انسان نے سب سے پہلے ہوا سے ہلکے غباروں میں بیٹھ کر اڑنا شروع کیا۔ اس نئی ٹیکنالوجی کا عسکری استعمال انیسویں صدی میں جاسوسی کے لئے ہوتا رہا۔ فضا سے دشمن کی حرکت کی نگرانی یورپ میں ہونے والی جنگوں سے امریکہ کی خانہ جنگی تک اس طریقے سے ہوتی رہی۔ اڑنے کے اس طریقے میں وزن ہلکا رکھنا ضروری تھا، اس لئے ہتھیار استعمال نہیں کئے جاتے تھے۔ پھر رائٹ برادرز نے ہوا سے بھاری جہازوں سے اڑنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا۔ 2 اگست 1909 کو پہلا جنگی طیارہ امریکہ آرمی کا رائٹ ماڈل اے تھا۔
اٹلی اور ترکی کی ہونے والی جنگ میں اطالوی جہاز نے لیبیا میں پہلی بار جہاز کے ذریعے 1 نومبر 1911 کے ذریعے بم پھینکا۔ ترک فوج نے پہلی بار رائفل کے ذریعے جہاز مار گرایا۔ جہازوں کا عسکری استعمال شروع ہو چکا تھا۔ ابتدائی جہاز، جاسوسی اور بم گرانے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ فضائی برتری جلد ہی اس قدر اہم ہو گئی کہ اس کے خلاف دفاع کے لئے خاص طیارے بننا شروع ہوئے۔ یہ فائٹر طیارے کہلائے۔ ان کا مقصد دشمن طیاروں کو گرانا تھا۔ یہ کام جہاز کا پائلٹ مشین گن سے کرتا تھا۔
کھلی ہوا میں اور پیراشوٹ کے بغیر بیٹھا پائلٹ جان ہتھیلی پر لے کر نکلا کرتا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جرمن سپرمیسی کے وقت ایک برطانوی پائلٹ کی اوسط زندگی ترانوے گھنٹے کی فلائٹ تھی یعنی تین ہفتے۔ اس جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ پائلٹ مارے گئے۔
فضائیہ کا آرمی سے الگ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے طور پر قیام پہلی بار برطانیہ نے 1918 میں کیا۔ دوسری جنگِ عظیم تک فضائی ٹیکنالوجی عسکری تحقیق کا سب سے بڑا ایریا تھی۔ صرف بم کا ٹھیک نشانہ باندھنے کے لئے بنائی گئی نورڈن بم سائٹ پر امریکہ نے ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ کئے جو اس وقت تک تاریخ کا سب سے مہنگا پروگرام تھا۔ پروپلشن، ریڈار، جہاز محفوظ بنانے، سیٹ ڈئزائن، آلات، ہتھیار، رفتار، پیراشوٹ، رات کو اور برے موسم میں استعمال، کمپیوٹر، ایروڈائنمکس، میٹیریل فائٹر طیاروں کی ٹیکنالوجی کی پیشقدمی کا حصہ تھے۔
طیاروں کی فزکس میں آواز کی رفتار ایک حد تھی جس کے بارے میں یقین نہ تھا کہ اسے پار کیا جا سکے گا۔ ماک گیس کی فزکس کو سٹڈی کر چکے تھے اور آواز کی رفتار پر بننے والی شاک ویو کو جانتے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم میں تیز رفتار جہاز کی تیز رفتار پر ہونے والے “ماک ٹک” ایفیکٹ کا بھی علم تھا (اس میں جہاز کا رخ نیچے کی طرف ہو جاتا ہے) اور ایک تجربے میں آواز کی رفتار کے نوے فیصد تک پہنچنے پر برطانیہ کا ایک جہاز ہوا میں پھٹ چکا تھا۔ سب مسائل کو حل کر کے پہلا تجربہ کرنے کا کام کیپٹن چارلس ییگر کو ملا۔ اس تجربے کے دوران اگرچہ ان کی زندگی کے بچنے کے امکان اچھے نہیں سمجھے جا رہے تھے لیکن تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کے لئے ییگر نے دو روز قبل گھوڑے سے گر کر پسلی کا فریکچر ہو جانا بھی چھپایا۔ 14 اکتوبر 1947 وہ دن تھا جب پہلی بار کسی انسان نے آواز کی رفتار سے تیز رفتار سفر کا بییرئیر عبور کیا۔
آواز سے تیز رفتار سفر کی تحقیق امریکی ائرفورس اور قومی ایرونوٹکس کمیٹی نے مل کر کی تھی۔ جب امریکہ نے اپنا خلائی پروگرام شروع کرنا تھا تو یہ کام قومی ایرنوٹکس کمیٹی کو ہی سونپا گیا۔ نیا بنایا گیا ادارہ ناسا کہلایا۔ چاند پر قدم رکھنے اور خلاوٗں کی تسخیر کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔
آواز کا بیرئیر توڑنے پر آنے والی انتہائی اونچی آواز “سونک بوم” کہلاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوا کی کمپریشن کی لہریں ایک دوسرے کے راستے سے ہٹ نہیں سکتیں۔
انسان کی بنائی سب سے پہلی چیز کیا ہے جس نے آواز کا بیرئیر عبور کیا؟ یہ چیز چابک ہے۔ چابک لہراتے وقت اس کا آخری سرا آواز کی رفتار سے تیز سفر کر سکتا ہے اور اس میں آنے والی اونچی آواز سونک بوم ہے۔
قدرت میں کونسی چیز ہے جو یہ آواز کا بیرئیر عبور کر لیتی ہے؟ سونک بوم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والا ایک ننھا سا جھینگا پسٹل شرمپ ہے۔ یہ اپنے پنجوں کو اس قدر تیزی سے آپس میں ٹکرا سکتا ہے کہ آواز کا بیرئیر عبور کر لیتے ہیں اور پنجوں کے درمیان میں سونک بوم پیدا ہوتا ہے۔ اس کی آواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ اس سے کچھ سمندری مخلوقات سکتے میں آ جاتی ہیں یا مر بھی سکتی ہیں۔ یہ ویسے ہے جیسے کوئی تالی بجا کر کسی کو مار دے۔ کہتے ہیں کہ جو کام انسان کرتا ہے، وہ اکثر کہیں نہ کہیں قدرت پہلے کر چکی ہوتی ہے۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر ییگر کی ہے اور ان کے جہاز کی جو ایکس ون طیارہ ہے جس نے پہلی بار آواز کا بیرئیر عبور کیا۔ انہوں نے اپنے جہاز کے آگے اپنی اہلیہ کا نام لکھوایا ہے۔ یہ جہاز سمتھ سونین نیشنل ائیر اینڈ سپیس میوزیم میں نمائش پر ہے۔ چھیانوے سالہ ییگر نے آواز سے تیز پرواز آخری بار 89 برس کی عمر میں ایف 15 طیارے پر ایک اور پائلٹ کے ساتھ کی۔