گزشتہ دِنوں ۲۴؍دسمبر ۲۰۱۸ء کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دیگر کئی ممالک میں موسیقی کے کروڑوں شائقین نے عظیم گلوکار محمد رفیع کی ۹۴؍سالگرہ مناکر ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت، قوم و ملک، دنیا بھر کے لوگ آج بھی محمدرفیع کو اُسی طرح اور اُتنی ہی شدت سے چاہتے ہیں جیساکہ اُن کی زندگی میں اُن سے محبت کرتے تھے۔
محمدرفیع ۲۴؍دسمبر ۱۹۲۴ء کو ضلع امرتسر کے کوٹلہ سلطان سنگھ نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے، جو اَب پاکستان میں ہے۔ ان کے والد کا نام حاجی علی محمد اور والدہ کا نام اللہ رکھی تھا۔ محمد رفیع کے دادا بڑے مذہبی قسم کے انسان تھے۔ وہ دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک عظیم دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کے دن پیدا ہونے والا بچہ ایک دن ساری دنیا میں اپنے نام کی دھوم مچا دے گا اور پوری کائنات اس کی آواز کے سحر میں کھو جائے گی، اس لیے کہ محمد رفیع صاحب کو تین دن تک خانہ کعبہ کی مسجد الحرام میں اذان پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔
محمدرفیع کو بچپن میں ہی گانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ جب محمدرفیع کچھ بڑے ہوئے تو قدرت نے ان سے وہ کام لینا شروع کر دیا جس کے لئے ان کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ ابھی ان کا بچپن کا ہی زمانہ تھا کہ ایک فقیر اکثر ان کے محلے میں بھیک مانگتا ہوا گزرتا تھا اور بڑی درد بھری آواز میں نعت یا منقبت پڑھا کرتا تھا۔ رفیع بڑے غور سے اس فقیر کو سنتے تھے اور کبھی کبھی اس کی آواز کو دہراتے ہوئے اس کے پیچھے دور تک نکل جاتے تھے۔ محمد رفیع کے تایا نے جب ان کا یہ رنگ دیکھا تو ہمت افزائی کی اور صوفیوں کی محفلوں میں نعت ومنقبت گانے کی اجازت دے دی۔ اس سلسلے میں ان کے بڑے بھائی محمد شفیع نے بھی ان کی بہت ہمت افزائی کی اور ان کو ایسے مواقع فراہم کرتے رہے جن میں وہ ریاض جاری رکھ سکے۔ حالانکہ ان کے والد حاجی علی محمد صاحب، محمد رفیع کے گانے کے شوق کے خلاف تھے۔ تایا اور بھائی کی مدد سے انہوںنے موسیقی کی ابتدائی تعلیم پہلے فیروز نظامی سے حاصل کی اور بعد میں استاد وحید خاں سے باقائدہ شرف تلمذ حاصل کیا۔
محمد رفیع کا بچپن کافی حد تک لاہور میں گزرا تھا۔ وہیں کسی محفل میں محمد رفیع ایک درد بھرا نغمہ گا رہے تھے۔ اس محفل میں اتفاق سے اس زمانے کے مشہور موسیقار شیام سندر بھی موجود تھے۔ وہ محمد رفیع کی آواز سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوںنے محمد رفیع کے تایا سے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم اس آواز کو فلمی گانوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا محمد رفیع نے ۱۸؍برس کی عمر میں شیام سندر کی موسیقی میں پنجابی فلم گل بلوچ کے لئے پہلا نغمہ ۲۸؍فروری ۱۹۴۱ء کو لاہور میں ریکارڈ کرایا۔ لیکن اس گیت کو زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ کچھ دنوں محمد رفیع نے لاہور کے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت بھی کی، مگر ۱۹۴۳ء میں انہوںنے ملازمت ترک کرکے بمبئی کا رُخ کیا اور ۱۹۴۴ء میں محمد رفیع ممبئی کی فلمی دنیا میں داخل ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب آواز کی دنیا میں کندن لال سہگل اور طلعت محمود جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کا سکہ چلتا تھا اور لوگ ان کی آوازوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ محمد رفیع خود بھی کے۔ایل۔ سہگل سے بے حد متاثر تھے۔ ایک بار ۱۹۳۸ء میں لاہور ہی میں کے۔ ایل۔ سہگل کا پروگرام ہو رہا تھا۔ درمیان میں لائوڈ سپیکر خراب ہونے کی وجہ سے پروگرام کے منتظم پیارے لعل سود نے ۱۴؍برس کے محمد رفیع کو اسٹیج پر گانے کے لئے کھڑا کر دیا۔ رفیع نے اپنے گانے سے تھوڑی ہی دیر میں سامعین کو متاثر کر دیا۔ اسٹیج پر موجود سہگل نے رفیع کے گانے سے متاثر ہوکر انہیں شاباشی دی اور دعا دی کہ تم ایک دن بہت بڑے گلوکار بنوگے۔
محمد رفیع نے ممبئی آکر ۱۹۴۴ء میں شیام سندر کی ہی موسیقی میں فلم گاؤں کی گوری کے لئے پہلی مرتبہ گیت ریکارڈ کرایا۔ حالانکہ یہ گیت بھی زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ مگر اگلے ہی برس کے۔ آصف کے ماموں، فلمساز نذیر حسین کی فلم لیلیٰ مجنوں میں انہوںنے نہ صرف گیت گیا، بلکہ اداکاری بھی کی۔ اس کے بعد سماج کو بدل ڈالو اور فلم جگنو میں انہوںنے گلوکاری کے ساتھ اداکاری بھی کی۔ فلم جگنو میں ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ان کا گایا نغمہ … ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اتنا مقبول ہوا کہ محمد رفیع نے اداکاری کا جنون سر سے اُتار پھینکا اور اپنی ساری توجہ گلوکاری کی طرف موڑ دی۔ کچھ عرصہ بعد ہی فلم بیجو باورا میں انہوںنے اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ موسیقی کے شائقین آج تک اس جادو کے دائرے سے نکل نہیں پائے۔ چار دہائیوں تک محمدرفیع کی آواز کائنات کے گوشہ گوشہ میں گونجتی رہی۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لئے کشور کمار نے نئی نسل کو اپنی طرف متوجہ کیا، مگر رفیع نے اپنی ثابت قدمی سے اس بات کا ثبوت دے دیا کہ سچے فنکار کے لئے وقت اور حالات کے نشیب وفراز کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ محمدرفیع کیوںکہ سچے فنکار تھے، اس لئے وہ اس معمولی تبدیلی سے قطعی دلگیر نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کے معمولات میں کوئی فرق آیا۔ ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ ایسے وقت میں بھی قائم رہی۔ یہاں تک کہ مرتے وقت بھی ان کی مسکراہٹ نے ان کے ہونٹوں کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
محمدرفیع نے اپنی آواز کی چالیس سالہ زندگی میں ۳۶؍زبانوں میں ۳۰؍ہزار سے زائد گیت گائے۔ دنیا کے کسی حصے میں ایسا گلوکار پیدا نہیں ہوا، اور وہ ہندوستان کے واحد گلوکار تھے جن کے گائے ہوئے مقبول گیتوں کا فیصد سب سے زیادہ رہا۔ ان کے فن کا دائرہ دھنک کی طرح رنگارنگ اور پُرکشش تھا۔ اگر ان کے مقبول گیتوں کا ہی حوالہ دینا شروع کیا جائے تو ایک کتاب الگ سے تیار ہو سکتی ہے۔
محمدرفیع کی آواز میں بے پناہ لچک تھی۔ ان کا اپنا کوئی مخصوص انداز یا اسٹائل نہیں تھا۔ بلکہ وہ ہر کسی کے لئے خوش اسلوبی کے ساتھ گا لیتے تھے، وہ جس اداکار کے لئے اپنی آواز دیتے تھے، پردۂ سیمیں پر معلوم ہوتا تھا کہ وہ اداکار خود گا رہا ہے۔ ان کی آواز کی یہ خوبی ان کے لئے قدرت کا عظیم ترین عطیہ تھا۔ اداکاروں کی مناسبت سے آواز بدلنے پر اُن کو ملکہ حاصل تھا۔ آواز کی یہ خوبی آج تک کسی گلوکار میں پیدا نہیں ہو سکی۔ محمد رفیع کو اپنی آواز اور الفاظ کی ادائیگی پر مکمل گرفت حاصل تھی۔ سنگیت کی ہر لَے پر انہیں کنٹرول تھا اور تمام سُروں پر اُن کو قدرت حاصل تھی۔ بڑے بڑے استادِ فن بھی ان کی گائیکی کا لوہا مانتے تھے۔ استاد فیاض خاں نے انہیں ’’بے عیب سُروں والا فنکار‘‘ کہا تھا۔
محمدرفیع کے گائے ہوئے گیتوں میں سب سے عجیب اور غیرمعمولی گیت وہ ہیں جو انہوںنے اداکار شمی کپور اور مزاحیہ اداکار جانی واکر کے لئے گائے ہیں۔ یہ گیت اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان کا گانا ہر کس وناکس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ ان گیتوں میں شوخی کا انداز بھی بڑا مہذب ہے۔ شمی کپور جیسے کھلنڈرے نوجوان کے ہونٹوں پر یہ گیت ایسے سجتے تھے کہ اس کی اپنی شخصیت کا ایک حصہ معلوم ہوتے تھے۔ دلیپ کمار ہوں یا جانی واکر، شمی کپور، محمود ہوں یا جتندر اور امیتابھ بچن یا رشی کپور… محمد رفیع نے ہر کسی کے لئے الگ الگ انداز میں اپنی آواز کو مولڈ کیا ہے اور گیت سننے والے بہ آسانی یہ پہچان جاتے ہیں کہ یہ گیت فلاں اداکار کے لئے گایا ہوا ہے۔ ان گیتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رفیع صاحب گیت گاتے وقت اداکار اور کردار کی نفسیات، اس کے عادات واطوار کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ محمدرفیع کے گائے ایسے سبھی گیت بے پناہ مقبول ہوئے ہیں۔
محمد رفیع کی ایک سب سے بڑی خوبی جو بہت کم گلوکاروں میں ہوتی ہے، یہ تھی کہ وہ بہت جلد گیت کے مزاج کو سمجھ لیتے تھے اور میوزک ڈائرکٹر کی خواہش کے مطابق گیت ریکارڈ کرا دیا کرتے تھے۔ رفیع صاحب کی آواز کچھ بھی گانے کے لئے ایسی موزوں تھی کہ کمپوزر کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ وہ بڑی آسانی سے غزل، گیت، راگ، پاپ سانگ، نغمہ، مرثیہ، قوالی، سہاگ وغیرہ سب کچھ گا سکتے تھے۔
محمد رفیع ایک عظیم گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے۔ محمدرفیع فلمی دنیا کے دو میں سے ایک ایسے فنکار ہیں جنہیں ہمیشہ فلم انڈسٹری میں اور انڈسٹری سے باہر بھی احتراماً ’صاحب‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا رہا ہے۔ ایک دلیپ صاحب اور دُوسرے محمد رفیع صاحب۔ یہ اُن کی سچے، کھرے اور انسانیت نواز شخصیت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ میوزک ڈائرکٹر چھوٹا ہو یا بڑا، محمدرفیع ہر کسی کو تعاون دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ فلمی دنیا جو اپنے اسکینڈلوں کی وجہ سے کافی بدنام ہے، اسی کیچڑ میں محمدرفیع جیسا آبدار موتی بھی تھا، جس کے ساتھ کبھی کوئی اسکنڈل نہیں جڑا۔ نہ کبھی محمد رفیع نے شہرت حاصل کرنے کے لئے گھٹیا اور سستے قسم کے فلمی ہتھ کنڈے استعمال کئے۔ اپنے بیوی بچوں سے محمد رفیع کو بہت محبت تھی۔ وہ فلمی پارٹیوں میں جانے کے بجائے اپنا وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتے تھے۔ وہ ایک مذہبی قسم کے نیک دل انسان تھے اور غریبوں اور حاجت مندوں کی بڑی خاموشی سے مدد کیا کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ انہوںنے کشور کمار کو بھی اپنی آواز اُدھار دی، اور طلعت محمود کے لئے فلم لالہ رُخ کا گیت… ’’کلی کلی کے لب پر ترے حسن کا فسانہ‘‘… بھی گایا جو کافی مقبول ہوا۔
محمد رفیع اپنے کام کے معاملے میں بہت سنجیدہ رہتے تھے اور باقائدہ ریہرسل کے بعد ہی ریکارڈنگ کرایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنا ذاتی ریکارڈنگ اسٹوڈیو قائم کریں۔ وہ کسی اسپتال کے لئے ایک ڈائلاسس مشین بھی عطیہ کرنا چاہتے تھے اور ایک مسجد تعمیر کرانے کی بھی ان کی تمنا تھی۔ مگر وقت نے انہیں مہلت نہ دی اور اُن کی یہ خواہشیں پوری نہ ہو سکیں۔
۱۹۶۷ء میں حکومت ہند کی طرف سے صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے محمد رفیع کو پدم شری کے اعزاز سے نوازا… اور ۱۹۶۰ء میں فلم چودھویں کا چاند، ۱۹۶۲ء میں فلم سسرال، ۱۹۶۴ء میں فلم دوستی، ۱۹۶۷ء میں فلم سورج، ۱۹۶۸ء میں نیل کمل اور ۱۹۷۷ء میں فلم ہم کسی سے کم نہیں کے لئے محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
آج محمد رفیع ہمارے درمیان نہیں ہیں، ان کو رخصت ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ اس عرصہ میں محمدرفیع کی کمی کا احساس بار بار ہوا ہے، لیکن دور دور تک نظر دوڑانے پر بھی محمد رفیع کا نعم البدل ہمیں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ اب کون ہے جو ایک ہی وقت میں عظیم فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان ہونے کا ثبوت بھی دے؟
اب کون ہے جس کی آواز میں غزل کی مٹھاس ہو… جس کی آواز میں عاشق کی اُمنگ ہو… جس کی آواز میں گیت کا درد ہو… جس کی آواز میں حب الوطنی کا جوش وخروش ہو… جس کی آواز میں باغی کی جھلّاہٹ ہو… جس کی آواز میں قوالی کی عقیدت ہو… جس کی آواز میں بھجن کی شردھا ہو… جس کی آواز میں پیار کی مدھر راگنیاں ہوں… اور جس کی آواز ہر دل کی ترجمانی کر سکے… ؟
وقت کا مرہم رفیع سے ہماری جدائی کے زخم کو تو بھر دے گا، مگر اس خلاء کو پُر نہ کر سکے گا جو محمد رفیع کے ہمارے درمیان سے چلے جانے پر پیدا ہو گیا ہے۔
۲۶؍جولائی ۱۹۸۰ء کو محمد رفیع نے موسیقار لکشمی کانت پیارے لعل کے ساتھ فلم آس پاس کے لئے لتامنگیشکر کے ساتھ اپنی زندگی کا آخری گیت… ’’شہر میں چرچا ہے‘‘ کی ریکارڈنگ کرائی، اور خلاف معمول موسیقار سے کہا… ’’میں چلوں…‘‘۔ موسیقار لکشمی کانت نے انہیں روک لیا اور جاتے جاتے ایک غزل سنانے کی فرمائش کی۔ محمد رفیع نے غزل سنائی اور پھر بڑے عجیب انداز میں کہا۔ ’’اچھا، اب میں چلتا ہوں۔‘‘ …اور وہ چلے گئے۔۳۱؍جولائی کی شب میں محمد رفیع کو دل کا دورہ پڑا… اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
یہ ہمارے ملک کی گندی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ لاکھوں، کروڑوں شیدائیوں کے ہوتے ہوئے بھی عظیم گلوکار محمد رفیع صاحب کو اُن کے انتقال کے ۳۸؍برس بعد بھی آج تک ’بھارت رتن‘ اعزاز سے نہیں نوازا گیا، جبکہ جن لوگوں کو ’بھارت رتن‘ اعزاز سے نوازا گیا ہے، اُن کی تو کئی کئی مثالیں ہمارے ملک ہندوستان میں ہی مل جائیں گی۔ کیا محمدرفیع کی کوئی مثال پوری دنیا میں کوئی دُوسری مل سکی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ’بھارت رتن‘ سے بھی بڑا اعزاز اُن کو ملک اور بیرون ملک کے کروڑوں شیدائیوں نے ’عالمی رتن‘ کے طور پر دیا ہوا ہے… اپنے دلوں میں بساکر۔
آج ہمارے درمیان نہ ہوتے ہوئے بھی ایسا لگتا ہے کہ رفیع اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی آواز اب بھی ہمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ وہ صرف رفیع کی آواز نہیں، بلکہ ان کی روح ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ کیوںکہ روح کو موت نہیں آتی۔ اس لئے رفیع بھی ہمیشہ زندہ رہیںگے۔ آواز کی دنیا کے بادشاہ کو موت کیسے آسکتی ہے…؟؟
"