ادھورے خواب کا ہر مرتبہ قتلِ عمد ہونا
ہمارے بخت میں لکھا گیا ہے مسترد ہونا
حسین مجروحؔ (پاکستان)ایک باشعور شاعر ہیں‘باشعور اس لئے کہ انہیں فن شاعری کے مضمرات کا شعور حاصل ہے‘جس کا ثبوت ان کا تازہ شعری مجموعہ”آواز“ہے۔”آواز“کی قرات کے بعد ذہن میں جو مسحور کن تاثر ابھرتا ہے‘وہ ہے”خوابوں کا نقار خانہ“۔کیونکہ مجموعے کی بیشتر نظموں اور غزلیہ اشعار میں لفظ ’خواب‘کو تخلیقی استعارہ کے طور پر برتا گیا ہے لیکن یہ وہ خواب نہیں ہیں جو نیند کے محتاج ہیں اور جنہیں دیکھنے کے لئے نیند کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ یہ وہ خواب ہیں جو کسی بھی باشعور انسان اور حساس انسان کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔جو پورے ہونے پربلندی پر چڑھنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں اور بکھرنے پر مایوسی کے صحرا میں بھٹکنے پرمجبور کردیتے ہیں۔ ”آواز“کی پہلی نظم”نیند کی ٹہنی پر“میں خوابوں کے بکھرنے کی سچائی کو تخلیقی پیرائے میں یوں پیش کیا گیا ہے
سارے خواب کہاں پھلتے ہیں
اکثرخواب تو
کچی نیند کی ٹہنی پر ہی مرجاتے ہیں
باقی ماندہ
تعبیروں کے پھانسی گھاٹ
اُتر جاتے ہیں
خواب دیکھنا انسان کی فطرت ہے۔کوئی انسان اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو پورا ہونے کے خواب دیکھتا رہتا ہے اور کسی کا خواب انسان اور انسانیت کی حرمت کی بقا ہوتا ہے۔عصری پُرآشوب صورت حال سے متاثر کوئی بھی حساس انسان ہر وقت خوف سے نجات پانے اور امن پرور ماحول کے خواب کا احساس لئے پرُسکون زندگی گزارنے کا خواہش مند نظر آتا ہے‘ کیونکہ مادی وسائل کی فراہمی کے باوجود اگر انسان ذہنی سکون کے لئے بے چین ہو تو خوف کے سائے میں زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔دنیاکے خوفناک حالات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ دور فساد ہے جس کی عمارت…سیاسی‘سماجی‘مذہبی‘اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے مختلف حربوں سے تیار ہوئی ہے۔اس قسم کے انسانیت سوزماحول کی مابہ النزاع زندگی(Controversial life)کے مضر رساں اثرات انسانیت کے لئے سم قاتل ثابت ہورہے ہیں اور اس کے ذمہ دار دنیا کی وہ بے لگام طاقتیں ہیں جو بقول علاّمہ اقبالؔ”پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات“۔اس قسم کے عفونت انگیز ماحول میں کسی بھی حساس انسان کا دم گھٹ سکتا ہے اور وہ اس عفونت زدہ ماحول سے آزاد ہونے کی دعاضرور کرے گاتاکہ وہ زندگی میں راحت بھری سانسیں لے سکے۔شاعر بھی اس عفونت انگیز ماحول سے متاثر ہوکر نظم”خواب میں دیکھا دن“میں دعائیہ لہجے میں اپنی پُردرخواہش کااظہارکرتے ہوئے ایک ایسے دن کی تمنا کرتا ہے جہاں زندگی خوف سے آزاد ہو‘ کوئی بھی خوف موت بن کرموجود نہ ہو اور فاختاؤں کو کوئی ڈر نہ ہو۔جہاں صرف محبت کے بازار ہی سجے ہوں۔
کاش ایسا ہو
کبھی رات جلدی سوئیں
صبح اُٹھیں
تو زمیں پر
کسی موہوم بشارت کی طرح
اک نیا دن ہو
جسے خوف نہ ہو مرنے کا
جس کی چاہت بھری کرنوں کی سُپر داری میں
فاختاؤں کو کوئی ڈر نہ رہے‘ڈرنے کا
جس کی خوشبوئی ہوئی آنکھ کے نذرانے میں
گھر کُھلے چھوڑ کے جائیں میرے جانے والے
جُز محبت نہ خریداری ہو بازاروں میں…………….
حسین مجروح ؔکی زیر نظر کتاب ”آواز“میں شامل ایک نظم ”حسن انتظام کا تیر“کی تخلیقیت اور معنویت کسی بھی باشعور قاری کو متاثر کرسکتی ہے۔اس نظم کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم کا دھیان پہلے حسین صاحب کے تخلص یعنی ”مجروح‘ؔ‘کی معنویت کی طرف چلا گیا اور اس معنویت کو نظم میں برتے گئے تخلیقی تجربے میں ایک مجروح روح کی بھرپور عکاسی نظر آئی۔گویا‘یہ نظم حسین مجروح ؔکے مجروح روح کا شعری احتجاج ہے۔ نظم کے متن میں پوشیدہ شعری کردار کے لہجے کا اتار چڑھاو اور احساسات و خیالات کی ڈرامائی صورت حال سے ظاہر ہے کہ نظم کا تخلیقی برتاؤ‘قاری کے سامنے علامتی طورپرسیاسی و سماجی برتاؤکے دہرے معیار کو حسیاتی طور پر عیاں کر رہا ہے۔ نظم کی معنوی تشکیلیت پر غور کرنے سے ظاہر ہورہا ہے کہ شعری کردار(شاعر)کے لہجے کے اتار چڑھاو میں جوحسین لیکن گہرا طنز پوشیدہ ہے وہ نظم کے عنوان سے ہی شروع ہوتا یعنی ”حسن انتظام کا تیر“۔حسن انتظام تو بہترین انتظام کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن شاعر نے اچھوتے انداز میں تیر کا استعمال کرکے حسن انتظام کو مثبت کے بدلے منفی معنی میں پیش کیا ہے جیسے دودھ میں شکر کے نام پر زہر ملا ہوا ہو۔ نظم میں لفظوں اور تراکیب کے تخلیقی برتاو پر غور کریں توتفھیمی طور پر ایک واقعاتی تسلسل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔”صف دلبراں“کی ترکیب سماجی رویے سے زیادہ سیاسی وطیرے کی طنز آمیز غمازی محسوس ہورہی ہے کیونکہ ساختیاتی طور پر نظم کے الفاظ وتراکیب ”چارہ گر“خوئے انتقام“”قبائے خواب“”کفن“”حسن انتظام“”سر کٹانا“”بے کسوں کی آہیں“ ”نسخہ شفا“”وجہ نجات“نشہ نیند سا“وغیرہ سبھی سیاسی مسائل ومعاملات انتقام گیری کی علامتیں ہیں۔مجموعی طور پر نظم کی فضا‘کردار‘تخاطب اور مخاطب وغیرہ شعری تجربہ ایک تحیر خیز اور ظلم پرور منظرنامے کا بہترین تخلیقی اظہار ہے‘جومتنوع رویوں کے دہرے معیار کی تخلیقی توانائی سے یوں ایکسپوز ہورہا ہے۔
پھر ایک بار صفِ دلبراں سے چْھوٹا ہے
بنام چارہ گری، خْوئے انتقام کا تیر
پھر ایک بار ہوئی ہے قبائے خواب، کفن
پھر ایک چلا حسنِ انتظام کا تیر
کہا گیا ہے کہ بیمار کی شفا کے لئے
بدن کی شاخ سے، سر کاٹنا ضروری ہے
تنِ سوال طلب، بے کسوں کی آہوں سے
برہنہ غم کی طرح ڈھانپنا ضروری ہے
بیاں ہوا ہے یہ نسخہ شفا جس کو
صلائے بے خبری، بے مراد کہتی ہے
ہمارے واسطے وجہ نجات ہے گرچہ
نشہ ہے نیند سا اور موت اس میں رہتی ہے
یہ تیر چارہ گری، اعتبار کا قاتل
ہوس میں ڈوبا ہوا، زہر میں بجھایا ہوا
دلوں کے بیچ لہو کو خلیجنے والا
یہ تیر لگتا ہے پہلے بھی دل پہ کھایا ہوا
موجودہ دور کے مادیت پرست ماحول میں انسانی جذبوں پرمصنوعیت کا ایسا رنگ چڑھا ہوا ہے کہ توقیر و تعظیم کا مدار کرنسی کے محور کے گرد ہی گشت کررہا ہے۔یہ اخلاقی فساد(Moral turpitude)شرق وغرب میں یکساں طور پر پھیلا ہوا ہے۔ اس قسم کے بدلتے معیار کی عکاسی Gabriel Okaraاپنی نظم”Once Upon a Time“کے درجہ ذیل بند میں یوں کرتا ہے:
There was a time indeed
They used to shake hands with their hearts
But that's gone Son.
Now they shake hands without hearts
While their left hands search
my empty pockts. حسین مجروحؔ بھی اپنی نظم”انسان وروں کے بیچ“عصرحال کے انسان کی مادیت پرست سوچ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ کون سی مخلوق ہیں!جن کی آنکھیں چہرے کے بدلے شکم پر دکھائی دیتی ہیں اور جن کے دل مادیت کے جیب بنے ہوئے ہیں:
یہ کون مخلوق ہیں خدایا!
کہ جن کی آنکھیں
رخ شکم پر اُگی ہوئی ہیں
دلوں پہ جیبیں لگی ہوئی ہیں
زبانیں جن کی لعابِ غیبت سے تربتر ہیں۔۔۔۔
”آواز“کی بیشتر نظموں کاعلامتی برتاؤقاری کی حیرت کو انگیز کرنے میں جتنا کامیاب نظر آرہا ہے‘اتنا ہی مجموعے کی غزلیں بھی تخلیقی آب ورنگ کی عمدہ مثال دکھائی دیتی ہیں۔ان غزلوں میں سفلی جذبات کو بڑھکانے کے برعکس سنجیدہ فکر کے تجربات کی پہلوداری جگہ جگہ موجود ہے۔ان غزلوں کے بیشتر اشعارمیں سماجی صورت حال کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے اوران اشعار کو شعری تجربے کے تخلیقی رنگ سے ایسے مزین کیا گیاہے کہ ان کی تخلیقی جوہر کاری قاری کوضرور متاثر کرتی ہے:
بیچے تمام عمر جو خواہش کے نرخ پر
لینے گئے وہ خواب تو قیمت بدل گئی
اعلانِ صبح نو ہے مگر روشنی نہیں
شاید امیر شہر کی نیت بدل گئی
ہمارے خواب ہیں شاید کسی یتیمی کا مال کہ چشم تر بھی انہیں دیکھ کر گدلتی ہے
نجانے کس گھڑی منسوخ ہو اقامتی جاں
کہ جی رہے ہیں یہاں ہم قضا کے ویزے پر
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں صرّاف یہاں
اور گدا گر ہیں کہ بازار پہ چھائے ہوئے ہیں
زیر نظر شعری مجموعہ”آواز“2015ء میں رنگ ِادب پبلی کیشنز ۵ کتاب مارکیٹ‘اردو بازار‘کراچی پاکستان سے شائع ہوا ہے اور راقم کو یہ مارچ 2016ء کو بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔219 صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں اکاون نظمیں اور پچیس غزلیں شامل ہیں۔کتاب کا سرورق بھی دیدہ زیب ہے اور کتابت‘طباعت کے ساتھ ساتھ کاغذ بھی عمدہ ہے۔مطالعہ شاعری کے تعلق سے میں سمجھتا ہوں کہ شاعر کو خود بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ شعر میں کیا کہتا ہے یا کہنا چاہتا ہے (نہیں تو مجذوب کی بڑ کے معنی نکالنے کی فرصت کس کے پاس ہے۔) اس تناظر میں دیکھیں تو حسین مجروح کا کلام پڑھ کر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ اشعار کیوں کہے گئے ہیں کیونکہ ان کی شاعری میں فن بھی ہے اور تجربہ بھی‘فکرو تخیل بھی ہے اور جذبہ واحساس بھی۔ان کے کلام میں بیشتر ایسے الفاظ اور تراکیب موجود ہیں جوایک مخصوص معنی و مفا ہیم کا خوبصورت تخلیقی اظہار ہے اور جس کی تخلیقی آنچ قاری کے احساس و جذبے کو ضرور گرماتی ہے:
اے دست اجل شہر ِ خرابی میں سنبھل کے
زندہ ہیں یہاں لوگ فقط موت کے ڈر سے
ارمان گزیدہ ہوں کچھ ایسا کہ بہت کام
آغاز نہیں کرتا ہوں انجام کے ڈر سے
ہم اپنے قول پہ قائم رہے‘ سو ہار گئے
وہ سرخرو ہوا ہر بات سے مکرتے ہوئے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...