مسافر کاﺅنٹر کے سامنے قطار باندھے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور ٹکٹ تھے۔ ہر مسافر اپنی باری پر کاﺅنٹر والے کے پاس پہنچتا اور بورڈنگ کارڈ لیتا پھر سب نے دیکھا کہ ایک آدمی ہال میں داخل ہوا۔ وہ قطار میں کھڑا ہونے کے بجائے سیدھا کاﺅنٹر پر گیا۔ کاﺅنٹر والے نے اس شخص سے جو قطار میں تھا اور جس کی باری تھی، اپنی توجہ ہٹالی اور اس کا کام کرنے لگ گیا جو اب آیا تھا۔ اس شخص کا کام شاید پیچیدہ تھا۔ بہت دیر لگ گئی۔ قطار میں کھڑے شخص نے جو عربی روانی سے بول سکتا تھا، کاﺅنٹر والے سے احتجاج کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ قطار میں کھڑے افراد کا حق مقدم ہے اور نئے آنے والے شخص کو قطار میں کھڑا ہونا چاہئے۔ نئے آنے والے شخص کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے حقارت سے کہا…. ”اس لیے کہ میں یہاں کا ہوں اور تم غیر ملکی ہو۔“ قطار میں کھڑے ہونے والے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا…. ”تو تم کیا آسمان سے اترے ہو؟ یا فرشتے ہو….؟“ ”مقامی“ شخص نے قطار میں کھڑے شخص کے ہاتھ سے اس کا پاسپورٹ لے لیا اور کہا ”میں دیکھتا ہوں تم کس طرح جہاز پر سوار ہوتے ہو!“۔ تب کاﺅنٹر والوں نے اس کی منت سماجت کی کہ حضور! درگزر کر دیجئے، یہ حاجی ہے۔“ کافی رد و قدح کے بعد ”مقامی“ شخص نے مسافر کا پاسپورٹ واپس کیا۔
یہ سو فیصد سچا واقعہ پانچ نومبر کو صبح صادق کے وقت پیش آیا۔ ہم اس مقدس ملک کا نام نہیں لکھ رہے جہاں یہ پیش آیا بس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیے اور دو جمع دو کا حساب خود کر لیجئے۔
یہ واقعہ اس لیے لکھنے کو دل چاہا کہ بحرِ اوقیانوس کے اس پار سینڈی طوفان آیا تو کچھ دانشوروں نے امریکی انتخابات کے التوا کا مژدہ سنایا لیکن انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے اور ہارنے والے امیدوار نے دھاندلی کا الزام لگانے کے بجائے اپنی شکست خوشدلی سے تسلیم کر لی۔
دونوں واقعات کا بظاہر آپس میں کوئی منطقی تعلق نہیں لیکن غور کیا جائے تو بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارے لیے ان میں عبرت کے کئی سامان ہیں۔ ہاں، اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اصرار کریں کہ ہم برتر ہیں اور دوسرے مغضوب اور مقہور ہیں تو اس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں! ایک طرف حج کا مقدس موقع اور مقدس مقام ہے جہاں لاکھوں لوگ سفید چادریں اوڑھے اللہ کے آخری رسول کا یہ فرمان یہ رولنگ سنتے ہیں کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں دی جا سکتی اور برتری کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے لیکن عملی طور پر ہر پاکستانی گواہ ہے کہ عربی کو غیر عربی پر اور مقامی کو غیر ملکی پر بالخصوص پاکستانی پر فوقیت دی جاتی ہے۔ سڑک پر دو گاڑیوں کے ٹکرانے سے حادثہ پیش آئے تو مقامی ڈرائیور بے شک اس کی غلطی ہو، صاف چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کماتا پاکستانی ہے اس کی کمائی پر عیش ”کفیل“ کرتا ہے۔ پوری زندگی وہاں گزار دینے کے باوجود اسے شہریت نہیں دی جاتی۔ دکان ہے یا کاروبار یا ٹیکسی، کچھ بھی اس کے اپنے نام پر نہیں! یہ رویہ پتھر کے زمانے کا ہے اور جن اقوام کے رویے ایسے ہوں وہ دنیا میں ڈالر تو کما سکتی ہیں، ترقی نہیں کر سکتیں نہ مہذب کہلانے کا حق رکھتی ہیں۔
دوسری طرف بحرِ اوقیانوس کے اس پار، وہ قوم، جس کے آگے ہم گڑگڑا رہے ہیں کہ ڈرون ٹیکنالوجی ہمیں پلیٹ میں رکھ کر خیرات کر دے، آج کرہ ¿ ارض کی طاقتور ترین حکمران ہے اس لیے کہ وہاں افراد نہیں، ادارے اہم ہیں۔ ہلاکت خیز طوفان کے باوجود انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے۔ انتخابات تو بہت بڑی بات ہے، وہاں کی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی تاریخ اور امتحان کے دن کئی کئی سو سال سے مقرر کردہ چلے آ رہے ہیں اور ان میں تقدیم ہوتی ہے نہ تاخیر۔ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور طے شدہ طریق کار کے مطابق کام کر رہے ہیں کوئی وزیر کوئی امیر کوئی اسمبلی کا رکن یہاں تک کہ ملک کا صدر بھی یہ طریق کار، یہ تاریخ، یہ دن، تبدیل نہیں کر سکتا!
ہم کہاں کھڑے ہیں اور وہ کہاں کھڑے ہیں، اس کی ایک اور مثال دیکھئے۔ چند ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ دو پروفیسر ایک گاڑی میں امریکی ریاست ایلاباما سے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ انہیں واشنگٹن پہنچنے کے لیے جارجیا، شمالی کیرولینا اور پھر ورجینیا سے گزرنا ہے۔ پروفیسر وقار امریکہ ہی میں رہتے ہیں۔ دوسرے پروفیسر، نصیر صاحب، پاکستان سے تشریف لائے ہیں۔ شمالی کیرولینا کی ریاست میں ایک جگہ پولیس انہیں روکتی ہے اور رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا چالان کرتی ہے۔ چالان کا ٹکٹ وصول کرنے کے بعد یہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہیں۔ پروفیسر نصیر اس موقع پر ڈبے سے ایک ٹشو پیپر نکالتے ہیں، ناک صاف کرکے گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہیں اور استعمال شدہ ٹشو پیپر گاڑی سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ پولیس کی کار، جو ابھی وہیں موجود ہے، دوبارہ سرخ بتی روشن کرکے پروفیسروں کی گاڑی روک لیتی ہے۔ پروفیسر وقار جو گاڑی چلا رہے ہیں، نیچے اتر کر حیرت سے پوچھتے ہیں کہ چالان تو ہمارا ہو چکا، اب پھر کیوں روکا جا رہا ہے؟ پولیس بتاتی ہے کہ آپ کی گاڑی سے ٹشو پیپر باہر پھینکا گیا ہے۔ یہ ہائی وے ہے اور شمالی کیرولینا کی ریاست میں ہائی وے پر یا اس کے دونوں کناروں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کی سزا چار سو ڈالر کا جرمانہ ہے۔ یہ آپ کو ادا کرنا پڑے گا۔ اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ آپ یہ کوڑا واپس اٹھائیں اور اپنی گاڑی میں رکھیں۔ پروفیسر نصیر شرمندہ ہوتے ہیں۔ اب وہ ٹشو پیپر ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ مل نہیں رہا۔ پولیس والا ڈھونڈنے میں مدد کرتا ہے۔ نصیر صاحب استعمال شدہ ٹشو پیپر اٹھا کر گاڑی میں ڈالتے ہیں اور سفر دوبارہ شروع ہوتا ہے!
آپ امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں سفر کرکے دیکھ لیجئے، شاہراہیں ہر وقت دھلی ہوئی لگتی ہیں اور ان کے کناروں پر، دونوں طرف، کوئی گندگی، کوئی غلاظت اور کوئی کوڑا کرکٹ نہیں دکھائی دیتا۔ شاہراہیں صاف رکھنے کا اصول انہوں نے کہاں سے لیا ہے؟ ”ابو داﺅد کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو کہ ان کا کرنا لعنت ہے۔ پانی کے چشموں کے پاس اور شاہراہوں کے پاس اور سایہ دار درختوں کے پاس گندگی اور کوڑا کرکٹ پھینکنا۔“بنو امیہ کے دور حکومت میں اس حدیث کی بنیاد پر ماہرین قانون (فقہا) نے شاہراہوں پر یا شاہراہوں کے اردگرد گندگی پھیلانے والوں کے لیے باقاعدہ سزائیں مقرر کی تھیں۔
یہ دہائی دینا کہ ہم اپنی برائی کیوں کرتے ہیں، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے والی بات ہے۔ آج ہماری گلیاں ہماری شاہراہیں ہمارے قصبے اور ہمارے شہر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ ہماری سبزی منڈیاں، ہمارے غسل خانے یہاں تک کہ ہماری مسجدیں بھی صاف نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلوں کی تاریخ سے لے کر امتحان کی تاریخ تک کچھ بھی یقینی نہیں ہے۔ انتخابات کب ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں! عربی کو عجمی پر برتری حاصل ہے۔
غرض عیب کیجئے بیاں اپنے کیا کیا
کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیہہ اور جاہل، ضعیف اور توانا
تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں
بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم ہیں
http://columns.izharulhaq.net/2012_11_01_archive.html
“