جب اس بات کا احساس ہوا کہ ان غیر مرئی آوازوں کے درمیان مکالمے بھی سنے جا سکتے ہیں۔ ریکارڈنگ کی شروعات میں کسی بازار یا سبزی مارکیٹ سے ابھرنے والی آوازیں تھیں۔ کچھ لوگوں کی رسمی گفتگو تھے۔ یہ شہر کے باشندے تھے۔ ، جو صبح صبح عام طور پر گھر کی دیگر ضروریات سے فارغ ہو کر کام پر نکل جاتے ہیں۔ مزدور پیشہ، کالج کے طالب علم۔ ۔ ۔ تجارت سے وابستہ۔ ۔ ۔ جیساکہ ایک چھوٹے سے شہر کی عام زندگی ہوتی ہے۔ رکشہ، ٹیمپو، بس کے ہارن کی آوازیں بھی مکالموں کے درمیان ابھر رہی تھیں۔ مسٹر راؤ کا خیال تھا۔ یہ چھوٹا سا شہر یا قصبہ ہو سکتا ہے۔ ایسا قصبہ، جہاں کے لوگ ایک خوشگوار، ٹھہری ہوئی زندگی گزار رہے ہوں۔ شہروں کی زندگی میں اتنا ٹھہراؤ نہیں آتا۔
آواز تبدیل ہو گئی تھی۔ پھیری والے اور سبزی والوں کے شور تھے۔ اس کے ساتھ ہی ندی کی لہروں کی آواز بھی تھی جو دیگر آواز اور مکالموں پر حاوی تھی۔ راؤ کا ذاتی خیال تھا کہ اس آخری کولاژ میں ایسا کچھ بھی نہیں جس پر تبادلۂ خیال ممکن ہو۔ یہ ایک شہر کی آپ بیتی ہے۔ اور ایسے شہر ہندوستان میں بڑی تعداد میں ہیں۔ اس نے امیتو کو مشورہ دیا کہ فارورڈ کر کے دیکھے۔ امیتو نے حکم کی تعمیل کی۔ اگلے ہی لمحہ ہم جن آوازوں کی زد میں تھے، اس نے ہم سب پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔
راؤ زور سے چیخے۔ ’ روائنڈ کرو۔ ‘ راؤ نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔ ‘ ’مائی گاڈ۔ ۔ ۔ آپ جانتے ہیں یہ کیا تھا؟ لیکن میں سمجھ رہا ہوں۔ بہتر ہے کہ ہم شروع سے تمام آوازوں کو سننے کی کوشش کریں۔ اب سنئے۔ ۔ ۔ یہ کوئی اسکول ہے۔ ۔ ۔ بچوں کی آوازیں ہیں۔ بچے پرارتھنا کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اب یہ آواز سنئے۔ ۔ ۔ یہ مندر کی گھنٹی کی آواز ہے۔ اور یہ دیکھئے اذان ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ اور اب۔ ۔ پانی کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت تیز آواز ہے۔ ۔ ۔ امیتو۔ ۔ پلیز روائنڈ۔ ۔ ۔ یہ کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ امیتو۔ ۔ کیا یہ آوازیں صاف ہو سکتی ہیں۔ ؟‘
’ کوشش کرتا ہوں۔ ‘
پانی کی آواز، لہروں کے شور کے درمیان اب آواز کسی حد تک صاف اور سنی جا سکتی تھی۔ ۔ ۔
راؤ نے اشارہ کیا۔ ان کی باتوں پر دھیان دیجئے۔ ۔ ۔ مائی گاڈ۔ سات سو سال پرانا شہر۔ ۔ کچھ لوگ اسی شہر کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ والیوم بڑھاؤ امیتو۔ ۔ ۔ ہاں اب ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ جو لوگ باتیں کر رہے ہیں ان کی آواز میں غم و غصہ کی لہریں ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہی گھر کو توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ سات سو برس پرانے شہر کے باسی بھلا اپنے ہی گھروں کو توڑنے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں ؟ اب یہ آواز سنو۔ ۔
’ ردّی لے لو۔ ۔ ۔ ۔ ردّی لے لو۔ ۔ ۔ ۔ ‘
نوجوان راہب نے پلٹ کر راؤ کو دیکھا۔ ’ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ردّی والے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہے۔
’ امیتو۔ ۔ ۔ پلیز روائنڈ کرو۔ اور ایک بار پھر تمام آوازیں سناؤ۔ ‘
ہم بغور دھیان لگائے سننے میں مصروف تھے۔ درمیان میں پاور پلانٹ سے نکلنے والی آوازوں کی گھن گرج بھی شامل تھی۔ مرد عورتوں کی فلک شگاف چیخیں تھیں۔ اب پھاوڑے اور کدال کی آوازیں صاف تھیں۔
نوجوان راہب نے گہرا سانس لیا۔ افسوس۔ ۔ ۔ لوگ خود ہی اپنا بسا بسایا گھر ڈھا رہے ہیں۔ عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ ایک کے بعد ایک گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک لرزہ دینے والی آواز۔ ۔ ۔ یہ بسی بسائے عمارتوں کی چیخیں ہیں۔ کبھی یہ عمارتیں شہر کے سینے پر تن کر کھڑی رہتی ہوں گی۔ اب ملبے میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ۔ ‘
’ ردّی لے لو۔ ۔ ۔ ردّی بیچو۔ ۔ ‘
اس کے ساتھ ہی ٹرک اور ٹریکٹر کی آوازیں تھیں۔ سامان اتارنے اور چڑھانے کی آوازیں تھیں۔ ایسی آوازیں کہ لوگ اپنے ضروری سامان، یہاں تک کہ دروازے کھڑکیاں تک ردی کے کاروباریوں کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہوں۔ ایک کے بعد ایک ٹرک اور ٹریکٹر کے جانے کی آوازیں۔ اس کے بعد دوڑتے بھاگتے لوگوں کی آوازیں تھیں جو دلوں میں خوف برپا کر رہی تھیں۔ اب کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آوازیں تھیں۔ امیتو نے رک کر والیوم بڑھا کر آواز کو کسی حد تک صاف کرنے کی کوشش کی۔ درمیان میں کچھ جملے ایسے تھے، جنہیں سمجھنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ لیکن اب آواز صاف تھی۔ ۔ در اصل یہ کسی میٹنگ کی آواز تھی۔ ہم ہمہ تن گوش ہو کر ان آوازوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک: کیا یہ آسان ہے۔ ۔ ۔
دو۔ کوئی پراجیکٹ آسان نہیں ہوتا۔ اس پراجیکٹ پر پچاس سال سے زائد کا وقت خرچ ہو چکا ہے۔ ۔ ۔
( کچھ آوازیں صاف نہیں تھیں )
تین: کیا ہم ایک فرضی مستقبل کی بات نہیں کر رہے۔ ۔ ۔
( لائنیں سنی نہیں گئیں لیکن ان میں ہم بمشکل پاور پلانٹ، ڈریم اور پراجیکٹ کا ذکر سن سکے )۔
چار: انفارمیشن ٹکنالوجی کی نئی تاریخ میں ہم ایک مرتے ہوئے شہر کے ذمہ دار ہوں گے۔
پانچ: گھر بار، زمین، زبان، تہذیب، تاریخ۔ ۔ ۔ ایک شہر کے مرنے کا مطلب جانتے ہیں۔ ؟
ایک: پراجیکٹ کے لئے اس سے فرق نہیں پڑتا۔
چھ: ملک، شہر، انسانیت کے ساتھ قدرت، جنگل، انوائرنمنٹ کو بھی اس کی بڑی قیمت چکانی ہو گی۔ کچھ اندازہ ہے آپ کو، کہ کتنے جنگل تباہ ہوں گے ؟ سینچائی کی کتنی لاکھ ہیکٹئر زمین پانی میں ڈوب جائیں گی۔ ؟‘
ایک: پراجیکٹ فائنل ہو چکا ہے۔
سات: کیا یہاں سے ہجرت کرنے والوں کو بسانا آسان ہو گا؟
ایک: معاوضہ دیا جائے گا۔
آٹھ: ایک شہر کی موت کا معاوضہ کتنا ہو سکتا ہے ؟
( نہیں سنی گئی آوازیں۔ ماسٹرپلان، ڈیم اور پاور پراجیکٹ کا ذکر۔ پھر ہنسنے کی آوازیں، جیسے تاش کا گیم کھیلا جا رہا ہو)
اس کے بعد پانی کی لہروں کی آواز تھی۔
راؤ کی آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ ’ ہم گواہ ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں ایک شہر نے جل سمادھی لے لی۔ ۔ ۔ ‘
’ ایک تباہی سے نکل کر دوسری تباہی کی طرف۔ ہم انجان ہیں لیکن اس وقت بھی کوئی نہ کوئی ہے، جو ہمارے لئے ’جل سمادھی‘ کا انتظام کر رہا ہے۔ ‘ میں آہستہ سے بولا۔ ریکارڈنگ میں خفیف سی گڑگڑاہٹ کے ساتھ اچانک وہی مانوس سی آواز ابھری۔ راؤ تقریباً اپنی جگہ سے اچھلا۔ ۔ ۔ ’ یہ آواز یہاں بھی۔ ۔ ۔ ‘
ہم اپنی جگہ منجمد، حواس باختہ اور گم گشتہ آواز کی زد میں تھے۔ کمرے میں حبس بڑھ گیا تھا۔ انسانی تباہی کے کولاژ کے آخری فریم نے ہمیں اپنی جگہ ششدر اور مبہوت کر دیا تھا۔ کیا ایک ہنستی مسکراتی دنیا میں ایسا ممکن ہے۔ کیا کسی ماسٹر پلان، کسی ڈیم، کسی بجلی پراجیکٹ کے نام پر ایک قدیم شہر کو زمین بوس کیا جا سکتا ہے ؟ کمرے میں حبس بڑھنے لگا تھا۔ ۔ ۔ نوجوان راہب کی آنکھیں بند تھیں۔ امیتو گھوش سرجھکائے بیٹھا تھا۔ راؤ کی آنکھیں اسٹو ڈیو کی چھت کو دیکھ رہی تھیں۔
اس کے بعد ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہیں بولا۔ پہلے راؤ کمرے سے نکل کر گئے۔ اس کے بعد نوجوان راہب بھی اٹھ کر چلا گیا۔ کمرے میں اب میرے ساتھ صرف امیتو رہ گیا تھا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ ہم میں سے کوئی کچھ نہیں بولا۔ ذرا توقف کے بعد امیتو گھوش نے میری طرف دیکھا
’ کیا ویسا ہوا ہو گا؟ ‘
’ ایسا ہو رہا ہے۔ ‘ میری آواز کانپ رہی تھی۔
’ اب اس کے بعد کیا کریں ؟‘ امیتو نے میری طرف دیکھا۔
میں گہرے سنّاٹے میں تھا۔ حضرت نوح کی کشتی، انقلاب فرانس، جنگ عظیم کی تباہیوں کے بعد اب ایک زندہ شہر کو مرتے ہوئے دیکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔
میری آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ ’ان تمام آوازوں کو ڈیلیٹ کر دو۔
میں کمرے سے نکل کر باہر کی کھلی فضا میں آیا تو آسمان پر بدلیاں چھا چکی تھیں۔ سڑکوں پر پاگل کر دینے والا ٹریفک تھا۔ ٹریفک کے شور اور بے ہنگم آوازوں کی دنیا سے میں باہر نکلنا چاہتا تھا۔ وقت کے ہر فریم میں موجود وہ مانوس سی آواز ابھی بھی مجھے پاگل بنا رہی تھی۔ میں جب گھر کی طرف روانہ ہوا، اس وقت بھی میں ان غیر مرئی آوازوں کی زد میں تھا۔ بیوی نے میرے جلد آنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو اس کا چہرہ اتر گیا۔
’ وہ ڈر گیا ہے۔ ‘
’ کیوں ؟ ‘
’ اس کا دوست کہیں گم ہو گیا ہے۔ اب وہ نظر نہیں آتا۔ ‘
’یہ تو اچھی بات ہے ‘
’ نہیں۔ اب بیٹا جہاں کہیں بھی ہوتا ہے، اس کی آوازیں سنتا ہے۔ ‘
آسمان میں بجلی گرجی۔ اس درمیان اتنا ہوا کہ بارش شروع ہو گئی۔ مجھے سارا شہر پانی میں جل سمادھی لیتا ہوا نظر آ رہا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...