آج ایک پروگرام ہونے جا رہا تھا۔۔۔۔
اس پروگرام میں اعلان کیا گیا کہ ہر کسی کی کاوش کو فیس بک پر ڈالا جائے گا۔۔۔۔۔
جس کو زیادہ لائکس آئیں گے ایوارڈ کا حق دار اسے گردانا جائے گا۔۔۔۔
میں نے بڑی محنت سے ایک ایک لفظ چن کر ستاروں کی طرح قرطاس پر ٹانکا۔۔۔۔۔
میرے مدنظر اعتبار فن ایوارڈ کا حصول نہیں تھا ۔۔۔۔۔
میرا مطمحِ نظر اعتبارِ لفظی و معنوی کا وہ خراجِ تحسین تھا جو کمالِ فن سے کسی تخلیق کار کو حاصل ہوتا ہے۔۔۔۔
میرے الفاظ اور حروف مطمئن تھے کہ
ہم ہیں ۔۔۔۔۔
میں نے بھی اپنے دیگر رفقا کے ساتھ اپنا فن پارہ بھیج دیا۔۔۔۔۔۔
دو دن کی دوڑ دھوپ کے بعد پتہ چلا کہ ایوارڈ کا حق دار مجھے نہیں سمجھا گیا۔۔۔۔۔
میں نے اپنے الفاظ، فقرات سے پوچھا۔۔۔۔۔
کہو دوستو!
کہیں کوئی جھول
کوئی سقم تھا تمہارے اندر؟
کہتے کہ واللہ!نہیں
ہم بھی ادریس کی ابجد کے امیں ہیں۔۔۔۔
ھوز، حُطی کلمن کے مکیں ہیں۔۔۔۔
پھر یہ عقدہء دشوار کھلا مجھ پر بھی
کہ مجھے ایوارڈ کیوں نہ ملا؟
کیونکہ۔۔۔۔
کیونکہ۔۔۔۔۔۔
نہ تو میرا فیس ہے نہ میں نے اپنے فیس بک اکاونٹ کو کبھی کھول کر خود بھی پڑھا یا دیکھا ہے۔۔۔۔۔
اور
اور
سب سے بڑا المیہ یہ تھا
کہ مجھے بہت کم لائکس ملے تھے ۔۔۔۔
کیونکہ۔۔۔
میرا کوئی شاگرد ۔۔۔۔۔
گردا گرد۔۔۔۔۔
نہیں تھا۔
کہ دھند میں اندھے ہو کر لائکس دیتے۔۔۔۔
بالآخر
میں مطمئن ہو گیا۔
کیونکہ میرا ضمیر مطمئن تھا
میرا ضمیر مطمئن ہے
میرے الفاظ میرے ہیں
میرے ساتھ ہیں
میری زبان میں لکنت نہیں ہے