آواز کی خوشبو، لفظوں کے رنگ ۔ سنستھیزیا اور نیوروڈائیورسٹی
ہم اپنے گرد دنیا میں رنگ دیکھتے ہیں لیکن یہ رنگ اس دنیا میں موجود نہیں۔ جب الیکٹرومیگنیٹک شعاعیں کسی چیز سے ٹکراتی ہیں تو ان کا کچھ حصہ پلٹ جاتا ہے۔ یہ ہماری آنکھ سے ٹکراتا ہے۔ اس کی کئی ملین ویولینتھ کے ملاپ کو ہم الگ الگ کر لیتے ہیں اور یہ صرف ہمارے ذہن میں آ کر رنگ بنتا ہے۔ رنگ ویولینتھ کی ایک ترجمانی ہیں۔ یہ اس دنیا میں باہر نہیں، صرف ہمارے اندر موجود ہیں۔
اور یہ اس سے بھی کچھ عجیب ہو جاتا ہے کیونکہ ہم ابھی صرف نظر آنے والے سپیکٹرم کی بات کر رہے ہیں۔ سرخ سے بنفشی تک۔ لیکن یہ اس سپیکٹرم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس کا دس ٹریلینواں۔ باقی سپیکٹرم، جیسا کہ ریڈیو ویوز، مائیکروویوز، ایکس ریز، گاما ریز، موبائل فون کی باتیں، وائی فائی سگنل بھی یہیں ہے۔ ہمارے اندر سے گزر رہا ہے لیکن ہم اس کو بغیر آلات کے نہیں جان سکتے۔ ہماری بائیولوجی میں اس کے ریسپٹر ہی نہیں۔ حقیقت کو جو ٹکڑا ہم دیکھتے ہیں، اس کا تعلق ہماری بائیولوجی سے ہے۔
ہر مخلوق حقیقت کا اپنے لئے مفید حصہ اٹھاتی ہے۔ ایک چچڑی کے اندھی اور بہری دنیا میں جو سگنل اس کو پتا ہیں، وہ درجہ حرارت اور جسم کی بو ہے۔ چمگادڑ کے لئے ہوا کی کمپریشن کی ویوز سے ایکولوکیشن۔ سیاہ گھوسٹ نائف فِش کیلئے برقی فیلڈ میں تبدیلیاں۔ یہ ان کے ایکوسسٹم میں حقیقت کے حصے ہیں۔ ہر ایک اس کو بس اتنا جانتا ہے جو اس کی زندگی چلانے میں مدد دے۔ ہر مخلوق کے لئے اس کا ٹکڑا ہی معروضی دنیا ہے۔
تو پھر یہ باہر کی دنیا کیسی لگتی ہے؟ نہ صرف اس میں رنگ نہیں بلکہ آواز بھی نہیں۔ آواز تو بس ہوا کا پھیلنا اور سکڑنا ہے جس کی ایک رینج کو کان پکڑ لیتے ہیں۔ اس میں کوئل کی نغمگی، بادل کی گرج اور بچے کی ہنسی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ باہر کوئی خوشبو بھی نہیں۔ ہوا میں کچھ مالیکیول پھر رہے ہیں۔ یہ ناک تک پہنچتے ہیں تو ناک ان کو خوشبو بنا دیتی ہے۔
ہماری حسیات سے اکٹھی کی گئی تمام انفارمیشن الیکٹروکیمیکل سگنل میں بدل جاتی ہے۔ خوشبو ہو، آواز، رنگ، مٹھاس یا ٹھوکر۔
تو پھر آپ کو کیسے پتا ہے کہ جو آپ کے لئے حقیقت ہے، وہی میرے لئے بھی۔ اس کا جواب ہے کہ اس کا جواب دینا ممکن نہیں لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جن کو دیکھ کر واضح طور پر بتایا جا سکتا ہے کہ حقیقت ہر ایک کے لئے بڑا مختلف مطلب رکھتی ہے۔ دنیا کی ایک فیصد آبادی کے لئے حسیات کے سرکٹ آپس میں مل جاتے ہیں۔ یہ سنستھیزیا ہے۔
شکلوں کے ذائقے، موسیقی کے رنگ، دنوں کی شکلیں۔ یہ شاعرانہ باتیں نہیں۔ آبادی کے ایک حصے کا تجربہ ہے۔ ایک آواز سن کر ذائقہ محسوس ہونا یا کسی خاص سُر پر جسم پر رگڑ سی لگنے کا احساس ہونا۔ مرغی کا سالن چکھتے ہوئے انگلیوں پر سوئی لگتے محسوس ہونا۔ لفظ پڑھتے ہوئے ان میں رنگ نظر آنا۔ یہ صرف تخیل نہیں۔کئی لوگوں کے لئے اصل تجربہ ہے اور یہ خود کئی اقسام کا ہے۔
سپیشئیل سنستھیزیا کا شکار دنیا کو تھری ڈائمنشن میں سٹور کرتے ہیں۔ وہ اشارہ کر کے بتا سکتے ہیں کہ دسمبر کہاں پر ہے جبکہ جمعے اور بدھ میں کتنا فاصلہ ہے۔
کیا سنستھیزیا ہونا بیماری ہے؟
یا پھرسنستھیزیا نہ ہونا بیماری ہے؟
ہولوکاسٹ ہو یا بیسویں صدی کے اوائل میں یوجینکس کی تحریک، اس کی بنیاد یہی تھی کہ جو ہم جیسے نہیں، وہ کمتر ہے۔ ایک آئیڈیل سوسائٹی وہ ہے جس میں ایسے لوگ نہ ہوں۔ اگر ذہنی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ نیورل ڈیزائن جو عام آبادی میں زیادہ ہے، ان سے معمولی طور بھی مختلف نیورل ڈئزائن رکھنے والے کو نارمل نہیں سمجھا جاتا۔ معاشرہ اور نظامِ تعلیم ان کو “ٹھیک” کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نارمل اور ٹھیک کی تعریف کا کوئی معیار نہیں۔ ماضی کے بڑے ناموں میں سے آئن سٹائن، موزارٹ، ٹیسلا، کیونڈش، نیوٹن، مائیکل اینجیلو مختلف درجے میں آٹزم کا شکار تھے۔ کرٹ گوڈیل، ولیم بلیک، بیتھووین، جان نیش ذہنی عدم استحکام کا شکار تھے۔
نارمل کون ہے؟ اس کی تعریف کا پیمانہ صرف یہ ہے کہ وہ جو ہم نے عام دیکھا ہو، ورنہ اس کا کوئی پیمانہ نہیں۔ نیورولوجیکل کنڈیشن کی ڈائیورسٹی قبول نہ کرنا، ان افراد کو ذہنی طور پر کمتر سمجھنا، جو عام سے ہٹ کر ہیں، یہ سب اپنے سے مختلف لوگوں کو اپنے جیسا دیکھنے کی خواہش ہے۔ جبکہ دنیا کے بڑے نامور لوگوں میں دماغی “عارضوں” میں مبتلا لوگوں کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف نیورل سرکٹ رکھنے والے دنیا کو ایک مختلف زاویے سے دیکھ سکتے ہیں۔
اگر ہر کوئی موسیقی کے رنگ دیکھ سکتا اور شکلوں کے ذائقے چکھ سکتا تو پھر جن کو یہ محسوس نہ ہوتے، وہ ایب نارمل کہلاتے۔